آگہی

فوزیہ بنتِ محمود، الخبر، سعودی عرب

اُف یہ میری آواز کو کیا ہوگیا۔کیوں نہیں نکل رہی ہے… دکھائی تو دے رہا ہے لیکن آواز کیوں نہیں نکل رہی ہے۔ مجھے ایسا کیوں محسوس ہورہا تھا جیسے کسی نے میرے اطراف اندھیرے کی چادر تان دی ہو۔ لیکن سامنے کا منظر ایسے عیاں تھا جیسے کہ ٹی وی رکھ دیا ہو کسی نے ۔ میں اٹھنا چاہ رہی تھی لیکن اٹھ نہیں پا رہی تھی گویا کسی نے لوہے کی زنجیر سے مجھے جکڑ دیا۔ میں کہنا چاہ رہی تھی لیکن محسوس ہورہا تھا کہ زبان گویا تالو سے چپک کر رہ گئی ہے۔ میں اپنی زبان کو بھی حرکت نہیں دے پا رہی تھی۔ اُف یہ کیسی بے بسی ہے۔ یہ مجھے کیا ہوا ہے۔ میں سوچنا چاہ رہی تھی لیکن ایسے محسوس ہورہا تھا کہ ذہن نے بھی ساتھ چھوڑ دیا ہو۔ ابھی میں یہ سب سوچ رہی تھی کہ سامنے کا منظر مجھ پر واضح ہونے لگا۔ میں نے غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔ یا اللہ! اگر میں حرکت کرسکتی تو ایک سیکنڈ میں اُن سے اپنی ساڑی چھین لیتی جسے وہ بے دردی کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ میں کہنا چاہ رہی تھی۔ بڑی بہو یہ تم کیاکررہی ہو۔ کتنی قیمتی ساڑی ہے۔ اس بیدردی کے ساتھ تو اس کی تہہ نہ کھولو۔ دیکھو تو بھلا، میں نے کتنی احتیاط سے پیپر لگا کر اسے تہہ کیا تھا کہ زردوزی کا نفیس کام ماند نہ پڑجائے۔ لیکن میری آواز حلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی۔ ہاتھ کے اشارے سے منع کرنا چاہا تو ہاتھ بھی نہیں اٹھ رہا تھا۔ ابھی انہی سوچوں میں غلطاں پیچاں تھی کہ ادھر نظر پڑی۔ پھر کیا کہنا چاہا۔ ارے یہ کیا ان لوگوں نے میری تمام چیزیں برآمد کرلی ہیں،میری الماری سے ۔ ارے بچو! تمہیں کس نے اجازت دی ہے الماری کھولنے کی۔ انہیں اس کی کنجی کہاں سے ملی وہ تو ہر وقت میرے پاس رہتی ہے۔ یہ تمام باتیں میرے ذہن کے کونے میں ابھر رہی تھیں۔ لیکن میں کہہ نہیں پا رہی تھی۔ وہ لوگ میری کیفیت سے ناواقف یکے بعد دیگرے چیزیں نکالنے میں مگن تھے۔ میں نے پھر سامنے کا منظر دیکھا۔ یہ تو چھوٹی بہو دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے ہاتھ میں یہ کیا چیز ہے؟ اوہ! یہ تو بے حد قیمتی Bedsheets ہیں جو میں نے مختلف شہروں سے منگوائی تھیں۔ ہزار ہزار روپئے کی تو میں نے ان پر ایمبرائڈری کروائی تھی۔ تم اتنی بے دردی سے انہیں آپس میں تقسیم کررہے ہو۔ کچھ تو خیال کرو۔
یا اللہ! یہ گھر کے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ میرے سامنے تو یہ میری مرضی کے بغیر کسی چیز کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے۔ اللہ مجھ پر رحم فرما! یہ تو موتیوں والا بیگ ہے۔ مجھے یاد آیا ۲؍برس پہلے جب میں عمرہ کے لیے گئی تھی، تو وہ بیگ مکہ سے خریدا تھا۔ اور اسے ابھی تک استعمال نہیں کیا تھا۔ کتنے لوگوں کی نظر تھی اس پر۔ یہی سوچ رکھا تھا کہ اسے بعد میں استعمال کروں گی۔ اف وہ لوگ اسے اٹھا کر چھوٹی پوتی کو دے رہے ہیں۔ ارے اللہ کے بندو! اسے کیوں دے رہے ہو، وہ تو پہلے ہی سے بے حد لاپرواہ ہے۔ ۲؍دن میںاسے خراب کردے گی۔ ابھی میں بیگ پر ہی افسوس نہیں کرپائی تھی کہ انھوں نے ایک اور قیمتی ساڑی نکالی۔ ان کی آنکھوں کی چمک سے لگ رہا تھا کہ اس ساڑی پر سب کی نظر ہے۔تمام زندگی جو کپڑے میںنے استعمال کیے یہ ان میں سب سے قیمتی ساڑی تھی۔ یہ ساڑی میرا بیٹا جب بنارس گیا تھا، اس وقت میرے لیے لایا تھا۔ ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ دیکھا … انھوں نے وہ ساڑی بڑی بہو کو اٹھا کر تھمادی۔ اف میرے دل کا حال نہ پوچھو! اگر اسے کسی کو دینا ہوتا تو میں چھوٹی بہو کو دے دیتی۔ جس نے کچھ تو میری خدمت کی۔
آج تو مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے گویا یہ لوگ میری غیر موجودگی میں میرا سامان آپس میں بانٹ رہے ہیں۔ سمجھ رہے ہیں مجھے خبر ہی نہ ہوگی، لیکن میں تو ان کی سب حرکتیں دیکھ رہی ہوں۔ اچانک مجھے جھرجھری سی آئی کہ آخر میں کہاں ہوں؟ اس سے آگے سوچنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔
پھر میں نے سامنے توجہ کی۔ اور سامنے کے منظر کو دیکھ کر تو میں دنگ رہ گئی۔ میرے مالک! ان کے ہاتھ تو زیور کا ڈبہ بھی لگ گیا۔ میں کہنا چاہ رہی تھی۔ اب کیا میرے زیور کو بھی ہاتھ لگا رہے ہو تم لوگ۔ میںنے خود کلامی کے انداز میں کہا۔ ارے نالائق بچو! یہ میرا زیور کیوں آپس میں تقسیم کررہے ہو۔ اف ! کتنی مشکل سے ایک ایک پیسہ جوڑ کر میں نے وہ زیور بنایا تھا۔ مجھے یاد آیا۔ گھر کے خرچ میں کمی کرکے، بلکہ کبھی کبھی تو میں کنجوسی بھی کرجاتی۔ مجھے اپنی سابقہ حرکتوں کے بارے میں سوچ کر خود پر شرمندگی بھی ہوئی۔ یہ تینوں بیٹوں اسے آپس میں تقسیم کررہے ہیں ایسے لگتا ہے جیسے انھوںنے ہی خریدا تھا۔ جبکہ یہ زیور تو میرا ہے صرف میرا۔ لیکن میں سوچنے لگی اگر میرا ہے تو میں اس تک پہنچ کیوں نہیں پا رہی؟ وہ میری دسترس سے دور کیوں ہے؟ کتنے خوش نظر آرہے ہیں وہ لوگ۔ ان کے ہاتھ تو گویا خزانہ لگ گیا ہے۔ میں سوچنے لگی کہ کوئی چیز ڈھنگ کی میں نے تمام عمر استعمال نہیں کی اور سنبھال کر رکھی کہ بعد میں استعمال کروں گی۔ پرانے کپڑے استعمال کرتی رہی کہ اچھے کپڑے گھر میں پہن لوں گی تو خراب ہوجائیں گے۔ اور یہ لوگ کیسے بے جھجھک انہیں سمیٹ رہے ہیں۔ میں دل ہی دل میں افسوس کرنے لگی۔ دیکھو تو ذرا منجھلی بہو کو کتنی خوش نظر آرہی ہے۔ وہ چکن کا نیاڈریس اس کے ہاتھ میں نظر آرہا ہے۔ میں حسرت سے دیکھنے لگی ابھی تو میں نے اسے پہنا بھی نہیں تھا۔ اچانک مجھے یاد آیا میرا چھوٹا بیٹا جس کو گھر میں اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی اس نے کہا تھا، امی! زلزلہ آیاہے، سب جگہ سے مدد پہنچ رہی ہے۔ کپڑے ،رقم ، آپ بھی جو دے سکتے ہیں، دے دیجیے۔ اس نے میری الماری کی جانب اشارہ کرکے کہا تھا۔ آج اپنی یہ تجوری خالی کردیجیے۔ (گھر کے سب لوگ میری اس بڑی سی الماری کو تجوری کہتے تھے) یہی موقع ہے جنت میں گھربنانے کا۔ وہ بہت جوش میں اپنی بات کہے جارہا تھا۔ گویا کہ جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔ میں ایک لمحہ کے لیے تو سن ہوگئی۔ ہونقوں کی طرح اس کا منہ تک رہی تھی کہ یہ لڑکے کو کیا ہوگیا!!! اس کا دماغ تو نہیں چل گیا۔ بھلا اتنی قیمتی چیزیں جنہیں میں نے اپنی جان سے بڑھ کر سنبھال کر رکھا، کیا لوگوں میں یوں ہی بانٹ دوں!!! یہ چیزیں دینے کی تھوڑی ہوتی ہیں۔ میں یہ سوچ رہی تھی اور وہ اپنی کہے جارہا تھا۔ امی! جو جتنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں دے گا اس کو اتنا ہی بلند درجہ ملے گا۔ یہ میں اس وقت وہ باتیں کیوں سوچ رہی ہوں؟
ارے یہ کیا! سامنے نظر کی تو وہ منظر بھی غائب تھا۔ اب تو چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے رہا تھا۔ مجھے گھبراہٹ ہونے لگی۔ مجھے ایسے لگا جیسے میری گویائی واپس آگئی ہو۔ دھیرے دھیرے منظر واضح ہونے لگا۔ دیکھا تو اپنا ہی کمرہ تھا۔ وہ بڑی سی الماری بھی بازو میں نظر آئی۔ یا میرے مالک تو کیا یہ خواب تھا؟ میری آنکھوں سے آنسو خود بخود جاری تھے۔ سارا بدن اس خواب کی ہیبت سے پسینے میں شرابور۔
میں بہت پشیمان تھی اور پریشان بھی۔مجھے اس خواب کی حقیقت سمجھ میں آگئی تھی۔ میں اللہ کی شکر گزار تھی کہ اس رب نے مجھ بڑھیا کو ایک مہلت دے دی۔ ایک موقع عنایت کردیا کہ اس دنیا سے جانے سے پہلے اپنا اعمال نامہ کچھ درست کرلوں، کچھ اچھے کاموں سے۔
میں سوچ رہی تھی میں کتنا مال جمع کرکے رکھتی ہوں۔ مجھے خود ہی شرمندگی ہونے لگی اپنی اس عادت کے بارے میں سوچ کر۔ نہ خود استعمال کرتی ہوں نا ہی دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہوں۔ مجھے اپنے تمام پرانے رویے یاد آنے لگے۔ مجھے اپنے بیٹے کی بات یاد آئی کہ یہی تو ’’شحِ نفس‘‘ ہے یعنی دل کی تنگی۔ یا اللہ! تیرا کس زبان سے شکر ادا کروں کہ تو نے مجھے ایک موقع عطا کردیا۔ اگر یہ موقع نہ ملتا تو یہ سب مال تو وارثوں کا ہونا ہی تھا۔ کیوں نہ اسے اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرکے اللہ کی نظروں میں سرخ رو ہوجاؤں…
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146