احمد بہت دیر سے ضد کررہاتھا کہ اسے اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے گرائونڈ میں جانا ہے، مگر اس کی امی اسے جانے سے منع کررہی تھیں کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی ضرورت نہیں ہے جانے کی،اپنی پڑھائی کرو یا گھرمیں رہ کر ہی اپنے لیے کوئی سرگرمی تلاش کرلو۔
غیرضروری روک ٹوک
آج کل والدین بچوں کابہت خیال رکھتے ہیں۔ مثلاً یہ نہ کھائو، وہ نہ پیو، ان بچوں کے ساتھ نہ کھیلو، یہاں نہیں جانا، وہاں نہیں جانا، ہوم ورک مکمل کرلیا ہے یا ابھی تک گیم ہی کھیل رہے ہو۔ اس قدر کڑی نظر بچوں کو دوسرے بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے نہیں دیتے کہ اگر وہ باہر جائے گا تو نہ جانے کیا کیا سیکھ کر آئے اور ان کی تربیت دھری کی دھری رہ جائے۔ اس کے علاوہ خاندان میں بھی ڈھنڈورا پیٹنا شروع ہوجائے گا کہ بچے بدتمیز ہوگئے ہیں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات ہرگز نہیںہوتی۔
اپنی تربیت پر بھروسا کریں
والدین کو اپنے بچوں کی تربیت پربھروسا ہونا چاہیے کہ ان کابچہ کہیں بھی چلاجائے، ان کے لیے نیک نامی کا ہی باعث بنے گا۔ ایک انجانے خوف نے بچوں سے ان کی آزادی ہی چھین لی ہے۔ والدین اپنے بچوں کے معاملے میں زیادہ ہی حساس ہوگئے ہیں کہ پتا نہیں اگر ان کا بچہ کہیں باہر دوسروں میں اٹھنے بیٹھنے لگے تو کوئی غلط عادت نہ سیکھ لے۔ یا بچوں کی آپس کی شرارتوں سے کوئی ایسی بات نہ ہوجائے کہ ان کی تربیت پر حرف آئے یا ان کے بچوں کو برا بھلا کہاجائے۔
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر والدین بچوں کو گھر کے اندر ہی ہر طرح کی تفریح مثلاً ویڈیو گیم، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسی سہولتیںفراہم کردیتے ہیں جس کا اکثر اوقات غلط استعمال ہونے کی وجہ سے بچوں پرمنفی اثرپڑتا ہے۔ والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ بچے گھر سے کم ہی باہر نکلیں اور کم سے کم نئے دوست بنائیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق انسان کو دوستو ں کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے، ایسے وقت میں بھی جب کہ وہ دوستی کے مطلب اور تقاضوں سے واقف بھی نہیں ہوتے۔ انھیں بھی اچھے دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
والدین خواہ کتنا ہی کوالٹی ٹائم کیوں نہ دیں بچوں کو پھر بھی اپنے ہم عمر دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ والدین اور بچوں میں دوستی کے ساتھ ساتھ ادب اور احترام کا رشتہ بھی ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کے کتنے ہی قریب کیوں نہ ہوں، بچہ ان کے ساتھ اتنی بے تکلفی سے بات نہیں کرپاتاجتنا وہ اپنے دوستوں سے کرسکتا ہے۔
بچوں یا اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے اور گھلنے ملنے سے بچے ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھتے ہیں۔ انہیں لوگوں کے رویے اورعادات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور یہی چیز زندگی بھر بچے کے کام آتی ہے۔ بہت سی ایسی عادتیں یا رویّے جو بچہ اپنے والدین سے سیکھتاہے وہ اکثر فخر سے اپنے دوستوں کو بتاتاہے کہ اس کے والدین نے اس کو یہ سمجھایا، یہ سکھایا ہے۔ جس سے دوسروں کے سامنے اُس کی تعریف ہوتی ہے۔ اس طرح بچے اپنی اچھی عادتیں اور خیالات نہ صرف شیئر کرتے ہیں بلکہ سیکھتے بھی ہیں، اور یہی رویّے اگر مثبت ہوںتو ان کی شخصیت کی تکمیل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ بچے خود سے کوئی کام کرنا چاہتے ہیں مگر والدین کی طرف سے کوئی انجانا خوف انہیں گومگو کی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ مثلاً اکثر بچے پانی میں کھیلنا چاہتے ہیں مگر بعض اوقات والدین کچھ اپنے لاشعوری خوف بچوں میں بھی منتقل کردیتے ہیں، یعنی وہ بچوں کو پانی میں کھیلنے سے منع کردیتے ہیں اور اس طرح بچوں میں بھی پھر اس چیز سے ایک انجانا سا خوف پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ اسی کشمکش میں رہتے ہیں کہ اس چیز کے قریب جائیں یا نہیں۔ یہ بات بچوں میں احساسِ کمتری کا باعث بھی بنتی ہے اور بعض اوقات جہاں کچھ ہم عمر دوست اس کھیل سے لطف اندوز ہورہے ہوں تو ایسے میں آپ کے بچے کا خوف اور دوری نہ صرف اسے احساس کمتری میں مبتلاکرے گی بلکہ اپنے دوستوں میں شرمندگی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اکثر مائیں مہمانوںکے ساتھ بچوں کی آمد کے بارے میں سنتے ہی اپنے بچوں کے کھلونوں کو چھپاکر رکھ دیتی ہیں چاہے وہ زیادہ مہنگے نہ بھی ہوں، اور جب بچے ملتے ہیں تو کھیلنے کے لیے کوئی کھلونا وغیرہ نہیں دیتیں۔
اس طرح کا رویہ درست نہیں، کھیل کے دوران بچے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں، کیونکہ کھلونوں سے کھیلنے کی صورت میں بچے انہیں توڑتے جوڑتے ہیں۔ اس کام میں بچے اپنی عقل اور سوچ کا استعمال کرتے ہیںاور ساتھ دیکھنے والے بچوں کو بھی بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملتا ہے۔
تخلیقی کاموںسے بچوں کی ذہنی نشوونما میں بھی تیزی اور بہتری آتی ہے۔
اکثر مشاہدہ کیاجائے تو یہ دیکھنے میں آتاہے کہ جو بچے دوسرے بچوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں یا اپنے بہن بھائیوں کے قریب رہیں، وہ زیادہ سرگرم اور تیز دماغ ہوتے ہیں۔ ان میں سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ جب کہ اکیلے اور الگ تھلگ رہنے والے بچے اپنے آپ میں گم رہنے والے ہوتے ہیں، اور بعض اوقات ان میںاعتماد کی کمی بھی ہوتی ہے، اور ایسے بچے شرمیلے بھی ہوتے ہیں۔
بچوں کو اعتماد، دوستی اور سکون اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ رہنے میں ہی ملتاہے، کیونکہ والدین کے سامنے حیا اور خوف کی فضا کسی نہ کسی صورت قائم رہتی ہے۔ جو بات وہ بغیر کسی جھجک اور بے تکلفی کے اپنے دوستوں سے کرسکتے ہیں، وہ اپنے بڑوںکے سامنے نہیں کہہ پاتے۔ بچوں میں اعتماد کی بنیاد اپنے گھر سے ہی بنتی ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کو سمجھیں، ان کے ساتھ ادب واحترام کے علاوہ بے تکلفی اور دوستی کا رشتہ بھی رکھیں تو یقینا بچوں میں اعتماد اورشخصیت کا نکھار پیداہوگا اور یہی اعتماد انہیں دوستوں میں ملنے جلنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار میں مددگار ثابت ہوگا۔
بچوں کو ہم عمر دوستوںمیں گھلنے ملنے دیں
دراصل جب آپ کے بچے اپنے دوستوں میں گھلتے ملتے ہیں تو نہ صرف اپنی سوچ، رویّے اور احساسات شیئر کرتے ہیں بلکہ بہت سی ایسی باتیں بھی آزادانہ شیئر کرلیتے ہیںجو وہ عام حالات میں یا کسی جھجک کی وجہ سے اپنے والدین سے نہیں کرسکتے، اور اس طرح ان کامداوا بھی ہوجاتاہے اور وہ ہلکے پھلکے ہوجاتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں پر بھروسا کریں۔ انہیں اعتماد دیں۔ انہیں اپنے ہم عمر دوستوں سے گھلنے ملنے دیں تاکہ ان کی شخصیت میں کوئی کمی نہ رہے۔ اپنے بچوں کے خود بھی دوست بن کے رہیںاور انہیں ایسا ماحول دیں کہ وہ اپنے دل کی بات بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آپ سے کہہ سکیں، کیونکہ یہی ان کے ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں۔ اپنے بچوں کی تربیت کے دوران سختی کے ساتھ ساتھ نرمی کا رویہ بھی رکھیں تاکہ ایک بھرپور اور مکمل شخصیت کی تکمیل ہوسکے۔
——