مجھے اپنے شوہر کے ساتھ سری لنکا جانے کا موقع ملا۔ ہم کولمبو سے کینڈی کی سیرکے لیے جا رہے تھے کہ راستے میں ایک خاتون ناریل فروخت کرتی نظر آئیں جو صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھیں اور انگریزی سمجھتی تھیں۔ نہر کے کنارے ہم نے پانی پیا اور میرے شوہر نے حسب عادت خالی ناریل نہر میں پھینک دیا۔ اس دوران ہم نے محسوس کیا کہ کائیڈ اور خاتون کے درمیان نگاہوں کا تبادلہ ہوا اور چند جملے بھی کہے گئے۔
تھوڑی دور جانے کے بعد گائیڈ سے پوچھنے پر پتا چلا کہ خاتون کو برا لگا کہ ہمارے ملک میں گندگی کی جائے، مگر آپ ہمارے مہمان ہیں اس لیے وہ خاتون خاموش رہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ اس ٹھیلے کے اردگرد تمام صفائی کی ذمے داری ان کی ہے۔ اگر گندگی ہوئی تو صبح جرمانے کے ساتھ کاروبار بھی ختم ہوجائے گا۔ اب یہ خود نہر میں اتر کر ناریل جمع کریں گی۔
ہم نے معذرت کی اور بہت کچھ سوچتے ہوئے آگے روانہ ہوگئے۔ اسی طرح تھائی لینڈ میں بینکاک سفاری میں نہایت خوب صورت جانور تھے۔ہم نے گائیڈ سے تعریف کی تو خاتون نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ سب آپ لوگوں کی وجہ سے ہے، آپ اتنی دور سے پیسے خرچ کر کے آتے ہیں اور اس رقم سے ہمارے گھر چلتے ہیں، جانوروں کی زندگی قارئم رہتی ہے۔ اس نے ہمارا ہاتھ تھاما اور گرم جوشی سے شکریہ ادا کیا۔۔۔ اور میں سوچتی رہ گئی کہ کیا ہم اس طرح کسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔‘‘
مثلاً گٹر کی صفائی کرنے والے، کچڑا اٹھانے والے اور ماسی کے کام کا شکریہ ادا کرتے ہیں؟ ہم حکومت کو تو بے نقط سناتے ہیں، ناجائز گیٹ بناتے ہیں، غلط پارکنگ کرتے ہیں، بلا وجہ بحث کرتے ہیں، گھروں کا پانی سڑکوں پر بہاتے ہیں گھر کا کوڑا کچرا سڑک پر لاکھ پھینک دیتے ہیں۔ ہم شاندار بلڈنگ بناتے ہیں، مگر اس کا چھجاسڑک پر نکال کر راستے پر قبضہ کرتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ جمعہ کی نماز تک سڑک پر پڑھتے ہیں جس سے یقینا عام آنے جانے والوں کو کچھ دیر کے لیے تکلیف ہوتی ہے… کیا یہ سب امریکہ اور اسرائیل کرتے ہیں؟ ہم ہمیشہ سازش کی تلاش میں ہوتے ہیں، مگر اپنا انفرادی احتساب نہیں کرتے اور یہ نہیں دیکھتے کہ کتنی ہی پریشانیاں ایسی ہیں جو ہمارے اپنے غیر ذمہ دارانہ رویہ کے سبب پیدا ہوئی ہیں۔ ہمیں اپنی انفرادی سوچ کو بدلنا ہوگا۔