اپنی آواز سن کر…؟

آسی ضیائی رام پوری

ٹیپ ریکارڈر مجھے میری ہی غزل سنا رہا تھا جو ابھی ایک ہی منٹ پہلے میں پڑھ چکا تھا۔

اپنی ہی آواز کسی دوسرے کے منہ سے اس طرح سننا میرے لیے پہلا اور بڑا انوکھا تجربہ تھا، جو میرے ایک کرم فرما کی فرمائش کی بدولت مجھے حاصل ہوا۔ ان صاحب نے مجھ سے نہ صرف میرا کلام سننا چاہا، بلکہ اس کو محفوظ کرلینے کی اجازت بھی مانگی، تاکہ آئندہ بھی جب کبھی ان کا یا ان کے احباب وغیرہ کا دل چاہے تو اس سے محظوظ ہوسکیں۔ اور پھر جونہی میں نے غزل ختم کی۔ انھوں نے اس ’’طلسمی فیتے‘‘ کی زبانی مجھے میری ہی آواز سناکر دکھادی۔

فی الحقیقت یہ ایک عجیب معاملہ تھا۔ سوائے اس کے کہ میں اپنی آواز کو تو نہ پہچان سکا، باقی ہر اعتبار سے وہ میں ہی بول رہا تھا۔ ٹیپ کی حساس صوت انگاری نے خفیف ترین تفصیل کو نہ چھوڑا تھا۔ لب ولجہ، الفاظ کا وصل، بیچ بیچ میں کہیں کہیں کھانسی یا کھنکار، حد یہ کہ بھاری سانس لینے کی آواز تک اس بے جان و بے شعور مشین نے ’’فیتہ بند‘‘ کرلی تھی۔ میں اور میرے میزبان اور ان کے ایک صاحب زادے بڑے اطمینان اور دل چسپی سے اس نقل ’’مطابق اصل‘‘ کو سن رہے تھے۔ مگر نہیں، اپنے متعلق میں نے ’’اطمینان‘‘ کا لفظ صحیح استعمال نہیں کیا۔ مجھے اس وقت بظاہر اطمینان سہی، دل میں اضطراب تھا کہ کتنی عجیب بات تھی کہ غزل سناتے وقت بعض ایسی باتیں جو بالعموم گفتگو کرنے یا شعر پڑھنے میں سرزد ہوہی جاتی ہیں۔ اس ٹیپ ریکارڈر کی زبان سے سنتے وقت بری سی لگ رہی تھیں۔ کسی موقع پر کوفت سی ہوتی کہ یہ بے موقع کھانسی کہاں اٹھنے لگی، کبھی اپنے اوپر ملامت کو جی چاہتا کہ اس جگہ قصداً کیوں کھانسا، جبکہ اس کے بغیر بھی شعر سنانے میں کوئی دقت نہ ہوسکتی تھی اور کہیں کہیں بے اختیار جھینپ اور کھسیانہ پن سا طاری ہونے لگتا کہ یہ ’’شعر ملاحظہ ہو‘‘ کا کونسا موقع تھا، جبکہ سبھی شعر ملاحظہ کیے جارہے تھے۔

بہرحال، اب تو جب کچھ اور جیسا بھی میں نے پڑھا، نقش ہوچکا تھا۔ یہ مٹایا نہ جاسکتا تھا۔ کیونکہ میں اس کی ترکیب جانتا نہ تھا اور جنھوں نے فرمائش کرکے مجھ سے سنا تھا وہ کیوں اس کو مٹانے لگے۔ انھوں نے تو یہ آلہ لگایا ہی اس غرض سے تھا کہ میری آواز محفوظ کرلیں۔ اور اس کا کوئی موقع نہ تھا کہ میں ان سے کہہ کر اس کو محو کرادوں تاکہ از سرِ نو اسی غزل کو بہتر ڈھنگ سے سناؤں مجھے شرم سی آنے لگی کہ آئندہ اس احقر کو یہی حضرات سنیں۔ ان کے گھر والے، دوست، شناسا، نامعلوم کون کون سنیں گے تو کیا کہیں گے۔ حالانکہ سناتے وقت میں نے اپنی دانست میں پوری طرح ٹھیک سے پڑھنے کی احتیاط تو کرلی تھی۔ خیر اب تو جو ہونا تھا، ہوا۔ میںنے سوچا اب کی بار مزید احتیاط کروں گا۔ چنانچہ جب ایک اور غزل سنانے کی فرمائش کی گئی تو واقعی میں نے مزید احتیاط کی۔ اور فی الحقیقت اس دفعہ میں زیادہ کامیاب رہا۔

آخر تھوڑی دیر بعد، ہماری یہ ملاقات ختم ہوگئی۔ میں وہاں سے اٹھ آیا اور تقریباً اسی وقت اس واقعہ کو بھول گیا۔ لیکن رات کو یہی واقعہ جو ذہن سے نکل چکا تھا۔ پھر ذہن میں آواخل ہوا۔ اور اب کے نہایت بے دردی کے ساتھ! اب کے یہ اکیلا نہ آیا تھا، اپنے ساتھ اپنے ایک نہایت بے رحم ٹھوس اور ہولناک ساتھی کو بھی لے کر آیا تھا۔ اور اس ساتھی کو اپنے ذہن میں پاکر میری جو حالت ہوئی اسی کا اندازہ اپنے قارئین کو بھی کرانا چاہتا ہوں۔

یہ ایک خیال تھا، عجیب مگر حقیقت افروز اس کا تسلسل ٹیپ ریکارڈر کے فیتے کی طرح میرے دماغ میں جاری تھا۔ ریل پر ریل کھل کھل کر میری ذہنی آنکھوں اور کانوں کو متاثر کررہا تھا۔ اگر اس خیال کو میں ایک جان دار، ناطق شخصیت سمجھ لوں تو یہ ایک شعلہ بیاں مقرر کی شکل ہوگی جو سفاکانہ حقیقت پسندی کے ساتھ مسلسل تقریر کیے جارہا تھا۔

یہ خیال مجھ سے کہہ رہا تھا، کیوں؟ تم نے دیکھا کہ ایک معمولی سے آلے نے تمہاری آواز اور طرزِ گفتگو کی کتنی کامل نقل اتاری! تم اس پر ندامت محسوس کررہے ہو کہ اس نے تمہاری معمولی سی فروگذاشتیں بھی نقل کرلیں اور یہ تو تمہاری زندگی کے ایک بہت ہی مختصر لمحہ کا حال ہے، حالانکہ یہ صوت نگاری تمہاری اجازت اور علم کے ساتھ کی گئی تھی اور تم اپنی آواز محفوظ کرانے کے لیے تیار ہوکر ہی بیٹھے تھے، اور پوری احتیاط کے ساتھ تم نے اپنے اشعار سنائے تھے اور پھر وہ اشعار بھی نہ تو خلافِ تہذیب تھے، نہ ادنیٰ اور کم مایہ۔ پھر تمہارے سنانے کا اندازبھی متین اور معقول تھا۔ ان سب کے باوجود جب تمہاری آواز فوراً بعد ہی تمہیں اس آلے کی زبانی سنائی گئی تو تم اپنی چھوٹی موٹی فروگزاشتوں اورغلطیوں پر شرماگئے، اور تمنا کرنے لگے کہ کاش یہ آواز اس آلے سے محو ہوجائے اور تمہیں ایک اور موقع دیا جائے۔ تاکہ آئندہ ایسی معمولی سی فروگزاشت بھی نہ ہونے پائے۔ لیکن کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ایک اس سے بھی قوی آلہ تمہارے علم اور اجازت کے بغیر، تمہارے ساتھ زندگی کے آغاز سے لگا ہوا ہے اور زندگی کے انجام تک لگا رہے گا۔ وہ ہر وقت، ہر آن، ہر لحظہ نہ صرف تمہاری ہر گفتگو کا ریکارڈ کررہا ہے بلکہ وہ ہر خیال بھی، جو تمہارے ذہن میں آتا ہے اور ہر وہ حرکت و سکنت جو تمہارے جسم سے صادر ہوتی رہتی ہے اس میں محفوظ ہورہی ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس میں سے ایک شوشہ بھی محو کرسکے۔ پھر جب تم میدانِ حشر میں بے کس و بے بس، اپنے رب کے آگے اپنے دنیوی اعمال کا نتیجہ پانے کے لیے کھڑے ہوگے اس وقت اس آلے کے ذریعے تمہاری پوری دنیاوی زندگی کا حال ایک مکمل فلم کی صورت میں تمہارے سامنے لایا جائے گا۔ صرف بات چیت اور تقریر ہی نہیں، تمام جسم کے اعمال و اوضاع، دل کے تمام خیالات و جذبات، ذہن کی تمام تدبیریں منصوبے اور عزائم اور اس کا تماشا کرنے والے اکیلے تم ہی نہ ہوگے۔ تمہاری موجودگی میں تمام بنی نوعِ انسان، اولین وآخرین اور بے شمار فرشتے بھی مشاہدہ کررہے ہوں گے۔ اس وقت تمہاری کیا کیفیت ہوگی۔

کیا تم اس طرف سے مطمئن ہو کہ تمہارے پورے سرمایۂ حیات میں کوئی بھی ایسی بات نہ ہوگی، جو تمہارے خیال میں قابلِ شرمندگی ہو۔ تم چند منٹ ایک غزل سنانے میں صرف کرتے ہو، جسے پوری احتیاط کے ساتھ سناتے ہو کہ وہ ریکارڈ کی جارہی ہے اور پھر بھی اس میں تمہیں خود بعض ایسی خرابیاں محسوس ہونے لگتی ہیں کہ تم بے اختیا راس کو محو کراکر ازسرِ نو سنانے کے خواہش مند ہوجاتے ہو، تو کیا تمہاری باقی تمام عمر میں ایسی کوئی قابلِ شرم بات نہیں ہے۔ تم نے اتنی عمر میں نہ معلوم کس کس کو ناحق برا بھلا کہا ہوگا، کتنوں کی غیبتیں کی ہوں گی، کتنوں پر بہتان لگائے ہوں گے، کتنی بار تمہارے قدم گناہ کی طرف اٹھے ہوں گے، کتنوں کا مال غصب کیا ہوگا۔ بیسیوں دفعہ لوگوں کو فریب دے دے کر اپنی کامیابی پر بغلیں بجائی ہوں گی۔ سینکڑوں بار ادنیٰ ادنیٰ فائدوں کی خاطر جھوٹ بول بول کر فخر کیا ہوگا، لاتعداد مرتبہ اپنی جان پر، اپنے اعضائِ جسم پر، خدا کی دوسری مخلوقات پر، اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر ظلم کیے ہوں گے۔ تمہاری زبان سے نہ معلوم کن کن بے گناہوں کے دل دکھے ہوں گے، تمہارے قلم نے نہ جانے کب کب باطل کی حمایت کی ہوگی۔ تمہارے دماغ نے خدا علیم ہے کتنے موقعوں پر حق کے خلاف منصوبے بنائے ہوں گے، تم نے واللہ اعلم کہا ںکہاں اور کن کن ساتھیوں سے مل کر خدا اور رسولؐ کی نافرمانیوں کی کتنی کتنی اور کیسی کیسی تدبیریں سوچی اور ان پر عمل کیا ہوگا۔ مگر تم جو چند منٹ کی ٹیپ ریکارڈنگ سے اتنے شرمندہ ہوگئے، اپنی پوری زندگی کے کوائف کی ریکارڈنگ کی طرف سے اتنے بے پرواہ اور مطمئن ہو، گویا تم نے اتنے عرصے کچھ کیا ہی نہیں، یا اگرکیا ہے تو اس کی کوئی ریکارڈنگ ہی نہیں ہورہی، اور ہورہی ہے تو اس پر تمہاری باز پرس ہی نہ ہوگی!

’’تم تو اپنے کو ’’مومن‘‘ کہتے ہو، یعنی تم نے اقرار کیا ہے کہ خدا اور رسول اور آخرت پر تمہارا ایمان ہے تمہیں یقین ہے کہ ایک اللہ ہی تمہارا مالک، رازق اور آقا ہے، وہی تمہارا خالق بھی ہے اور اسی نے تمہیں دنیا میں رہنے کا ڈھنگ بھی اپنے رسولوں کی معرفت سکھادیا ہے اور وہی تمہاری ایک ایک حرکت کی بذاتِ خود نگرانی کررہا ہے، اور پھر اسی کے آگے حاضر ہوکر تمہیں اپنے دنیوی زندگی کے تمام کاموں کا جواب بھی دینا ہے۔ پھر آج تک تم نے اپنی پوری زندگی میں کتنی بار اپنے افعال و اقوال میں اس ایمان کی بدولت ایسی احتیاط کی جیسی آج ٹیپ ریکارڈنگ کے وقت کی تھی؟ اگر نہیں تو تمہارا یہ دعوائے ایمان کیسا؟‘‘

’’تمہارا اپنے متعلق دعویٰ ہے کہ تم ’’مسلم‘‘ بھی ہو، یعنی اطاعت کرنے والے! پھر کیا واقعی تم نے اپنی زندگی اطاعتِ خدا اور رسول میں گزاری ہے اور کبھی اس اطاعت سے منہ نہیں موڑا ہے؟ تمہیں معلوم ہے کہ یہ اطاعت صرف چند منٹ یا کچھ دن یا تھوڑے سے حصہ زندگی میں نہیں، پوری زندگی میں ہونی ہے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ یہ اطاعت صرف نماز روزے میں نہیں، زندگی کے ہر معاملے میں ہے۔

’’کیا تمہیں اس بات کا مطلق احساس نہیں ہو تاکہ تم یہ زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور میں اس حال میں حاضر ہوگے کہ نہ کوئی تمہارا حمایتی ہوگا نہ سفارشی پھر قادرِ مطلق کے دربارِ عدل میں — اور یہ عدالت کا کھلا اجلاس ہوگا— بے شمار نگاہیں تم پر پڑرہی ہوں گی۔ اور ہر وہ بات جو تم یہاں اپنی دانست میں پوری طرح چھپا کر کہتے یا کرتے رہے تھے۔ الم نشرح ہوکر سامنے آجائے گی اور خود تم ہی کو حکم ہوگا:

اقراء کتابک، کفی بنفسک الیوم علیک حسیباً

’’لے پڑھ اپنا اعمال نامہ۔ آج تو خود ہی اپنا محاسب کافی ہے۔‘‘

اور اگر اس بات کا تمہیں احساس ہوتا ہے تو بتاؤ، تم نے آج تک اپنے اعمال کو سدھارنے کی کہاں تک کوشش کی ہے اور کہاں تک اپنے روز مرہ کے کاموں اور گفتگوؤں وغیرہ میں ایسی احتیاط ملحوظ رکھی ہے۔ جیسی آج غزل پڑھتے وقت رکھی تھی؟

آج تم چاہتے ہو کہ پہلی بار تم نے جو غزل پڑھی تھی اس کا ریکارڈ محو کردیا جائے اور یہ کچھ مشکل بھی نہ تھا۔ تم اپنے ان کرم فرما سے اگر درخواست کرتے تو وہ یقینا تمہاری خاطر سے ایسا کردیتے، لیکن کل اپنے پورے نامۂ اعمال کو اگر اپنے روبرو دیکھ کر تمہاری بے اختیار یہ خواہش ہوئی کہ اس کو محو کرکے ازسرِ نو ریکارڈ کیا جائے تو بتاؤ کوئی صورت ممکن ہوگی؟

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں