ٹیلی ویژن اب انسانی زندگی کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس نے جہاں انسانی زندگی میں رنگینی اور مصروفیت پیدا کردی ہے وہیں بہت سے مسائل بھی پیدا کردیے ہیں۔ وقت کی بربادی، بچوں کی تعلیم سے غفلت اور اس کے علاوہ ذہن و فکر پر اس کے برے اثرات خاص ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن کی اسکرین کے مضر اثرات انسانی آنکھوں پر مرتب ہورہے ہیں۔
انسانی دماغ کے دو حصے ہیں۔ دایاں حصہ اور بایاں حصہ۔ یہ حصے جسم کے دائیں اور بائیں اطراف کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر کام بھی کرتے ہیں۔ دائیں حصے کا کام سوچ و فکر ہے، جبکہ بائیں حصے کا کام گفتگو اور منطقی اعمال کو کنٹرول کرنا ہے۔ ای سی جی (یعنی دل کی دھڑکن کا گراف) کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ ٹی وی دیکھنے کے دوران انسانی دماغ کا بایاں نصف کرہ قریب قریب کام چھوڑ دیتا ہے۔ تجربات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس وقت دماغ کے دونوں نصف کروں کے درمیان آپس کا تعلق بھی معطل ہوجاتا ہے۔ یہ دماغی حالت اس وقت بھی پیدا ہوتی ہے جب ایک انسان بالکل ساکن اور غیر فعال ہوجاتا ہے۔ اس وقت انسان کی آنکھوں کی حرکت بھی نہیں ہوتی۔ ذہنی سوچ اور فکر بھی متاثر ہوجاتی ہے۔ زیادہ دیر تک اور زیادہ عرصے تک ٹیلی ویژن دیکھتے رہنے سے دماغ کا دایاں نصف کرہ شدید طور پر متاثر ہوسکتا ہے اور اکتسابی صلاحیتوں کے مفقود ہونے کے خطرات ہیں۔خاص طور پر غیر ملکی زبان سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اس طرح زندگی کو خوش گوار بنانے کے بجائے ٹیلی ویژن انسانی حواس پر مضر اثرات ڈال رہا ہے۔
کیا آپ سورج کو براہِ راست اپنی ننگی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہے ’’نہیں‘‘۔ کیونکہ اس طرح دیکھنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کی شعاعیں آنکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہیں جب یہ سیدھی آنکھوں میں پڑنے لگ جائیں۔ اس کے برعکس چاند کی روشنی آنکھوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہے کیونکہ یہ منعکس ہوکر ہم تک پہنچتی ہے۔ اس طرح جب آپ سنیما ہال میں فلم دیکھ رہے ہوتے ہیں تو روشنی اسکرین کے پردہ سے منعکس ہوکر آنکھوں تک پہنچ رہی ہوتی ہے۔ ٹیلی ویژن کا معاملہ اس سے بہت مختلف ہے۔ ٹیلی ویژن کی روشنی ٹارچ کی روشنی کی طرح آنکھوں پر سیدھی پڑتی ہے۔
اس لیے دیر تک ٹی وی دیکھنے سے انسانی ذہن اور آنکھیں تھک جاتی ہیں۔ ٹیلی ویژن کو دیکھنے کے لیے جتنا فاصلہ کم رکھا جائے گا اتنے ہی اس کے مضر اثرات زیادہ ہوں گے اور اگر اندھیرے کمرے میں ٹیلی ویژن دیکھا جائے تو اس سے اور زیادہ نقصانات ہوسکتے ہیں۔
ٹیلی ویژن کی اسکرین سے ایکسرے شعاعیں بھی خارج ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان کی مقدار زیادہ نہیں ہوتی، تاہم زیادہ عرصہ تک ان کے زیر اثر رہنے سے کینسر کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ رنگین ٹیلی ویژن سے یہ خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
عام زندگی میں ہماری آنکھیں مسلسل متحرک رہتی ہیں اور ہماری نظر ایک نقطہ سے دوسرے نقطہ پر مرکوز رہتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہپناٹزم کے عمل میں معمول کی نظریں کسی خاص نقطہ پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ تجربات سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ہم ٹیلی ویژن سے کچھ نہیں سیکھتے۔ اس کے مقابلے میں کتابوں کے مطالعے سے زیادہ باتیں یاد ہوسکتی ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کتابوں کے مطالعہ کے دوران انسانی ذہن پوری توجہ اور انہماک کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جبکہ ٹی وی دیکھنے کے دوران انسانی ذہن نیند کی حالت میں ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کتابوں کو باربار بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
اس تمام گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنا ٹی وی سیٹ توڑدیں بلکہ ٹی وی دیکھنے کی زیادہ عادت نہ ڈالیں۔ منتخب پروگرام دیکھیں اور جتنا ہوسکے ٹی وی اسکرین سے فاصلہ رکھیں۔
——