بچوں کے ساتھ روزانہ حادثات ماں کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوتے ہیں لیکن ماں کی تھوڑی سی عقلمندی سے بچے بڑے حادثات سے بچ سکتے ہیں۔ عام طور پر مائیں اس بات کو لے کر بہت فکر مند رہتی ہیں کہ کہیں ان کا بچہ اسٹو کونہ چھو لے۔ کھولتے ہوئے گرم پانی کے پاس نہ چلا جائے، بجلی کا پنکھا، ٹوسٹر، پریس اور آپ کے پلگ کو ہاتھ نہ لگا دے۔ جب بچہ گھٹنوں کے بل چلنے لگتا ہے تو مائیں ہر خطرناک چیز بچے کی پہنچ سے دور رکھنے لگتی ہیں لیکن پھر بھی یہ سننے اور دیکھنے میں آتا ہے کہ دو برس کے ایک بچے نے میز پوش کو اس طرح کھینچا کہ چائے دانی الٹ گئی یا تصویر اٹھانے کی کوشش میں فریم کا شیشہ توڑدیا۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ معصوم بچوں کو یہ سکھانا کہ وہ خطرے سے دور رہیں کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری بڑوں کی ہی ہے کیونکہ ڈیڑھ یا دو سال کے بچے میں خطرے کو سمجھ لینے کی اہلیت نہیں ہوتی وہ یہ نہیں جانتا کہ خطرے کا انجام کیا ہوگا۔
چیزوں کی اصلیت معلوم کرنے کے لیے بچہ فطری طور پر چھوتا ہے، ہاتھ سے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کو چکھنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ اپنے گردو پیش کے بارے میں معلوم کرنے کی خواہش بچے کے اندر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے گھر میں بچوں کی حفاظت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اگر بڑے یہ چاہتے ہیں کہ بچے چیزوں کو نہ چھوئیں تو وہ انہیں اس کی پہنچ سے دور رکھیں۔ اگر اس سے متعلق کچھ پریشانیاں ہوں تو بچوں کی حرکتوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ خطرے کی جگہ تک بچوں کو نہ پہنچنے دیا جائے، بچوں کو کھلونوں سے کھیلتے دیکھ کر لاپرواہ نہ ہوجائیں بلکہ کھلونوں کو اچھی طرح دیکھیں کہ کہیں یہ کھلونا بچے کو نقصان تو نہیں پہنچا رہا ہے۔ دھار دار اور نوکیلی چیزوں کو بچوں کی پہنچ سے دو رکھیں۔ دھیان رہے کھلونے بڑے سائز کے ہوں تاکہ وہ نگلے نہ جاسکیں۔ بچیمیں جیسے جیسے چیزوں کو دیکھنے کی، سننے کی اور چھونے کی اہلیت بڑھے کی ویسے ویسے ہی ان چیزوں کو منھ میں رکھنے کی خواہش کم ہوتی جائے گی۔ بڑھتی عمر کے ساتھ چیزوں کو منھ میں رکھنے میں اتنا مزہ نہیں ملے گا جتنا بچے کو لوگوں سے باتیں کرنے یا خود سے کھلونوں کو ہلانے، جھٹکنے اور پٹخنے میں ملے گا۔
یہ بہت ضروری ہے کہ بچے کو گھر میں کھیلنے کے لیے کوئی ایسی جگہ ضرور دی جائے جو کھلی ہو اور جہاں کوئی خطرناک چیز نہ ہو۔ یہ بچے کی فطرت میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد موجود چیزوں کو کھینچے گا، ہلائے گا، اٹھاکر پٹخے گا اب اگر ایسا کرنے میں چیزیں گرگئیں یا ٹوٹ پھوٹ گئیں تو بچے کو ضرور چوٹ آئے گی اور کئی بار یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جوٹ خطرناک ثابت ہو۔
