ایک انسان کی تخلیق میں پوری کائنات کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح مصروف کیا ہے اس کا اندازہ کیجیے۔ زمین سورج، چاند، سمندر، ہوائیں، بارش اور موسموں کی تبدیلی کس طرح انسان کے لیے غلہ اگاتے اور اس کی ضرورتوں کا سامان کرتے ہیں۔ پھر ماں باپ کی مشقتیں اور پریشانیاں گھر اور اہل خانہ کی محبتیں کیسے اس کی نشوو نما اور تعمیر میں اہم رول ادا کرتے ہیں — اور — اور پھر جب ایک نئی جان اس دنیا میں آتی ہے تو کس طرح خوشیوں کے شادیانے بجتے اور دل و دماغ کھل اٹھتے ہیں یہ اللہ کی زبردست نشانی ہے۔
پھر زندگی میں ایک اور لمحہ آتا ہے جب زندگی کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور اس وقت زندگی ایک عجیب و غریب کرب اور تکلیف کے ایسے احساس میں مبتلا ہوجاتی ہے جس کو فراموش کرنا کبھی کبھی انسان کے بس سے باہر ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ قدرت کی مشیت اور اس کا قانون ہے کہ ہر جاندار کو زندگی کے اختتام کا سامنا کرنا ہی ہوتا ہے۔ پھر کچھ لوگ انتہائی بڑھاپے میں، کچھ جوانی کے مرحلہ کو پہنچتے ہی اور کچھ نوعمری ہی میں موت کی گود میں چلے جاتے ہیں۔ کل نفس ذائقۃ الموت۔
آج میں بھی اسی کرب اور تکلیف کے احساسات سے ٹوٹی پڑتی ہوں اور سچ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ صبر نہ دے اور غموں کو برداشت کرنے کی طاقت کم کردے تو انسان زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے۔ اور — بعض لوگ اس مایوسی کے عالم میں کیا کچھ کر ڈالتے ہیں اور کیا کیا کچھ کہنے لگتے ہیں۔ معاذ اللہ
میں ان لمحوں کو کیسے فراموش کرسکتی ہوں جب اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک تحفہ اور ایک امانت دے کر خوشیوں سے مالا مال کیا تھا۔ اور اب ان لمحوں کو یاد کرکے بے اختیار آنکپوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ جب وہ تحفہ اور وہ امانت مجھ سے واپس لے لی گئی ہے۔
میں نے جس لمحے اسے دیکھا تھا اس کی تصویر میرے دل کے نہاں خانوں میں محفوظ ہوگئی تھی۔ میں نے اس کو قرار جان اور اس کی محبت کو اپنی زندگی بنالیا تھا — اور — اور میں اس کی زندگی کے لیے مرتی اور اس کی خوشیوں کے لیے جیتی تھی — وہ میرا راز دار ، میرا سہارا اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تھا۔ وہ میرا محبوب تھا اور اس کی محبت میری زندگی تھی۔
آہ اے میرے محبوب! تجھے حاصل کرنے اور تجھے اپنانے کے لیے میں نے کتنے مصائب اور کیسی کیسی مشکلات برداشت کیں۔ تجھے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک بنانے کے لیے میں نے بے شمار پریشانیوں کا سامنا کیا۔ بارہا نیند سے دور گویا کانٹوں کے بستر پر میں نے راتیں گزاریں اور ان راتوں میں بھی میں نے خوشی محسوس کی۔ رات کے اندھیروں کو میں نے دن کے اجالے کی طرح برتا اور اپنی رگوں کا خون تجھے پلاکر عجیب و غریب لذت محسوس کی۔ تیرے ہر آرام کو اپنی زحمت اور پریشانیوں کی قیمت پر بھی فراہم کیا اور تیری زندگی پر اپنی موت کو قبول کرلینے کا دل و جگر پیدا کرلیا۔ میں تیری محبت کی پیاس لیے صحرا صحرا بھٹکتی رہی اور لمحہ بھر کے لیے بھی تیری محبت سے دور نہیں ہوئی۔ میں نے وفاداری اور عشق و محبت کے وہ عہد و پیمان تیرے ساتھ باندھے جو ہر ماں اپنے بچہ سے فطری طور پر باندھتی ہے اور جس کا ہمارے پیدا کرنے والے نے حکم دیا ہے — اور — اور میں نے اپنے اس عہد کی ہر لمحہ پاسداری کا لحاظ بھی رکھا۔
مگر اے میرے محبوب! آہ اے میرے محبوب! مجھے بتا کہ تجھے میری کونسی ادا ناگوار گزری اور میرا کون سا عمل کون سی حرکت تیری ناراضگی کا سبب بنی کہ تو نہ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھتا ہے اور نہ اپنی موہوم زبان سے محبت کے وہ نغمے سناتا ہے جن کو سن کر میںنہال ہوجایا کرتی تھی۔ آخر — آخر تجھے ہوکیا گیا؟ آج تو خاموش کیوں ہے؟؟ تیری آنکھیں کیوں مندی ہیں اور تیری زبان کیوں خاموش ہے؟؟؟ بول کچھ تو بول۔ کچھ تو کہہ۔ تاکہ میرے دل کو سکون ہوجائے، میں جان لوں کہ آخر ہوا کیا ہے۔
آخر ایک صدا آئی، خبردار!! یہ رب کائنات کا صدیوں سے جاری اور اٹل قانون ہے۔ جو اس پر جاری ہوگیا ہے۔ اور اب تم ایک نئے امتحان میں قدم رکھنے والی ہو۔ یہاں آہ و بکا اور شکوہ سنجی کرنے والوں کو ناکامی کے علاوہ کچھ میسر نہ آئے گا البتہ صبر و ثبات کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے بیش بہا انعامات اور احسانات کا وعدہ ہے۔ اب وہ جسے تو اپنا محبوب بنائے ہوئے تھی کسی اور کا محبوب ہوگیا ہے۔ اور جس نے وہ تحفہ، وہ امانت اور وہ محبت کی تصویر تمہارے سپرد کی تھی اس نے اسے واپس لے لیا ہے۔
اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ کوئی امانت کے طور پر اپنی چیز اس کے پاس رکھتا ہے تو وہ اس سے اس قدر مانوس ہوجاتا ہے کہ واپس لینے سے شکوے شکایات اور آہ و فغاں کرنے لگتا ہے۔ خود کو بدنصیب، بے سہارا اور محروم گردانتے ہوئے خود کو بے سہارا تصور کرنے لگتا ہے۔
اے میرے رب! اے میرے پروردگار مجھے تیرا فیصلہ منظور ہے۔ میں اس پر راضی ہوں اور تجھ سے خیر اور بھلائی کی طلب گار ہوں۔ بس تو مجھے معاف فرمادے اور اپنے خیر کے خزانوں سے مجھے بھی نواز۔ میں تیری بندی اور تیری غلام ہوں۔ تو بڑا کرم کرنے والا اور بڑا نوازنے والا ہے۔
لیکن میرے پروردگار میں ان یادوں کو کہاں اور کس طرح دفن کرو جو میرے جسم اور دماغ میں خون بن کر دوڑ رہی ہیں اور جن کی تصویر دیکھ کر میری آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔ بس تومجھے صبر عطا فرما اور اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق دے۔
اور — اور ایک دن ہم سب کو بھی تو لوٹ کر تیرے ہی پاس آجانا ہے نا — ہاں، ضرور— لیکن میں تجھ سے یہ توقع ضرور کرتی ہوں کہ کل جب میں تیرے پاس آؤں گی تو تو میرے اس ننھے محبوب سے میری ملاقات ضرور کرائے گا۔
’’بے شک ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر ہم کو جانا ہے۔