اپنی پہچان کبھی نہ بھولو!

مکرم علی

بڑا بندے کو سزا کیوں دیتا ہے؟… مجھے اس سوال کا ایسا جواب ملا کہ آج تک مطمئن ہوں۔

ہمارے ویٹنری ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر صاحب سے اچھے مراسم تھے۔ یہ یونیورسٹی میں میرا تیسرا سال تھا۔ ایک دفعہ میں ان کے دفتر گیا۔ مجھ سے کہنے لگے: ’’مہران، ایک مزے کی بات سناؤں تمہیں۔‘‘

’’جی سر، ضرور۔‘‘

پچھلے ہفتے کی بات ہے، میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا۔ اچانک ایک غیر معمولی نمبر سے مجھے انگریزی نما اردو کال آئی: ’’پندرہ منٹ کے اندر اندر اپنی سراونڈگنز کی کلیئرنس دیں!

ٹھیک پندرہ منٹ بعد پانچ چھ گاڑیاں گھوم کے میرے دفتر کے اطراف میں آکر رکیں۔ سول وردی میں ملبوس حساس اداروں کے لوگ دفتر میں آگئے۔ ایک افسر آگے بڑھا اور بولا: ’’فلاں ملک کی سفیر آرہی ہیں، ان کے کتے کو کچھ مسئلہ ہے، اس کا علاج کرنا ہے۔‘‘

تھوڑی دیر بعد ایک فرنگی عورت میرے کمرے میں داخل ہوئی۔ ان کے ساتھ ایک عالی نسل کا کتا بھی تھا۔ کہنے لگیں: ’’میرے کتے کے ساتھ عجیب و غریب مسئلہ ہے۔ یہ میرا نافرمان ہوگیا ہے۔ اسے پاس بلاتی ہوں، یہ دور بھاگ جاتا ہے۔ خدارا کچھ کریے، یہ مجھے بہت عزیز ہے۔ اس کی بے اعتنائی مجھ سے سہی نہیں جاتی۔‘‘

میں نے کتے کو غور سے دیکھا۔ پندرہ منٹ جائزہ لینے کے بعد میں نے کہا: ’’میم! یہ کتا ایک رات کے لیے میرے پاس چھوڑ دیں۔ میں اس کا جائزہ لے کے مسئلہ حل کرتا ہوں۔‘‘

اس نے بے دلی سے حامی بھرلی۔ سب چلے گئے۔ میں نے نوکر کو آواز لگائی ’’فیضو! اسے بھینسوں والے باڑے میں مضبوط رسی سے باندھ کے آ… اور سن، اسے ہر آدھے گھنٹے بعد چمڑے کے لترمار۔ ہر آدھے گھنٹے بعد صرف پانی ڈالنا، جب پانی پی لے تو پھر لترمار…!!!

نوکر جٹ آدمی تھا۔ وہ رات گئے تک کتے کے ساتھ ’’لتر ٹریٹ منٹ‘‘ کرتا رہا۔ صبح گوری سفیر اپنا پورا عملہ لیے میرے دفتر میں آدھمکی۔ آتے ہی کہنے لگی کہ میرا ڈاگی کہاں ہے؟‘‘ اس کی جدائی نے میرا برا حال کر رکھا ہے۔ میں نے فیضو کو آواز دے کر کتا لانے کو کہا۔ نوکر کتے کو لے آیا۔

جونہی کتا کمرے میں آیا، اپنی مالکن کو دیکھتے ہی چھلانگ لگا کر اس کی گود میں جا بیٹھا اور لگا دم ہلانے اور منہ چاٹنے۔ کتا مڑ مڑ کر تشکر آمیز نگاہوں سے مجھے تک رہا تھا۔ میں گردن ہلا ہلا کر مسکراتا رہا۔

سفیر کہنے لگی: ’’سر، آپ نے اس کے ساتھ کیا کیا کہ میرے ساتھ اتنی محبت جتا رہا ہے، جو پہلے کبھی میں نے نہیں دیکھی؟‘‘

میں نے انہیں جو کہا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ریشم و اطلس پہننے، ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں رہنے اور اعلیٰ پائے کی خوراک کھا کھا کے یہ خود کو مالک سمجھ بیٹھا تھا اصل مالک کی پہچان بھول گیا۔ بس اس کا یہی خناس اتارنے کے لیے اسے ذرا نفسیاتی پلس جسمانی علاج کی اشد ضرورت تھی جو کر دیا گیا۔ اب وہ تندرست ہے۔

یہ سارا ماجرا پڑھنے کے بعد ذرا پہلا جملہ پھر پڑھ لیجیے آپ، یہ تحریر لکھنے کا مقصد جان جائیں گے۔l

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں