’بچے جوہر ہوتے ہیں۔‘ یہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جوہر کو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ اس کا مالک اس کے ساتھ بہترین معاملہ کرے گا۔لیکن افسوس کہ اکثر ماں باپ اپنے ان جواہر کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ کرتے ہیں جس طرح کا معاملہ ایک لوہار لوہے کے ساتھ کرتا ہے۔ جس طرح لوہار لوہے کو سیدھا کرنے کے لیے آگ اور سخت چوٹ کا استعمال کرتا ہے ایسا ماں باپ اپنی اولاد کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔!!
امام ابن قیم ؒ نے بڑی سچی اور اہم بات کہی ہے : ’’اکثر اولاد میں بگاڑکی وجہ خود ماں باپ ہوتے ہیں، ان کی غفلت کی وجہ سے ہی ان میں بگاڑ آتا ہے۔‘‘والدین کو اس سلسلے میں اللہ کے رسولﷺ کے اس ارشاد کو بھی ذہن سے محو نہیں ہونے دینا چاہیے کہ : ’’آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ جن کی کفالت کر رہا ہے انھیں برباد کر دے۔‘‘
آپ اگر کسی باپ کو اپنی اولاد پر سختی کرتے پائیں یا یہ دیکھیں کہ وہ اپنی اولاد سے نرمی اور شفقت سے بات نہیں کرتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اس شخص کی فطرت ہی الٹی ہوگئی ہے اور رحمت وشفقت کا عنصر اس کے دل سے نکال لیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک سخت پتھر بھی اس سے بہتر ہوگیا ہے۔
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُم مِّن بَعْدِ ذَلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَـارَۃِ أَوْ أَشَــدُّ قَسْـوَۃً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الأَنْہَارُ وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاء وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونo(البقرۃ: ۷۴)
سختی کی ایک علامت یہ ہے کہ باپ اور اولاد کے درمیان باتیں کم سے کم ہونے لگیں یا ماں باپ جب بھی ان سے باتیں کریں تو سختی کے ساتھ کریں۔ بچوں، نوجوانوں اور بڑی عمر کے بچوں سے ملاقات کے دوران مجھے اکثر یہ شکایت سننے کو ملی کہ ان کی گھر کے لوگوں سے باتیں ہوتی ہی نہیں یا ہوتی ہیں تو منفی انداز کی باتیں ہوتی ہیں۔اس چیز سے مجھے سخت حیرت ہوئی ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ کاش والدین اس حقیقت کو سمجھ سکتے کہ گفتگو رشتوں کی مضبوطی اور تعلقات کی بہتری کا بہترین اور کارگر وسیلہ ہے۔ اس کے ذریعے بہت سی معاشرتی، تربیتی اور دینی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے۔گفتگو تعمیر بھی ہے، ڈھال بھی ہے اور علاج بھی ہے۔والدین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اگر ان کے اور اولاد کے درمیان گفتگو کا وسیلہ نہ ہو یا اس کی نوعیت منفی ہو تو اس کے منفی اور خطرناک اثرات ہی اولاد کے اوپر پڑتے ہیں۔ گھر بچے کے لیے سب سے پہلا تربیتی ادارہ ہوتا ہے، گھر ہی وہ جگہ ہے جہاں وہ زندگی گزارنے کا ہنر سیکھتا ہے۔گھر کے اندر ہی بچہ روابط وتعلقات بنانا اور زبان کا استعمال سیکھتا ہے۔اسی طرح دوسروں کی بات سننے، گفتگو اور اس کے آداب بھی یہیں رہ کر سیکھتا ہے۔یہ ساری چیز بغیر گفتگو کے وسیلے کے سیکھ پانا بچے کے لیے ممکن نہیں ہے۔
عمر کے ہر مرحلے کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں۔ انھی خصوصیات کے اعتبار سے گفتگو کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے۔اگر والدین عمر کے مراحل کے اعتبار سے گفتگو کی نوعیت کو نہ سمجھ پائیں تو عین ممکن ہے کہ انھیں گفتگو کا مقصد حاصل ہو نہ پائے یا چھوٹوں اور بڑوں کے درمیان گفتگو اور بات چیت کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے۔عمر کے مختلف مراحل کے لحاظ سے گفتگو کی نوعیت کو درج ذیل سطور کے ذریعے سمجھا جاسکتا ہے:
۱-بچپن کا مرحلہ: ۲-۵ برس
عمر کے اس مرحلے کی خاص بات یہ ہے کہ اس عمر میں بچے سوالات بہت کرتے ہیں اور انھیں جاننے یا علم میں اضافے کا شوق ہوتا ہے۔ہمارے لیے ضروری یہ ہے کہ ہم ان کے سوالات سے نہ اکتائیں اور صبر وسکون کے ساتھ ان کے سوالات کو سنیں، بلکہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے سوالوں کو خوش آمدید کہیں اور حکمت اور نرمی کے ساتھ ان کے سوالوں کے جواب دیں۔اسی طرح بچوں کا جاننے کا شوق اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ماں باپ ان کی جاننے کی فطرت کو پورا کرنے کا اہتمام کریں۔
اس عمر کے بچوں کے بارے میں جو بات معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ بچے جزئیات سے پہلے کلیات کو جانتے ہیں۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی گفتگو کو کلیات پر مرکوز رکھیں بچے کو جزئیات میں الجھانے کی کوشش نہ کریں۔ایک خصوصیت اس عمر کے بچوں کی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ایک جگہ توجہ کو مرکوز رکھنے (concentration) پر قادر نہیں ہوتے، اس لیے ان سے ایک وقت میں ایک ہی چیز کے بارے میں بات نہ کریں۔ اس طرح بچے بہت جلد اکتا جاتے ہیں۔ اس لیے ان سے زیادہ تفصیل میں اور لمبی بات نہ کریں ، مختصرانداز میں انھیں سمجھانے کی کوشش کریںاور زبردستی کوئی بات سننے پر انھیں مجبور نہ کریں۔
۲-بچپن کا مرحلہ: ۶-۱۱ برس
اس مرحلے میں بچے کی سوچنے ، سمجھنے اور سوالات، پہیلیاں اور کہانیاں وغیرہ بیان کرنے کی استعداد وصلاحیت بڑھ جاتی ہے۔عمر کے اس مرحلے میں بچہ کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے الفاظ کے ذخیروں (Vocabulary)میں اضافہ ہوجاتا ہے، پڑھنے کا رجحان بھی بڑھ جاتا ہے۔اس لیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچے کے اس عمر میں پہنچنے کے بعد مافی الضمیرکی ادائیگی ، گفتگو اور دوسروں کی بات کو سمجھنے میں اس کی ہمت افزائی کریں، جو ترکیبیں یا جملے اس نے سنے ہیں انھیں استعمال کرنے میں اس کی حوصلہ افزائی کریں۔
۳-نوجوانی کا مرحلہ: ۱۲-۱۸ برس
عمر کے اس مرحلے کی خاص بات یہ ہے کہ بچے کی توجہ اپنی ذات پر مرکوز رہتی ہے۔اس عمر میں وہ چاہتا ہے کہ اس کے بارے میں بات کی جائے، اسے اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے۔ اسے یہ بات بھی اچھی لگتی ہے کہ ہم اس سے مشورہ طلب کریں اور اس کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کریں، اس کی باتوں کو زیادہ توجہ سے سنیں وغیرہ۔
اس عمر کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ بچے بہادری اور جانبازی کے قصے پسند کرتے ہیں۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ ہم انھیں غزوات و فتوحات اور اسلامی جانبازوں کے قصے سنائیں، جوانی کی قوت وطاقت کے بارے میں انھیں بتائیں اور یہ بتائیں کہ دعوت وکامیابی کے میدان میں نوجوانوں کی کتنی اہمیت ہے اور ان کیا کردار ہے۔
انداز گفتگوکیا ہو؟
بچوں کے ساتھ ہماری گفتگو مفید اور بارآور ہوسکتی ہے اگر ہم چند بنیادی اصولوں کو ملحوظ رکھیں۔
مختصر اور جامع بات
اگر ہم بچے کو حد سے زیادہ تلقین کرتے رہتے ہیں، یا ہر وقت اس کے لیے احکام ہی صادر کرتے رہتے ہیں، ہر وقت اسے ڈائریکشن دیتے رہتے ہیں، اس کے باوجود بھی ہمیں اس سے مقصد حاصل نہیں ہو رہا اور مقصود ومدعا حاصل ہونے کے بجائے بچوں میں ضد اور ہٹ دھرمی بڑھتی جارہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم غلطی کررہے ہیں۔اسی لیے کہا گیا ہے کہ ’’اچھی بات وہ ہے جس کے الفاظ مختصر ہوں لیکن مفہوم مدعا کے اعتبار سے مکمل ہو۔‘‘ یعنی بیک وقت مختصر اور واضح دونوں ہو۔
بچوں کے ساتھ گفتگو کے اسلوب
بچوں کے ساتھ گفتگو کرنے کے کچھ اسلوب اور طریقے ہیں۔ ا گر انھیں اختیار کیا جائے تو ہمارے اور بچوں کے درمیان رابطے کے پل کا کام کرسکتے ہیں۔
۱-تعلیم وتربیت
تعلیم سب سے اہم اور عام طریقہ ہے۔ جب کہ والدین بھی اپنی سب سے اولین ذمہ داری یہی سمجھتے ہیں کہ بچوں کو تعلیم ورہنمائی حاصل ہو اور اخلاق واقدار کی بنیاد پر ان کی تربیت و پرورش ہو۔
۲-جذباتی گفتگو
کبھی کبھی بچے اکتا جاتے ہیں،یا انھیں غصہ آجاتا ہے، ماں باپ کے اوپر ہی مشتعل ہوجاتے ہیں۔ ایسی صورت میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی ان کی طرح کا ردعمل ظاہر نہ کریں، بلکہ ان کے جذبات و احساسات اور ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ان کے منفی جذبات کے جواب میں ہمیں مثبت طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمارے لیے اللہ کے رسول ﷺ کا عملی نمونہ ہونا چاہیے۔آپ ﷺ بچوں کے ساتھ بلکہ تمام ہی لوگوں کے ساتھ نرم دلی خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔آپ ؐ اپنی ذات کے لیے کبھی بھی غضب ناک نہیں ہوئے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں : ایک بدو(دیہاتی) اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں آیا اور بولا: آپ بچوں کا بوسہ لیتے ہیں، ہم تو کبھی بچوں کا بوسہ نہیں لیتے۔نبی کریمﷺ نے اس کی بات سن کر فرمایا: ’’میں کیا کرسکتا ہوںجب اللہ نے تیرے دل سے رحمت و شفقت کو سلب کر لیا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
۲-حوصلہ افزائی اور شاباشی
جب بھی ہم اس کے کسی مثبت رویے پر اس کی حوصلہ افزائی کریں گے ، ہماری یہ حوصلہ افزائی اس کے رویے کو مضبوط ومستحکم کرنے اور دوبارہ اس کو اختیار کرنے کا سبب بنے گی۔لہٰذا اس کے ہر اچھے اور مثبت عمل پر اس کی حوصلہ افزائی کیجیے۔
۳-گفتو اور لچک دار رویہ
حکمت یہ ہے کہ بچے کے لیے آپ کا رویہ لچک دار ہو ۔ اور جن معاملات میں آپ کے اور آپ کی اولاد کے درمیان اختلاف واقع ہوجائے ان کو حل کرنے کے لیے گفتگو کا سہارا لیں۔یہ بھاری غلطی ہوگی کہ ہر بارایک قطعی فیصلہ صادر کردیں اور اسے اپنی اولاد پر زبردستی تھوپنے کی کوشش کریں۔مقصد یہ نہیں کہ آپ غلطی پر اولاد کا محاسبہ ہی نہ کریں بلکہ مقصد یہ ہے کہ جس معاملے میں آپ کے درمیان اختلاف ہے اس سلسلے میں باہم گفتگو کریں، بحث اور گفتگو کا موقع فراہم کریں۔اس کے بعد آپ کے رویے کی بنیاد عفو و درگزر ہو۔
عام منفی جملے
ماں باپ کو اپنی اولاد سے گفتگو کرتے ہوئے اکثر میں چند جملے سنا کرتا ہوں۔ مثلا:
۱۔ ’’یہ تم نے کیا حماقت کی ہے۔۔۔‘‘ حالانکہ آپ کو یوں کہنا چاہیے کہ ’’اس معاملے پر باہم گفتگو کے ذریعے حقیقت معلوم کیے لیتے ہیں۔‘‘
۲۔ ’’تم سے یہ کام بھی نہیں ہوسکا۔۔۔‘‘ حالانکہ آپ کو یوں کہنا چاہیے کہ ’’بہر حال تم نے کوشش تو کی ، کوئی بات نہیں چلو دوبارہ اس کا تجربہ کیے لیتے ہیں۔‘‘
۳۔ ’’جب تک تم میری بات نہیں سنوگے اور میری بات کی مخالفت کرتے رہو گے ، کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘ اس کے بجائے آپ ’’میرے بیٹے ، پیارے‘‘ وغیرہ کہہ کر اسے بات سمجھانے کی کوشش کریں۔
گفتگو کا ماحول کیوں نہیں ہے؟
۱-افشاء راز
بچوں کے بعض والد اپنے بچوں کو تو یہ تاکید کرتے ہیں کہ وہ ان کا کوئی راز کسی کے سامنے ظاہر نہ کرے، لیکن بیٹا اپنا کوئی راز والد کو بتادیتا ہے اور پھر اسے اچانک یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا راز گھر کے تمام لوگ جان گئے ہیں۔ اس طرح باپ خود اس بات کا سبب بن جاتا ہے کہ بیٹا اس سے بات نہیں کرتا۔باپ اگر اپنے بیٹوں کے مزاج اور طبیعت سے ناواقف ہے تو یہ عذر ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ بیٹے اپنے راز کو باپ سے مخفی رکھنے لگیں۔اسی لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کے راز کی حفاظت کریںاور اپنے بچوں، بچیوں کی باتیں سننے کی عادت کو بہتر بنائیں۔
۲-میں تم سے زیادہ جانتا ہوں
بعض والدین اپنی اولاد کے سامنے ہمیشہ یہی جملہ دہراتے رہتے ہیں کہ ’’ میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔جتنا میں جانتا ہوں اتنا تم نہیں جانتے۔ زندگی کاتمھارا تجربہ مجھ سے کم ہے۔‘‘ اگرچہ یہ بات صحیح ہے، لیکن والدین کی طرف سے اس قسم کے جملوں کے استعمال میں اعتدال ہونا چاہیے۔اسی طرح بعض والدین اس قسم کے جملے بول کر بچوں کو اس بات سے روکنا چاہتے ہیں کہ وہ کبھی بھی کوئی فیصلہ خود سے نہ لیں، اور نہ انھیں اس بات کی تربیت دینا چاہتے ہیں کہ وہ زندگی میں خود فیصلہ لینا سیکھ سکیں۔
مزید یہ بھی گفتگو کے اسرارورموز میں سے ہے کہ آپ —گفتگو کے دوران — بچے کو یہ احساس دلاتے رہیں کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح ہیں، ان کے اندر بھی فیصلہ لینے کی صلاحیت ہے، جس طرح ان سے غلطیاں ہوتی ہیں ، ہم سے بھی ہوجاتی ہیں۔یہ چیز انھیں ہمارے ساتھ گفتگو کرنے پر آمادہ کرے گی، ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوگی ، ہم سے کسی مسئلے پر بات کرتے ہوئے انھیں کوئی خوف محسوس نہیں ہوگا، اوراپنے راز میں ہمیں شریک کر یں گے۔کیوں کہ اس طرح ہم انھیں یہ احساس دلادیں گے کہ ہم ان کے دوست ہیں، نہ کہ محض ان پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے والے۔
۳-اولاد کے لیے وقت نکالنے میں بخل
بعض والدین کی ترجیحات ہی اضطراب کا شکار رہتی ہیں۔وہ اپنا اصل وقت تو مادی ضروریات کی تکمیل اور دنیاوی آسودگی کے حصول میں صرف کر دیتے ہیں ، اس میں سے اگر وقت بچ پاتا ہے تو وہی بچوں کے حصے میں آپاتا ہے۔اس سے بچے اپنے والدین سے بات چیت کرنے کے مواقع کے سلسلے میں مایوس ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھربات بڑھتے بڑھتے ماں بات سے بے اعتنائی تک پہنچ جاتی ہے۔
۴-اولاد کے حقوق
بعض بچے اپنے والدین کے ردعمل کے خوف کی وجہ سے ان سے بات کرنے کی ہمت نہیں کرپاتے۔ اس لیے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو اگر آپ سے بات کرنی ہو تو وہ خو دآپ کے پاس چلے آیا کریں تو اس کے لیے آپ کو اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا پڑے گا۔یہاں تک کہ اگر وہ کسی بڑے مسئلے کے متعلق بھی آپ سے بات کررہا ہے تو آپ حتی الامکان خود کو پر سکون رکھیں۔کیوں کہ اس سے بچے کو آپ سے بات کرنے اور اپنی بات کہنے کا حوصلہ ملے گا اور آپ کو اس کے مسائل کو حل کرنے میں مدد بھی ملے گی۔
کتنے ہی بچوں کا مستقبل محض اس لیے ضائع ہوجاتا ہے کہ گھر میں ایک دوسرے سے بات کرنے اور مشورہ کرنے کا ماحول ہی نہیں ہوتا ہے۔اس لیے ماں باپ کو بچوں کے مسائل کے تعلق سے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔اور اگر وہ کسی معاملے میں غلطی کر جائیں تو ان سے الجھنے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ آپ ان کی مدد کریں، اور آپ ان کی مدد اس وقت تک نہیں کرسکتے ہیں جب تک آپ ان کو یہ احساس نہ دلادیں کہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں۔ بچوں کو اس کا احساس اسی وقت ہوگا جب کہ آپ گفتگو کے دوران اپنے سکون اور تحمل کو برقرار رکھیں اور اس کی مشکلات اور حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔کیوں کہ اگر ہم ان پر بے جا سختی کریں گے ، خواہ ہماری نیت ان کی تربیت واصلاح ہی ہو، اس سے باہم بات چیت کا ماحول ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔اور پھر وہ شاید اپنے دل کی بات کہنے کے لیے کسی متبادل کا سہارا لینے لگیں۔ یہ متبادل ان کے وہ دوست بھی ہوسکتے ہیں جو خود ان کی ہی طرح ناتجربہ کار ہیں۔
tanveerafaqui@gmail.com
——