شہد کی مکھیوں کے کاٹنے سے اس کا چہرہ بری طرح سوجا ہوا تھا مگر اس کا دل بے حد خوش تھا اور درد کا احساس کافور ہوچکا تھا، حالانکہ علی الصبح برگد کے درخت پر لگے چھتے سے شہدنکالتے ہوئے جب تیس چالیس مکھیوں نے اس کے چہرے میں اپنے ڈنک اتار دیے تھے تو درد کے مارے اس کی چیخ نکل گئی تھی۔ پھر درخت سے نیچے اترنے اور پلاسٹک کی بالٹی میں شہد جمع کرنے تک روشن کا چہرہ کپا بن چکا تھا، جسے دیکھ کر اس کی بیوی شاداں بے ساختہ مسکرادی۔ روشن نے بالٹی کو کپڑے سے ڈھانپا اور خاموشی سے کھری کھاٹ پر چاروں شانے چت لیٹ گیا۔ شاداں اس کی پٹی پر بیٹھ گئی۔ وہ انگوٹھے اور انگشتِ شہادت کی مدد سے اپنے شوہر کے چہرے سے مکھیوں کے ڈنک نکالنے لگی۔ ڈنک نکل چکے، روشن اٹھ کھڑا ہوا تو وہ بولی: ’’لوگ کیوں یقین نہیں کرتے کہ تم خالص شہد بیچتے ہو؟‘‘
’’بڑا بے اعتباری کا زمانہ ہے، جیجے کی ماں! ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رہا۔ لوگوں نے خلوص کی پہچان کھودی ہے تو سچا اور خالص شہد کون پہچانے؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ شہد کی بالٹی اٹھا کر روزی کمانے باہر نکل گیا تھا۔
وہ انسانوں کے اس طبقہ میں شامل تھا، جن کا کوئی مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہوتا۔ چند ماہ یا سال کے بعد وہ اپنا پیشہ تبدیل کرلیتے ہیں۔
نوجوانی میں وہ گاؤں کے ایک زمیندار کے ہاں بٹائی کا کام کرتا تھا۔ شاداں سے شادی کے بعد وہ اینٹوں کے بھٹے پر مزدوری کرنے لگا۔ یہاں ماحول راس نہ آیا تو دونوں میاں بیوی شہر کی ایک کچی آبادی میں جابسے۔ یہاں روشن گیس کے غبارے فروخت کرنے لگا۔ ایک بار گرمیوں میں اس نے برف کے گولے بھی لگائے مگر چند ہی روز بعد میونسپلٹی والے اپنے ٹرک میں اس کی ریڑھی اٹھا کر لے گئے۔ اس نے ریڑھی کی بازیابی کے لیے ٹاؤن ہال کے کئی چکر لگائے مگر کسی نے اس کی بات نہ سنی۔ اس کی جیب میں جرمانہ بھرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔
شاداں نہایت وفاکیش اور صابر عورت تھی۔ روشن کی بے روزگاری کو اس نے مشترکہ دکھ جانا۔ ایک بار مغرب کے وقت روشن اپنے گھر میں داخل ہوا دیکھا، شاداں ازار بند بن رہی تھی۔ اس کے پاس ہی ازار بند کے دھاگوں کا ایک بڑا سا ڈھیر لگا تھا۔ روشن کی آنکھیں سوالیہ نشان بن گئیں تو شاداں نے کہا: ’’ساتھ والی نوراں یہ کام کرتی ہے۔ میں نے اسے کئی روز سے کہہ رکھا تھا کہ میرے لیے بھی کام لے آئے۔ آج صبح تمہارے گھر سے جانے کے بعد وہ یہ لے آئی۔ میں نے سوچا چار پیسے ہی بن جایا کریں گے۔ محنت میں کیسی شرم؟‘‘
سچی بات ہے۔ روشن اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا۔ اس کا جی چاہا وہ اس ڈھیر کو گھر سے باہر پھینک دے لیکن پھر نجانے کیا سوچ کر وہ چپ رہا۔
دوسرے دن ساتھ کی کچی آبادی میں گلیوں کے راستوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو روشن وہاں اینٹیں توڑنے پر لگ گیا۔ گھر میں پھر مرد کی کمائی آنے لگی۔ شاداں کا چہرہ کھل اٹھا۔ بارہ دیہاڑیوں کے بعد روشن اس کام سے بھی فارغ ہوگیا۔
