اپنے بچے کو مشکل میں نہ ڈالیں

ڈاکٹر خالد مشتاق

بچے کی عمر ۱۱ سال تھی۔ نام کاشف تھا۔ والدین نے بتایا کہ یہ پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ اس کے ۹۰-۸۰ فیصد سے زیادہ نمبر آتے۔ بچہ گھر پر بھی آکر انگریزی بولتا اور سب بہت متاثر ہوتے۔ پچھلے چھ ماہ سے یہ اسکول جاتا ہے تو شکایت آتی ہے کہ بچے کی طبعیت خراب ہے اس کی سانس پھول جاتی ہے۔ پیٹ میں درد کی شکایت ہوتی ہے۔ اس کی چند دن کی چھٹی کرائی علاج کرایا، ٹھیک ہوگیا لیکن اسکول جاتے ہی پھر یہی کیفیت ہوجاتی ہے۔
بچہ کا معائنہ کیا گیا۔ اس سے تفصیلات پوچھیں ساری رپورٹس دیکھیں سب رپورٹس نارمل تھیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ بچے کو ایک مسئلہ تو اسکول میں بھاری بیگ اٹھا کر تیسری منزل تک لے جانا پر ہوتا ہے بچہ کی جسامت عمر کے لحاظ سے کم تھی۔
بچے نے بتایا کہ پہلے ان کی کلاس گراؤنڈ فلور پر تھی۔ تو مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ اب تیسری منزل تک بیگ اٹھا کر جانا پڑتا ہے۔ اسکول بیگ بھاری ہے کلاس کے دیگر بچے قد میں مجھ سے بڑے اور موٹے ہیں وہ بآسانی بیگ سے لے جاتے ہیں میں جب کلاس میں پہنچتا ہوں تو میرا سانس پھولا ہوا ہوتا ہے کچھ دیر تک مجھ سے بات بھی نہیں کی جاتی۔ اس ضمن میں اس نے کئی اور باتیں بھی بتائیں۔
والدین نے بتایا کہ یہ سارے مسائل تو اس نے ہمیں نہیں بتائے۔ کاشف کہنے لگا کہ امی کو تو بس میرے ٹیسٹ اور امتحان کے نمبروں کی فکر ہوتی ہے، وہ اچھے ہوں خوش رہتی ہیں، وہ صرف پڑھائی کا معلوم کرتی ہیں۔
کاشف کا گھر اسکول سے دور تھا۔ ڈیڑھ گھنٹہ وہ آتے ہوئے اور تقریباً سوا گھنٹے جاتے ہوئے طے کرتا۔ اس طرح تقریباً تین گھنٹے اس کے وین میں گزرتے۔ سردی میں فجر کی نماز سے پہلے نکلتا۔ کاشف نے بتایا کہ اتنی جلدی اس سے ناشتہ بھی نہیں کیا جاتا۔ اس لیے اسکول میں ہاف بیرک سے پہلے اسے شدید بھوک لگ رہی ہوتی ہے۔جس سے اکثر اس کے سر میں درد ہوجاتا ہے۔ میں جب مس سے کہتا ہوں تو وہ ڈانٹ دیتی ہیں کہتی ہیں صبح تمہاری سانس پھولی ہوئی ہوتی ہے۔ سوال کرو تو جواب نہیں دیا جاتا۔ پھر سردرد تم کیا بیمار ہو؟
کاشف نے بتایا کہ کلاس میں چند بچے جن کے نمبر مجھ سے ہمیشہ کم آتے ہیں مجھ پر ہر وقت تنقید کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے چھوٹو، کوئی کہتا ہے بھائی کیا تمہارے گھر میں ناشتہ نہیں بنتا کہ تمھیں اتنی بھوک لگ رہی ہوتی ہے کوئی کہتا ہے شاید گھر والے کھانا نہیں دیتے تب ہی تو ٹڈے ہو وغیرہ… میں نے کئی مرتبہ مس سے شکایت کی لیکن انھوں نے کہا کہ تم ہر روز کسی نہ کسی بچے کی شکایت کرتے ہو۔ چغلی لگانا ٹھیک بات نہیں۔
کاشف نے بتایا کہ میں نے امی کو بتانے کی کوشش کی کہ سب مجھ پر تنقید کرتے ہیں، انھوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا۔ بیٹا وہ تمہاری پڑھائی سے جلتے ہیں، تمہاری پوزیشن آتی ہے۔ وین والے نے چند اور بچے لے لیے ہیں میں وین میں پھنس کر بیٹھتا ہوں۔ اسکول تک پہنچتے پہنچتے بہت تھکن ہوجاتی ہے۔ پھر بھاری بستہ تین منزل تک لے جانا سانس پھولنا، سر کا درد اور اس کے ساتھ کلاس میں دوسروں سے تنقید سننا۔اس سب سے میں پریشان تھا میرے نمبر حساب اور سوشل اسٹڈیز میں کم آئے یہ پیریڈ اس وقت ہے جب میرے سرد میں درد ہوتا ہے۔
اس وقت میری توجہ پوری طرح کلاس میں نہیں ہوتی۔ نمبر کم آنے پر امی نے خوب ڈانٹا۔ انھوں نے کہا تم نے خاندان میں ناک کٹوادی۔ میرے بھائی کے بچے کے نمبر تم سے زیادہ ہیں۔ چچا، تایا کے وہ بچے جو بہت ہی کم نمبر لیتے تھے وہ بھی تم سے زیادہ نمبر لائے ہیں۔ میں خاندان کے سامنے ذلیل ہوگئی۔ کاشف نے کہا کہ گھر والوں، اسکول کے اس رویہ کے بعد تو میری یہ حالت ہوگئی کہ اسکول جاتے ہی میری طبیعت خراب ہوجاتی۔
والدین کاشف کے ان انکشافات پر حیران تھے۔ میں نے کاشف کی امی سے پوچھا کہ آپ نے کاشف سے بات چیت کی تھی۔ وہ بولیں ہاں ہم رات کا کھانا ساتھ کھاتے ہیں۔
کاشف اسکول سے آکر قاری صاحب سے پڑھتا ہے۔ ٹیوشن پڑھتا ہے۔ جب اس کی والدہ سے یہ معلوم کیا کہ وہ کتنا وقت بچے کو دیتی ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ وہ ایک سوشل ورکر ہیں۔ ایک ویلفیئر ادارہ چلاتی ہیں۔ صبح جاتی ہیں شام کو لوٹتی ہیں، اس لیے دن میں تو کاشف سے بات چیت نہیں ہوتی، شام کو میں خود اتنی تھکی ہوئی ہوتی ہوں رات کو کھانا ساتھ کھاتے ہیں۔
دوپہر کو کاشف کا کھانا گھر کی نوکرانی دیتی ہے۔ صبح کا ناشتہ وہ کرتا نہیں۔ رات ہی کو بیکری سے بسکٹ، سینڈوچ آجاتے ہیں، وہ کولڈ ڈرنگ کے ساتھ لے جاتا ہے۔ کاشف کے والد نے کہا کہ میرے لیے تو یہ سب عجیب ہے۔ میں نے MBAکیا ہے ایک فرم میں مارکیٹنگ ڈائریکٹر ہوں میں تو دیر ہی سے گھر لوٹتا ہوں میں تو بس گھر کی مالی ضروریات پوری کرنے پر توجہ دیتا ہوں۔ بچوں کے لیے اچھے سے اچھا اسکول، مہنگی ٹیوشن، اچھے کپڑے سب کچھ میں دے رہا ہوں۔
کاشف سے اکیلے میں معلوم کرلیا تھا کہ اس کی دوستی گھر پر ہے یا نہیں۔
کاشف کو جسمانی طور پر کوئی بیماری نہیں تھی۔ اس کے والدین کو بتایا کہ کاشف کے بارے میں آپ سنجیدگی سے سوچیں اور اس سے دوستی کریں اسے وقت دیں۔ اس کے مسائل حل کرنے کے لیے تجاویز دی گئیں:
٭ اس کا اسکول تبدیل کروایا جائے۔
٭ اسکول وین میں آدھا گھنٹہ سے زیادہ سفر نہ کرے اور وہ بھی تکلیف دہ نہ ہو۔
٭ والدہ بچے کو وقت دیں۔ والد بھی بچے سے دوستی کریں۔
٭ بچے سے اس کے مسائل پر بات کریں۔
٭ بچے کو ناشتے کے بعد اسکول بھیجیں۔
انھوں نے کہا کہ فوری طور پر تو یہ ممکن نہیں سیشن مکمل ہونے پر کریں گے۔
کاشف اور اس کے والدین کی الگ الگ سائیکوتھراپی کے سیشن کرائے گئے۔
والدین نے بتایا کہ انھوں نے اسکول کی انتظامیہ سے بات کی انھوں نے کہا کہ آپ کا بچہ اچھی انگلش بول رہا ہے۔ نمبر اچھے آتے ہیں، بیمار ہے آپ علاج کرائیں۔ یہاں بچے اسٹینڈرڈ کی تعلیم لینے آتے ہیں تاکہ اچھے نمبر آئیں اور دنیا میں ترقی کرسکیں ہم آپ کے بچے کی وجہ سے انھیں اخلاقیات کے لیکچر نہیں دے سکتے۔
چند ماہ بعد کاشف کے والدین نے اسکول بھی تبدیل کرادیا۔ وین کا مسئلہ حل کیا۔ کاشف ناشتہ کرکے جانے لگا۔ والدین نے ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق باہر کے ناشتے کے بجائے انڈا وغیرہ دیا۔ کولڈ ڈرنک کے بجائے پانی یا دودھ دینا شروع کیا۔ ۷ ماہ میں کاشف کی صحت بہتر ہوگئی۔
اس کیس کا تجزیہ کریں:
٭ اسٹینڈرڈ کے نام پر بچوں کو دور دراز اسکولوں میں بھیجنے سے ان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
٭ والدین بچوں کے اسکول بیگ کے اٹھانے، ویگن کے مسائل پر توجہ دیں۔
٭ بچوں کو ناشتہ گھر پر بنا کر دیں کولڈ ڈرنک سے صحت متاثر ہوتی ہے۔
٭ بچوں کی تربیت کے لیے اچھی تعلیم اور صحت کے لیے والدین بچوں کو وقت دیں۔
٭ فخر جتانا، دوسروں کو کم تر سمجھنا وہ خرابیاں ہیں جو گھر اور خاندان کو پریشانی میں مبتلا کردیتی ہیں۔
تعلیم کے ساتھ تربیت بچوں کی ہی ضرورت نہیں والدین کی بھی تربیت کی ضرورت ہے۔
فخر جتانے، دوسروں کو نیچا دکھانے کے جذبے سے جب اسکول کو منتخب کیا جائے گا بچے داخل ہوں گے۔ بچوں کی اسکول کی فیس statusکی علامت ہوگی۔
اسی بنیادپر اسکول بھی بنائے جائیں گے۔ تونتیجہ مثبت برآمد نہیںہوگا۔
دنیا میں کہیں بھی کیکر کے بیج لگا کر آم کی فصل کی امید رکھنے والوں کو عقل مند نہیں کہا جاتا۔
بچوں کو اچھی تعلیم تربیت کی مثال ہمیں مدینہ کے معاشرے سے ملتی ہے۔
ہم بھی اگر مقابلے کے رجحان، ایک دوسرے کو کمتر ثابت نہ کرنے کے رجحان اور انسانوں کو برابر سمجھنے اور سب کو قابل عزت سمجھنے کے انداز کو اپنائیں اور اپنے بچوں کی اسی انداز میں تعلیم و تربیت کریں تو معاشرے میں مثبت تبدیلی آئے گی۔
مگر خاندان معاشرے میں امن چین اورسکون آئے گا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146