کسی بھی قوم یا معاشرے کی اصلاح و تعمیر میں جو بنیادی کردار خواتین ادا کرتی ہیںوہ کسی ہوش مند سے مخفی نہیں۔ معاشرے کی دیرپا اصلاح خواتین کی اصلاح کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ماں کی گود بجے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے اور بچے کسی بھی قوم کے مستقبل۔ بہترین مستقبل کے لیے ان معماروں کی بہترین تربیت کی ضرورت ہے جو وہی ماں کرسکتی ہے جو خود باشعور ہو۔ اسی لیے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔ ان کے لیے علیحدہ مجلسیں منعقد فرمائیں جہاں خواتین سے دینی احکامات بیان فرمائے۔ آپؐ نے خواتین کو براہِ راست کچھ برائیوں کی طرف متوجہ فرما کر انھیں دور کرنے کی تلقین کی اور ان کی نفسیات و مزاج کا خیال رکھتے ہوئے نصیحتیں فرمائیں۔
غیبت کی کثرت
غیبت خواتین میں پائی جانے والی بہت ہی عام بیماری ہے۔ دو خواتین ایک جگہ اکھٹی بیٹھی ہوں اور وہاں غیبت نہ ہو یہ امر محال ہے۔ یہ اتنا سنگین گناہ ہے کہ بیک وقت اللہ اور بندے کی حق تلفی ہے۔ شب معراج کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا، جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہرے اور بدن کو نوچ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کون لوگ ہیں تو جبرئیل علیہ السلام نے جواب دیا یہ وہ لوگ ہیں جو غیبت کیا کرتے تھے۔‘‘ (ترمذی)۔ اسی طرح فرمان باری ہے:
’’ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم یہ پسند کروگے کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھاؤ۔‘‘
یعنی غیبت ایسا مذموم فعل ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا، جس طرح غیبت کرنا حرام ہے غیبت سننا بھی حرام ہے ہر ممکن کوشش کر کے خود کو اس سے بچائیے۔
حسد سے دوری
دوسری اخلاقی خرابی جو عموماْ خواتین میں پائی جاتی ہے وہ حسد ہے۔ حسد دوسرے سے زوال نعمت کی تمنا کرنے کو کہتے ہیں خواہ وہ نعمت خود اسے حاصل ہو یا ناہو۔ یہ حرام ہے۔ یہ ایسا گندا مرض ہے جو انسان کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹتا رہتا ہے۔ اس کا ذہنی سکون دوسرے سے اس نعمت کے چھن جانے کی تمنائیں کرتے ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔ نیز یہ ایمانی کمزوری کی علامت بھی ہے کہ انسان دوسرے کے پاس موجود نعمتوں پر کڑھے۔ اگر ایمان مضبوط ہوگا تو انسان اللہ کی تقسیم پر راضی رہے گا۔
فضول خرچی سے بچنا
تیسری بڑی خرابی فضول خرچی ہے۔ خصوصاً تقاریب کے موقع پر غیر شرعی رسومات پر بے جا خرچ اس نیت سے کرنا کہ دوسروں پر بڑائی جتلائی جاسکے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ ’’بلاشبہ فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی یا دوست ہے۔‘‘
بے پردگی چھوڑیں
اسی طرح خواتین پردے کے معاملے میں بہت غفلت برتتی ہیں۔ غیر محرم رشتہ داروں بالخصوص کزنز سے پردہ نہیں کیا جاتا۔ حالاں کہ پردہ عورت کی زینت بھی ہے اور ضرورت بھی۔ اگر شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پردہ عورت پر فرض کیا گیا ہے۔ عموماً شادی بیاہ کے مواقع پر بجتا زیور پہننا، خوشبو سے معطر ہوکر باہر نکلنا، غیر شرعی لباس زیب تن کر کے نکلنا روٹین بن چکا ہے۔ یہ تمام افعال معاشرے میں برائی اور فتنے کا سبب بن رہے ہیں۔ لباس ایسا ہونا چاہیے جو باعث زینت بھی ہو اور حیا دار بھی ہو۔ اسلام فیشن سے منع نہیں فرماتابلکہ فیشن کے نام پر بے حیائی سے منع فرماتا ہے۔ حدود کے اندر آپ جتنا چاہیں فیشن کے شوق پورے کیے جاسکتے ہیں۔ پردہ غیرت کی علامت بھی ہے۔ خود کو غیروں کی نظروں سے بچانا ایمانی و فطری غیرت کا تقاضا ہے۔ اسی بے پردگی کے تباہ کن اثرات انسان کی روحانیت اور اخلاق و کردار کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔
بدگمانی اور جاسوسی سے پرہیز
ایک برائی خواتین میں یہ ہوتی ہے کہ وہ بدگمانی بہت کرتی ہیں۔ بدگمانی سے شروع ہوکر معمولی نوک جھونک گھر میں بڑی لڑائیوں کا باعث بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بدگمانی سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں رہنا بھی خواتین کی عادات میں شامل ہے۔ ہر وقت اپنے پڑوسن یا گھر کی خواتین کی جاسوسی کرتی رہتی ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہا کرو، اگر اللہ چاہے تو تمہیں گھر کے اندر بھی رسوا کردے۔‘‘ فرمان باری ہے کہ ’’تم جاسوسی نہ کیا کرو۔‘‘
خواتین میں ان مرکزی برائیوں کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر چھوٹی چھوٹی خامیاں بھی موجود ہیں۔
خواتین میں ایک عجیب بات یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ گھریلو استعمال کی ضرورت کی معمولی معمولی چیزیں بھی اپنے پڑوسیوں کو دینے میں بخل سے کام لیتی ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ اسلام اس بات سے منع کرتا ہے کہ آپ سے کوئی چیز مانگی جائے اور آپ اس سے انکار کردیں۔ کچھ تو خواتین ایسی بھی ہیں کہ جن کے پاس اگر کوئی چیز اضافی آجائے تو صحیح حالت میں وہ اپنے پڑوسی کو نہیں دیں گی، جب وہ خراب ہونے لگے گی تب وہ اٹھا کر انھیں دیں گی۔ یعنی انتہائی بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اگر اخلاقیات کی رو سے دیکھا جائے تو اس طرح کرنا یقینا بہت ہی غلط بات ہے۔
جو خواتین شادی شدہ ہیں انھیں اپنے شوہروں کی مکمل فرماں برداری کرنی چاہیے۔ کچھ جگہوں پر یہ مسائل ضرور ہیں کہ شوہر کا رویہ یا گھر کا ماحول ایسا ہو جاتا ہے جہاں پر حالات سنگین رہتے ہیں مگر ہمیں فرماں برداری جاری رکھنی چاہیے۔ کیوں کہ یہ کام ہم صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوجائے گا۔ شوہروں کی ناشکری آخرت برباد کرسکتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جہنم میں کثیر تعداد ان عورتوں کی تھی جو اپنے شوہروں کی ناشکری کرتی ہیں۔ (بخاری، مسلم) حق تو یہ ہے کہ جتنا میسر ہو اس پر خوش ہوجائیں مگر یہاں حالت یہ ہے کہ شوہر ساری دنیا لاکر بھی قدموں میں رکھ دے خوش نہیں ہوتیں۔ اسلام میں شوہر کی عزت و تکریم کی بہت اہمیت رکھی گئی ہے۔ فرمانِ نبویؐ ہے: ’’جس خاتون سے اس کا شوہر راضی ہو وہ جنتی ہے۔ (ترمذی)
خواتین میں ایک غیر معمولی حد تک یہ برائی بھی ہے کہ جب بھی تنگ ہوں گی اپنی اولاد کو یا بڑی بہنیں چھوٹے بہن بھائیوں کو بد دعائیں دیتی ہیں۔ بد دعا ہرگز نہیں دینی چاہیے۔ خدانخواستہ آپ کی وہ بد دعا قبول ہوگئی تو پھر ساری زندگی پچھتاوا ہوگا۔ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنی چاہیے۔ عموما یتیم بچوں اور سوتیلی اولاد سے حسن خلق کے بجائے بدسلوکی سے پیش آیا جاتا ہے۔ ان سے ہر معاملے میں زیادتی برتی جاتی ہے۔ اپنی سگی اولاد ہو یا پھر سوتیلی کسی بھی صورت بچوں کے ساتھ رویہ غیر مہذب نہیں اپنانا چاہیے۔ بچوں کی بہترین تربیت اور کفالت کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس طرح محروم بچوں کی بدعا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقام پاتی ہے۔ مظلوم اور یتیم بچوں کی بددعا سے بچنا چاہیے۔
یاد رکھیں! عورت نسلیں سنوار بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ یہ آپ کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کہ آپ خود بہتر سے بہتر بناتے ہوئے معاشرے کو ایک صحت مند اور باشعور نسل دیں۔ بروز قیامت ہر ایک سے اس کے ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب ہوگا۔