ان کے دن اسی دھوپ چھاؤں میں بیت رہے تھے کہ ایک روز وہ د وسے تین ہوگئے۔ ان کے گھر ایک بچے نے جنم لیا تھا۔ اس کا نام روشن نے عزیز رکھا۔ وہ جب پاؤں پاؤں چلنے لگا تو عزیز سے جیجا بن گیا۔ ایک صبح روشن نے سبز چائے اپنے حلق میں انڈیلنے کے بعد نعرہ لگانے کے اندازمیں کہا تھا: ’’شاداں! میں جیجے کو ضرور پڑھواؤں گا۔ میں اسے اپنی طرح چٹا اَن پڑھ نہیں رہنے دوں گا۔ بڑا ہوکر یہ میرا بازو بنے گا۔‘‘
’’میری بھی یہی خواہش ہے روشن! کہ جیجا ہماری طرح جاہل نہ رہ جائے، بلکہ بڑی بڑی کتابیں پڑھے۔‘‘ شاداں جیجے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
بس پھر اس روز سے روشن ایک مشین بن گیا۔ اس مشین نے سڑکیں کوٹیں، شہر کے گھروں میں چونے کی سفیدیاں کیں، مٹی تک ڈھوئی تاکہ جیجا اسکول جاتا رہے۔ اور جیجا اسکول جاتا رہا اور آخر ایک دن اس نے سیکنڈ ڈویژن میں دسویں پاس کرلی۔
٭٭
ادھر جیجے نے میٹرک کیا، ادھر روشن نے اس کی نوکری کے خواب دیکھنے شروع کردیے۔ اسے یہ خواب رات ہی کو نہیں دن کو بھی نظر آتے تھے مگر جب جیجے کی عمر اٹھارہ برس ہوئی تو اس کے لیے یہ حقیقت ایک کشف کے مانند کھلی کی بیشمار ایم اے پاس بھی روزگار کے لیے دھکے کھا رہے تھے، میٹرک کی حیثیت ہی کیا ہے۔
جیجے کی دربدری روشن کو اندر سے گھائل کرگئی۔ ایک رات سو نے کے لیے بستر پر دراز ہونے سے پہلے اس نے بری طرح کھانسنے کے بعد شاداں سے کہا: ’’مجھ سے اب ڈھائی من کی بوری نہیں اٹھائی جاتی، لگتا ہے میں بوڑھا ہوگیا ہوں، میرے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہوچکی ہے۔‘‘
’’تو پھر تین پیٹ کیسے بھریں گے؟‘‘ شاداں کا سوال تھا۔
’’میرے ذہن میں ایک بات ہے۔‘‘ روشن کہنے لگا۔ شاداں ہمہ تن گوش ہوگئی۔ ’’ہماری بستی میں برگد اور کیکر کے بیس پچیس درختوں پر شہد کے چھتے لگے ہوئے ہیں۔ کیوں نہ کل سے جیجے کو ساتھ ملا کر ان چھتوں سے شہد نکال کر شہر میں بیچنے کا دھندا کروں۔‘‘
’’بات تو ٹھیک ہے مگر کیا محلے والے تمہیں درختوں سے چھتے اتارنے دیں گے؟‘‘ شاداں نے سوال کیا۔
’’میرے خیال میں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ درخت کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ پھر بھی اگر کسی نے برا مانا تو اس کو آمدنی سے تھوڑے سے پیسے دے دوں گا۔‘‘
بات شاداں کے دل کو لگی، وہ مطمئن ہوکر سوگئی۔
٭٭
صبح روشن نے جیجے کو برگد کے ایک درخت پر چڑھایا مکھیوں سے بچنے کے لیے جیجے نے اپنے چہرے پر اس طرح کپڑا لپٹ رکھا تھا کہ فقط اس کی آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ چھتے اتارتے ہوئے مکھیوں نے اس کے ہاتھ پر کاٹا جو اس کے لیے قابلِ برداشت تھا۔ روشن نیچے پلاسٹک کی بالٹی لیے کھڑا تھا۔ اس نے چھتہ توڑا تو اس میں سے ایک کلو سے زیادہ شہد برآمد ہوا۔ بالٹی کو کپڑے سے ڈھانپ کر وہ اسے بیچنے کے لیے شہر لے گیا۔ اسے امید تھی کہ شہد چونکہ خالص ہے، اس لیے فوراً ہی معقول قیمت پر بک جائے گا مگر معاملہ اس کے بالکل الٹ نکلا۔ ایک دکان کے باہر کھڑے چند لوگ خوردنی اشیا میں ملاوٹ کے گھناؤنے کاروبار پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔ روشن ان کے پاس جاکھڑا ہوا اور بولا: ’’لیکن بابوجی، میرا شہد خالص ہے۔‘‘ لوگ اسے سرتاپا دیکھنے لگے۔ ان میں سے ایک بولا: ’’کپڑا ہٹاؤ۔‘‘
روشن نے بالٹی سے کپڑا اٹھا دیا۔
’’یہ بڑی کاہے یا چھوٹی مکھی کا؟‘‘ ایک شخص نے پوچھا۔
’’چھوٹی مکھی کا جی۔‘‘ روشن نے جواب دیا۔
’’مجھے تو یہ خالص نہیں لگتا۔‘‘ دوسرے نے بڑے با اعتماد لہجے میں کہا۔
’’سونگھ کر دیکھ۔‘‘ ایک اور آواز آئی۔
’’ابھی پتہ چل جاتا ہے۔ روٹی کاٹکڑا لاؤ۔ اسے شہد لگا کر کتے کے آگے ڈالتا ہوں، اگر وہ کھاگیا تو سمجھو شہد نقلی ہے۔‘‘ ان میں سے سب سے بڑی عمر والے نے کہا۔
’’جناب یہ خالص شہد ہے جیسے چاہیں آزمالیں۔‘‘ روشن بولا۔
’’کھاؤ قسم کہ یہ خالص شہد ہے۔‘‘
’’یہ اگر خالص شہد نہیں ہے تو قسم کھانے سے خالص تو نہیں بن جائے گا۔‘‘ روشن نے کہا۔
اتنے میں ایک آدمی نہ جانے کہاں سے ایک روٹی لے آیا۔ دکاندار نے گرم گرم دودھ کا ایک گلاس منگوالیا۔ روٹی شہد میں ڈبوئی گئی۔ دکاندار دودھ میں شہد ملا کر پی گیا۔ شہد لگی روٹی کھانے کے لیے کوئی کتا آس پاس نہیں تھا، لہٰذا وہ بھی کھا لی گئی۔
پھر دکاندار بولا: ’’بابا کس بھاؤ دوگے؟‘‘
’’آپ جو جائز سمجھتے ہیں دے دیجیے۔‘‘
’’تیس روپے کلو؟‘‘
’’یہ تو کم ہیں جی۔‘‘
’’بس اس سے زیادہ نہیں ملیں گے۔‘‘ دکاندار نے دس دس کے تین نوٹ اور شیشے کا ایک مرتبان روشن کی طرف بڑھا دیے۔ روشن نے کچھ توقف کیا، پھر پیسے پکڑے۔ شہد مرتبان میں انڈیلا اور خالی بالٹی لے کر گھر چلا گیا۔
شہد کی فروخت اس کا معمول بن کر رہ گیا۔ ایک روز شہد بیچ کر وہ گھر پہنچا تو انتہائی پریشان تھا۔ شاداں نے پوچھا: ’’خیریت تو ہے؟‘‘
روشن بولا: ’’سوچتا ہوں یہ سلسلہ بھی کب تک چلے گا، چھتے ختم ہوئے تو میرا دھندھ بھی ٹھپ سمجھو۔‘‘
’’جیجے کو کہیں نوکری مل جائے تو ہم بھی سکھ کا سانس لیں۔‘‘
’’لگتا ہے اس کی قسمت میں بھی ہوائی رزق لکھا ہے۔‘‘
٭٭
’’تم شہر میں گلی گلی گھومتے ہو۔‘‘ شاداں کہنے لگی۔ ’’شہر کے کسی افسر سے جیجے کی بات کرو نا؟ شاید کسی کو ترس آہی جائے۔‘‘
’’کیوں کھائے گا کوئی ہم پر ترس! سب اپنی دنیا میں مگن ہیں۔‘‘ روشن چڑچڑا ہورہا تھا۔
’’یہ جو بڑے لوگ غریب عوام، غریب عوام کی رٹ لگاتے ہیں، کیا انھیں تم اور تمہارا بیٹا نظر نہیں آتے۔‘‘ شاداں کے لہجے میں بڑی چبھن تھی۔
روشن گہری سوچ میں غرق ہوگیا۔ شاداں کی زبان سے بڑے لوگوں کا سن کر اس کا دھیان چودھری حاکم علی کی طرف چلا گیا تھا جو اس آبادی کا کونسلر تھا۔ روشن نے اسے دیکھا ضرور تھا مگر اس سے کبھی بات چیت کی نوبت نہیں آئی تھی۔
’’کیا سوچنے لگے؟‘‘ شاداں پھر گویا ہوئی۔
’’سوچ رہا ہوں چودھری صاحب سے بات کرکے دیکھوں۔‘‘
’’کون چودھری؟‘‘
’’چودھری حاکم علی اپنا کونسلر۔‘‘ روشن خلا میں نظریں گاڑتے ہوئے بولا ’’سنا ہے بہت سخی اور غریب پرور انسان ہے۔‘‘
’’اگر وہ ایسا ہی مخلص ہے تو اس سے فوراً بات کرو۔‘‘
’’بس جونہی موقع ملا میں اس سے مل لوں گا۔‘‘ روشن سونے کے لیے کھاٹ پر دراز ہوگیا۔
٭٭
کچی بستی کے آخری گوشے میں ایک بوڑھے برگد پر شہد کی مکھیوں کے اکٹھے پانچ چھتے لگے تھے۔ ایک صبح روشن انھیں اتارنے لگا تو تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود ایک چھتے کی مکھیوں نے اس پر حملہ کردیا۔ اس کے لیے یہ کوئی نئی چیز نہ تھی۔ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ اس تجربے سے دوچار ہوچکا تھا۔ تاہم شہد کی مکھیوں کے کاٹنے سے اس کا چہرہ سوج گیا۔ وہ شدید درد محسوس کررہا تھا لیکن چھتوں سے پانچ چھ کلو شہد اس کی بالٹی میں جمع ہوگیا تو تکلیف کی شدت جاتی رہی تھی۔
شاداں سے مکھیوں کے ڈنک نکلوا کر وہ شہد کی بالٹی اٹھائے باہر نکلا تو اسے فضا بدلی بدلی دکھائی دی، بلکہ سارا ماحول اسے عجیب سا لگا۔ کئی نوجوان دیواروں پر بڑے بڑے رنگین تصویروں والے پوسٹر چسپاں کررہے تھے، دکانوںکے ٹھروں پر لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں بڑی گرمجوشی کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھیں۔ چند منٹوں تک روشن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ وہ چودھری حاکم علی کی حویلی کے آگے سے گزرنے لگا تو خلافِ معمول اس کا صدر دروازہ کھلا ہوا پایا۔ اندر لوگوں کا ایک ہجوم موجود تھا۔ روشن ابھی الجھن میں تھا کہ حویلی سے آواز آئی: ’’بابا روشن اندر آجاؤ۔‘‘
روشن حویلی میں داخل ہوگیا۔ چودھری حاکم کا منشی لوگوں کو گرم گرم سبز چائے پلارہا تھا۔ اس نے چائے کا ایک کپ روشن کے ہاتھ میں تھمادیا۔ اس نے ابھی چائے کی دو ہی چسکیاں لی تھیں کہ چودھری حاکم علی سیاہ شیروانی زیب تن کیے اپنے کمرے سے برآمد ہوئے۔ انھیں دیکھتے ہی وہاں موجود لوگوں نے چودھری حاکم علی زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کردیے۔
روشن سارا معاملہ سمجھ گیا۔ چودھری حاکم علی اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے رہا تھا۔ روشن نے آگے بڑھ کر اسے سلام کیا تو اس نے بڑی اپنائیت کے ساتھ روشن کو کندھوں سے پکڑ کر مونڈھے پر بٹھادیا اور اس انداز سے اس کی خیریت دریافت کی کہ روشن کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو امڈ آئے۔ پھر جب چودھری نے پچاس روپے فی کلو کے حساب سے اپنے کارکنوں کے لیے سارا شہد خرید لیا تو تین سو روپے جیب میں ڈال کر روشن اپنے آپ کو انتہائی ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا، حالانکہ اس کا چہرہ ابھی تک سوجا ہوا تھا۔
رات سوتے وقت اس نے شاداں کو چودھری حاکم علی سے اپنی ملاقات کے بارے میں بتایا۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ چودھری الیکشن میں کھڑا ہورہا ہے تو وہ بولی: ’’چودھری صاحب سے اپنے جیجے کی بات ضرور کرنا۔ وہ اسے ضرور کہیں نہ کہیں لگوادیں گے۔‘‘
’’ذرا صبر کرو، ابھی انہیں الیکشن تو جیت لینے دو۔‘‘
جوں جوں پولنگ کا دن قریب آتا گیا۔ شہر کی رونق میں اضافہ ہوتا گیا۔ امیدوار اپنے حامیوں کے جلو میں گلی گلی جاتے، تقریریں اور ووٹروں سے وعدے کرتے۔ کچی آبادی چودھری حاکم علی کے حلقے میں شامل تھی۔ پولنگ سے چھتیس گھنٹے پہلے چودھری نے یہاں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا، جس میں اس نے کچی آبادی کے مکینوں کو ہر طرح کی سہولتیں دلوانے کا وعدہ کیا۔ جلسے کے اختتام پر چودھری اسٹیج سے اترا ہی تھا کہ روشن اس کے پاس جاپہنچا۔ چودھری نے بڑی گرمجوشی سے اسے سینے سے لگالیا۔ بستی کے باقی لوگ روشن کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس لمحے روشن نے اپنی ذات میں بے پناہ توانائی محسوس کی۔ اس نے اپنا ایک بازو چودھری کے گلے میں حمائل کردیا اور منہ ان کے کان کے قریب لے جاکر کہا:’’چودھری جی! قومی اسمبلی کے ممبر بن جاؤگے تو میرے جیجے کو نہیں بھولنا۔‘‘
’’کیوں نہیں… کیوں نہیں۔‘‘ چودھری نے بڑی سعادتمندی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
٭٭
پولنگ کا دن آن پہنچا۔ روشن ،شاداں اور جیجا تینوں صبح ہی صبح اپنا ووٹ ڈال آئے۔ رات تقریباً بارہ بجے پٹاخوں کے دھماکوں میں انہیں پتہ چلا کہ چودھری حاکم علی کامیاب ہوگیا ہے۔ روشن اور شاداں بستر پر اٹھ کے بیٹھ گئے جبکہ جیجا گہری نیند سوتا رہا۔
’’اللہ تیرا شکر ہے… اب ہماری بھی سنی گئی۔‘‘ شاداں نے کہا۔
’’صبح چودھری صاحب کو مبارکباد دینے حویلی جاؤں گا۔‘‘
’’ضرور جانا اور اب جیجے کی بات پکی کرآنا۔‘‘
’’تیرا دماغ تو نہیں چل گیا۔‘‘ روشن بولا ’’ابھی کئی دفتری کارروائیاں ہوں گی تب کہیں جاکریہ ممبر اپنی کرسیوں پر بیٹھیں گے۔‘‘
تاہم اس دوران میں روشن ہر دوسرے تیسرے دن حویلی کا چکر ضرور لگاآتا مبادا چودھری صاحب اس کا کام بھول جائیں۔
ایک شام چودھری صاحب کی حویلی میں بڑی رونق تھی۔ حویلی والا بازار برقی قمقموں سے بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ صبح چودھری صاحب اسمبلی میں اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر آئے تھے۔
روشن حویلی میں گیا تو وہ بڑے صوفے کے عین بیچ میں بیٹھے اپنے ساتھیوں سے انگریزی زبان میں گفتگو کررہے تھے۔ روشن ان کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ اسے یقین تھا کہ رش کی وجہ سے چودھری صاحب اسے نہیں دیکھ پائے۔ مگر نہیں، اس کا خیال غلط تھا۔ چودھری نے کئی مرتبہ اسے دیکھا لیکن اس طرح نہیں جیسے ممبر بننے سے پہلے وہ دیکھا کرتے تھے۔ یہ وہ چودھری حاکم علی نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں تو گہری اپنائیت تھی جبکہ چودھری کی آنکھوں سے اجنبیت جھلک رہی تھی۔
آخر روشن سے نہ رہا گیا۔ وہ چودھری صاحب کے بالکل قریب پہنچ گیا اور بولا: ’’چودھری جی! مبارک باد قبول کیجیے۔‘‘ پھر چند لمحے توقف کے بعد گویا ہوا’’میرے جیجے کے لیے اب نوکری کا بندوبست کردیجیے جی۔‘‘
’’تمہارے جیجے کے لیے! کیا کرتا ہے وہ؟‘‘ چودھری صاحب کا لہجہ بدلا ہوا تھا۔
’’کچھ نہیں جی! میرے ساتھ درختوں سے شہد کے چھتے اتارتا ہے۔‘‘
’’روشن نوکری میں کیا رکھا ہے۔ نری غلامی ہے۔ تم لوگ ملازمت پیشہ لوگوں سے بہت اچھے ہو۔ اپنا کماتے ہو اپنا کھاتے ہو۔‘‘ چودھری صاحب روشن کی طرف دیکھے بنا کہہ رہے تھے۔ اور ہاں پرسوں تم حویلی میں جو شہد دے گئے تھے وہ خالص نہیں تھا۔‘‘
’’مگر چودھری صاحب، وہ تو میں نے خود …‘‘ جملہ مکمل نہ ہوسکا اور بات روشن کے حلق میں کہیں اٹک کر رہ گئی اور وہ اپنے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ گھر واپس چلا آیا۔