گزشتہ ہفتے مجھے ایک طویل سفر درپیش رہا۔ مصیبت یہ تھی کہ تنہا تھا اور آپ جانتے ہیں کہ طویل سفر اکیلے طے کرنا کس قدر کٹھن ہے۔ میں نے سوچا کہ اپنے ڈبے کے کسی ہم سفر کو ’’راستے کا دوست‘‘ بنا کر وقت کاٹ لوں گا۔ لیکن بدقسمتی سے جس ڈبے میں مجھے جگہ ملی، وہاں پہلے ہی سے ایک نہایت باتونی حضرت تشریف فرما تھے۔ اور بیک وقت سب مسافروں سے اس طرح خطاب فرما رہے تھے جیسے جماعت کے کمرے میں لیکچر دے رہے ہیں۔ نہایت تلخ لہجہ، جیسے لڑرہے ہوں۔ گفتگو میں کوئی دلچسپی اور نہ کوئی جاذبیت، محض سطحی باتیں — موضوع زیر بحث تھا ملکی اور غیر ملکی سیاست — چند ہی منٹ میں میں نے محسوس کرلیا کہ تمام مسافر ان کی لایعنی اور مہمل باتوں سے ’’بور‘‘ ہوگئے ہیں اور پھر کسی نے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کردیا، کوئی اخبار پڑھنے لگا اور کسی نے لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں۔ باتونی صاحب نے جب دیکھا کہ کوئی ان کی باتوں میں دلچسپی نہیں لے رہا تو وہ چپ ہوگئے اور پورے ڈبے میں قبرستان کی سی فضا طاری ہوگئی۔ میں نے دل ہی دل میں ان حضرت کو خوب کوسا۔
اگلے اسٹیشن پر ایک اور صاحب سوار ہوئے۔ صورت، شکل اور لباس سے خاصے باذوق معلوم ہوتے تھے۔ اطمینان سے جگہ پر قابض ہونے کے بعد انھوں نے سرسری طور پر پورے ڈبے کا جائزہ لیا۔ باتونی صاحب کو خدانے پھر زبان کھولنے کا موقع دے دیا تھا۔ بھلا وہ کب چوکنے والے تھے، فوراً بولے: ’’کیوں صاحب آپ بھی ممبئی جارہے ہیں؟‘‘
نووارد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا : ’’جی نہیں،بلکہ یہ ٹرین ممبئی جارہی ہے۔‘‘
اس فقرے پر ایک زبردست قہقہہ گونج اٹھا اور ہر مسافر دلچسپی سے نووارد کا جائزہ لینے لگا۔ قصہ مختصر چند ہی منٹ میں اس اجنبی مسافر کی گفتگو کی کشش اور جاذبیت نے ہر مسافر کو اپنے گرد یوں کھینچ لیا جس طرح مقنا طیس لوہے کو کھینچ لیتا ہے اور پھر تو زمانے بھر کی باتیں چھڑ گئیں اور وہی ریل کا ڈبہ جو کچھ دیر پہلے قبرستان کا سناٹا پیش کررہا تھا، فلک شگاف قہقہوں سے گونجنے لگا اور سب مسافر اس طرح گھل مل کر بے تکلی سے باتیں کر رہے تھے، جیسے برسوں کی واقفیت ہو، اور اس طرح ممبئی تک کا طویل سفر نہایت اچھا کٹ گیا۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ بلکہ یوں کہیے پچانوے فیصدی افراد ایسے ہیں جو گفتگو کرنا نہیں جانتے۔ کہنے کو تو ہر شخص گھنٹوں بول سکتا ہے اور دوسروں کا دماغ چاٹ سکتا ہے لیکن اسے گفتگو نہیں کہتے۔ گفتگو بھی ایک فن ہے اور ایسا فن ہے کہ اس کوجاننے والا خود بخود دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور اس کا تعلق تمام تر دوسروں کی ذہنی اور علمی کیفیت کو بھانپ لینے سے ہے۔ جب تک ہمیں یہ علم نہ ہوگا کہ ہمارا مخاطب کس ذہن اور کس علمیت کا مالک ہے، اس کا مذاق کس نوعیت کا ہے؟ اور ہمیں اس سے گفتگو کرنے کا کون سا اسلوب اختیار کرنا چاہیے اس وقت تک ہم اپنے ماحول اور ارد گرد کی سوسائٹی میں ہر دلعزیزی حاصل نہیں کرسکتے۔ گفتگو کے جو تقاضے ہیں۔ انہیں پورا کرنے کے لیے تربیت اور مشق کی بہت ضرورت ہے۔
روز مرہ کی زندگی میں ہمیں بہت سے اجنبی اور غیر اجنبی افراد سے سابقہ پڑتا ہے، ان میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں جوان بھی، بچے بھی اور عورتیں بھی۔ یہ سب مختلف مزاج اور مختلف طبیعتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ بدمزاج، جذباتی، متحمل، چڑچڑے، ہنس مکھ، با اخلاق، بداخلاق، تند خو اور نرم خو— غرض یہ کہ جتنے افراد اتنے ہی مزاج— ان سب کے عادات و خصائل، پیشے، مشغلے ایک دوسرے سے جدا— ظاہر ہے کہ اس قسم کے مختلف النوع افراد سے میل جول اور بات چیت کا انداز ایک جیسا نہیں رکھا جاسکتا۔ موقع محل کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیوں اور موزوں طریق کا متقاضی ہے۔
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ بہترین گفتگو کرنے کا راز اس امر میں پنہاں ہے کہ ہم دوسرے کی بات سکون سے سنیں اور پھر بولیں۔ بلاشبہ یہ اصول کارآمد ہے۔ لیکن یہ ایک طرفہ ہے، فرض کیجیے گفتگو کرنے والے دو فرد دل میں پہلے سے یہ سوچ لیں کہ ’’میں صبر سے سنوں گا۔‘‘ تو بہت جلد دونوں ایک دوسرے سے ’’بور‘‘ ہوجائیں گے۔ گفتگو میں دلکشی اور جاذبیت پیدا کرنے کے لیے لازمی ہے کہ ’’سننے اور بولنے‘‘ دونوں سے یکے بعد دیگرے کام لیا جائے۔ بولنے والا اپنی باری پر بولے اور سننے والا اپنی باری پر سنے۔ گفتگو کرنا ایک فن ہے تو گفتگو سننا اس سے بھی زیادہ لطیف آرٹ ہے اور خاصے صبر و تحمل کا تقاضا کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ فرد سوسائٹی میں خاصا اہم سمجھا جاتا ہے جو دوسروں کے ’’دکھ درد‘‘ سنجیدگی سے سن لیتا ہے اور ان میں دلچسپی لیتا ہے۔ ایک اچھا سننے والے کی خوبی یہ ہے کہ وہ جو کچھ سنتا ہے، غور سے سنتا ہے اور درمیان میں بولنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اس کے مقابلے میں ایک برا سننے والا وہ ہے جو دوسروں کی پروا کیے بغیر خواہ مخواہ دخل در معقولات کرتا ہے۔ وہ دراصل اپنے بارے میں کچھ کہنے کے لیے اتنا بے چین ہوتا ہے کہ دوسرے کی بات میں دلچسپی ہی نہیں لیتا۔ اگر آپ ہر دلعزیز شخصیت بننا چاہتے ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ لوگ آپ کی گفتگو سنیں تو اس کے لیے آپ کو دوسروں کی شخصیت میں دلچسپی لینی پڑے گی۔
اجنبی افراد کو متاثر کرنے کا اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ ان کی ہر بات میں دلچسپی ظاہر کریں۔ مثال کے طور پر آپ کو کسی ’’مصور‘‘ سے ملاقات کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ وہ آپ کو اپنے اسٹوڈیو میں لے جاتا ہے اور تصویریں دکھانے لگتا ہے۔ اگر آپ اس موقعے پر خاموش رہیں گے تو اچھا نہ ہوگا۔ تصویروں کی مناسب تعریف کے ساتھ ساتھ مختلف نوعیت کے سوالات ضرورت کیجیے تاکہ مصور یہ سمجھے کہ آپ واقعی انتہائی دلچسپی سے اس کی محنت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اکثر لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے آگے اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس طرح وہ دوسروں کی انقباضِ طبیعت کا باعث بنتے ہیں۔ ذرا سوچئے کے دوسروں کو آپ کی پریشانیوں سے کیا دلچسپی ہے؟ اس لیے جہاں تک ممکن ہو، آپ اپنی ’’ذات‘‘ کو گفتگو کا مرکز بنانے سے گریز کریں ۔ ہر شخص فطری طور پر اس امر کا خواہش مند ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کی ذات میں دلچسپی لیں۔ ہمیشہ یاد رکھئے کہ آپ کی زخمی ٹانگ اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی اہمیت دوسرے کی انگلی کو ہے جس میں پھانس چبھی ہوئی ہے۔ میں نے بعض ایسے حضرات کو دیکھا ہے کہ اگر ان کے سامنے اپنا کوئی دکھ درد بیان کیا جائے تو وہ فوراً اس سے ملتا جلتا کوئی بھیانک حادثہ سنانا شروع کردیں گے جو خود ان پر بیت چکا ہے اور اس طرح گفتگو کا سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر ایسی محفل میں جہاں مختلف الخیال افراد جمع ہوں، دو فرد اکتا دینے والی گفتگو کرنے لگیں تو بیحد ناگوار گزرتا ہے۔
گفتگو میں چاشنی پیدا کرنے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت لہجے کو حاصل ہے۔ شیریں اور خوش گوار لہجہ جادو کا اثر رکھتا ہے۔ آپ اپنے مخاطب سے کتنی ہی تلخ بات کہنا چاہتے ہوں ہمیشہ شیریں لہجے میں کہیے، تلخ نوعیت کے مباحث، مثلاً مذہب یا سیاست پر بحث کرنا گفتگو کی دلکشی کے لیے زہر قاتل ہے۔ اجنبی لوگوں سے ان موضوعات پر قطعاً گفتگو نہ کیجیے، بلکہ ایسے موضوعات تلاش کیجیے جو عام دلچسپی کے ہوں اور جن میں تنوع ہو۔ گفتگو کے دوران ہلکے پھلکے چٹکلے اور لطیفے خاصی اہمیت رکھتے ہیں اور ان سے گفتگو کو زیادہ پُر کشش بنانے کا کام لیا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ آپ کا مطالعہ وسیع ہونا چاہیے کیونکہ تازہ بہ تازہ معلومات کے بغیر آپ لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں ناکام رہیں گے۔
گفتگو میں دوسرے کو خواہ مخواہ مرعوب کرنے کی کوشش نقصان دہ ہے۔ ممکن ہے سننے والا متاثر ہوجائے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دوسری ملاقات پر وہ آپ سے کھل کر بات نہیں کر سکے گا۔ دوسروں کے مشاغل اور مخصوص عادات سے آگاہی آپ کو بہت جلد مقبول بناسکتی ہے۔ اس سلسلے میں یہ نہ سوچیے کہ مجھے فلاں کے بارے میں جاننے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ کون ہے اور کیا کرتا ہے؟ گفتگو میں دلکشی پیدا کرنے کا دوسرا راز اس امر میں مضمر ہے کہ آپ کا انداز گفتگو کیسا ہے، کیا آپ فصاحت سے بول سکتے ہیں؟ تلفظ یا گرامر کی غلطیاں گفتگو کی دل کشی میں حارج ہونے کا بڑا سبب ہیں۔ یہ فن حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ جو زبان بول رہے ہیں اس کی نوک پلک درست ہو اور سننے والے پر ہر فقرہ اثر کرے۔ جو فرد گفتگو کو مزاحیہ فقروں سے سجاتا ہے، یقین کیجیے وہ گفتگو کا فن جان گیا ہے۔ البتہ گھڑے گھڑائے چٹکلوں اور رٹے رٹائے جملوں سے پرہیز کیجیے۔ بعض لوگ لطیفہ سنانا شروع کرتے ہیں تو اس طرح کہ لطیفہ کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا۔ لطیفہ سنانا ہے تو اسے لطیفے کی طرح سنائیے نہ کہ داستان کی طرح۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا۔ واقف کاروں، دوستوں اور بے تکلف احباب سے گفتگو کرنا بہت آسان ہے اور اجنبی افراد سے بہت مشکل— اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ کسی باہمی دلچسپی کے موضوع پر بات شروع کیجیے۔ تیسرا فرد، جو آپ کا تعارف اس سے کرا رہا ہے، وہ بھی کافی ممد و معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر آپ اس کی دلچسپی فوراً نہ بھانپ سکیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کسی ’’عام موضوع‘‘ پر بات چھیڑ دیجیے۔ مثلاً موسم کا تذکرہ، سیاست دانوں کے دورے، باغبانی کے مسائل، گھر کے آرائش کے طریقے، عورتوں کی نفسیات، بچوں کی تربیت یا اپنے مشاغل – یہ سب کارآمد موضوع بن سکتے ہیں۔
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱- دوسروں کی بات صبر سے سننے کی عادت ڈالیے اور موقع بہ موقع سوالات کرتے جائیے تاکہ آپ کا ملاقاتی یہ سمجھے کہ آپ اس کی بات میں پوری دلچسپی لے رہے ہیں۔
۲- اگر آپ اپنی گفتگو کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو وسیع مطالعہ ضرور کیجیے۔ آپ کے پاس ہر موضوع سے متعلق تازہ معلومات کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ خواہ آپ کو بعض موضوعات سے دلچسپی ہو یا نہ ہو۔
۳- اپنے مصائب اور مشکلات کو خود اپنی طرف سے گفتگو میں داخل نہ ہونے دیجیے۔
۴- ملاقاتی کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ تاثر نہ دیجیے کہ آپ اس کی بات سن نہیں رہے۔
۵- گفتگو کے وقت ایک ہلکی سے مسکراہٹ بہت اثر آفریں ہوتی ہے۔
۶- نرم لہجہ اور صحیح تلفظ آپ کی کامیابی کا ضامن ہے۔
اگر آپ نے ان چھ زریں اصولوںپر آج ہی سے عمل شروع کردیا تو یقین کیجیے کہ آپ کی گفتگو میں وہ جاذبیت اور مٹھاس پیدا ہوجائے گی جو سننے والے کو فوراً متاثر کرلے گی اور اس طرح صرف گفتگو کے ذریعہ آپ دوسروں کا دل جیتنے میں کامیاب رہیں گے۔