گھر میں چھوٹے بچے کے لیے سب سے خطرناک جگہ کچن ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ رسوئی گھر میں چٹخنی ہو جس کو بچہ کھول نہ سکے اور ماں کی غیر موجودگی میں وہ اندر داخل نہ ہوسکے۔ ماچس، چاقو، کانٹے، سوئی، قینچی اور سلائی کی دیگر چیزیں بچے کی پہنچ سے باہر ہوں۔ ہر طرح کی دواؤں کو بچوں سے دور رکھا جائے چاہے یہ دوائیں کھانے کی ہوں یا لگانے کی۔ برتن صاف کرنے کا پاؤڈر یا مالش کرنے کا تیل، کیڑے مکوڑے مارنے والی گولیاں اور دیگر ہر طرح کی زہریلی چیزیں تالے میں بند ہونی چاہئیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل باتوں کو خاص طور پر دھیان میں رکھا جائے۔
(۱) بچہ جہاں کھیلے وہ جگہ ہمیشہ صاف رہے۔ کئی بار راستے میں چیزوں کے پڑے ہونے سے بچہ ٹھوکر کھا کر گر جاتا ہے ، اس کے علاوہ فرش چکنا نہ ہو۔
(۲) بچوں کو چڑھنے اترنے، بالکنی میں کھڑے ہونے، میز اور کرسیوں پر کودنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
(۳) شرارتی بچووں کی شرارتوں سے پریشان ہوکر بار بار روکنے کے بجائے کسی مفید کام میں لگا دینا چاہیے۔ الماری اور کمروں کے دروازے بند رکھنا چاہئیں اکثر کھلے ہوئے دروازوں سے سخت چوٹیں آجاتی ہیں۔ دروازہ بند کرنے سے چھوٹے بچوں کو انگلیاں یا پیر دب سکتے ہیں۔
ایک خاص بات:
بچے جب گھسٹنے، گھٹنوں کے بل چلنے یا پیرو ںسے چلنے لگتے ہیں تو ان پر خاص نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر زمینی منزل پر رہائش ہو تو یہ خطرہ کسی قدر کم ہوتا ہے لیکن اوپر رہنے کی صورت میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ گھر کا مین دروازہ بند رہے تاکہ بچہ سیڑھیوں تک نہ جاسکے۔ اسی طرح ٹائلٹ وغیرہ کا دروازہ بھی ہمیشہ بند رکھیں تاکہ بچے فلش وغیرہ میں نہ چلے جائیں۔ بجلی کے تمام پائنٹس پر یا تو ٹیپ چپکادیا جائے یا ساکٹ لگا کر بند کردیا جائے۔ اسی طرح بجلی کے سامانوں مثلاً کولر، پنکھے یا کمپیوٹر وغیرہ کے بارے میں ہمیشہ اس بات کی یقین دہانی رہے کہ ان میں کسی بھی طرح کا کرنٹ نہیں آرہا ہے۔ اب چند باتیں کچھ بڑے بچے بچیوں سے متعلق بھی پیش کی جارہی ہیں۔
ان دنوں اکثر والدین اپنی ذاتی مصروفیات کے سبب بچوں کی بعض قابل توجہ چیزوں کی طرف دھیان نہیں دیتے اور توجہ دیتے بھی ہیں تو اس وقت جب کوئی ایسا حادثہ پیش آجاتا ہے جس کو آپ کا بچہ ساری زندگی بھلا نہیں پاتا۔ ان دنوں سماج میںایک زخم جو ناسور کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کے سلسلہ میں یہ عام خیال ہونے کے باوجود کہ یہ نئی نسل کے لیے حد درجہ خطرناک ثابت ہوتا، ہم بیدار نہیں ہوتے۔ یہ خطرہ خاص طور پر لڑکیوں کے سلسلے میں ہے۔ اور یہ ہے آئے دن ہونے والے عصمت دری کے واقعات۔ یہ کم عمر بچیوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں اور نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ بھی۔ کم عمر اور نو عمر بچیوں کے ساتھ اس قسم کے حادثات زیادہ تر ان خاندانوں میں پیش آتے ہیں جہاں والدین کام کاج کے لیے باہر جاتے ہیں۔ حقیقت ہے کہ سماج میں رہنے والا ہر شخص اس برائی کے گھناؤنے پن اور اس کے مضر اثرات سے اچھی طرح واقف ہے لیکن اس کے ازالے کے لیے کم ہی لوگ سامنے آتے یا اس کی فکر کرتے ہیں۔ آئیے پھر کچھ باتوں پر غور کریں۔
دماغی طاقت کو سمجھنا:
ایک معصوم بچہ اپنی ماں کی ممتا کے سایہ میں پرورش پاتا ہے اور بچے کو اپنے والدین کے علاوہ کوئی عزیز نظر نہیں آتا۔ اس لیے ماں نوکری کرتی ہے یاگھر پر رہتی ہے، اس کو اپنی پریشانیوں کا علم نہیں رہتا اگر ایسے میں آپ اپنا غصہ بچوں پر اتاریں تو بچے آپ سے کنارہ کشی اختیار کرسکتے ہیں، اپنے دل کی بات چھپا سکتے ہیں اور ان حالات میں بچہ کسی اجنبی شخص کے جھوٹے پیار میں کھچتا چلا جاتا ہے اور آپ کا بچہ کب کس حادثے کا شکار ہوجائے کچھ کہا نہیںجاسکتا۔
ایسے میں اپنے بچے کو اپنائیت اور محبت کا بھر پور احساس دلائیں آپ کتنے ہی مشغول کیوں نہ ہوں بچوں کے لیے ضروری وقت دینا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ان کی دماغی حالت کو سمجھئے، ان کے احساسات کی قدر کرئیے اور انھیں زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ رکھئے تاکہ کسی اجنبی شخص کا جھوٹا پیار اس کو اپنی طرف نہ کھینچ سکے۔
کہاں جاتا ہے آپ کا بچہ؟:
آپ کا بچہ آپ کی غیر موجودگی میں اپنا وقت کہاں گزارتا ہے، کس کے ساتھ رہتا ہے، کس طرح کے لوگوں کے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے ان سب چیزوں کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ آئے دن اخباروں اور الکٹرانک میڈیا میں لڑکیوں کے ساتھ عصمت دری کے واقعات میں جو بات ابھر کر سامنے آئی ہے وہ ہے عصمت دری کرنے والے کے پہلے سے گھر کے لوگوں سے تعلقات۔ کبھی چچا، کبھی بھیا، کبھی گلی محلے کا آشنا شخص یہ ایسے لوگ ہیں جن پر آپ شک بھی نہیں کرسکتے اور یہی لوگ جرم کر بیٹھتے ہیں۔
کیا کریں؟
کبھی بھی کسی اجنبی شخص پر اعتماد نہ کریں، نوکر یا کسی غیر کے ساتھ باہر جانے یا گھر پر تنہا رہنے کی اجازت ہرگز نہ دیں ورنہ یہ زندگی کی کوئی بڑی بھول ہوسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آس پاس کے لوگوں پر ہمیشہ نظر رکھیں اور اپنے بچے کو بھی ہوشیار رہنے کی تلقین کریں۔
کھل کر گفتگو کریں:
بچے جب نوعمری سے جوانی کی طرف سفر شروع کرتے ہیں تو ان کے اندر جذباتی اور جسمانی تبدیلیاں شروع ہوتی ہیں جن پر وہ خود بھی حیران اور بعض وقت پریشان ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ کس سے رہنمائی حاصل کریں؟ یہ اہم سوال ہے۔ اس کے لیے سب موزوں اور مناسب فرد ماں اور باپ ہی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ماں باپ اپنی اس ذمہ داری کو نہ سمجھیں یا جھجک اور شرم سے بچوں کی رہنمائی نہ کریں تو اس صورت میں ساتھی، سہیلیوں یا دیگر افراد سے معلومات حاصل کرنے کی صورت میں ان کے بھٹک جانے کااندیشہ ہے۔ بعض اوقات محلے پڑوس کی غلط خواتین بچیوں سے کرید کرید کر سوالات کرتی اور ان کے فکری و ذہنی انتشار کا سبب بھی بنتی ہیں اور بعض وقت اخلاقی بے راہ روی کا بھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کے اس طرح کے سوالات پر ناراض ہونے یا شرمانے لجانے کے بجائے ماں باپ اپنے بچوں کی صبر کے ساتھ اس سلسلے میں رہنمائی کریں اگر والدین اپنے بچوں سے کھل کر گفتگو کرتے ہیں تو بچوں کو اپنی ہر پریشانی کو ماں باپ سے کہنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی بچوں کے ساتھ آپ کا دوستانہ رویہ ہو اور ان کو اس بات کا احساس کرائیں کہ ان کی باتو ںکو نظر انداز نہیں کیا جارہا ہے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو بچہ آپ پر بے حد اعتماد کرے گا اور ہر مسئلے پر آپ سے بے لاگ گفتگو کرے گا جس سے اس کے تمام مسائل بآسانی حل ہوجائیں گے۔