اپنے حصے کا رزق

حساس سراجی، جمشید پور

اکثر عورتوں کی خصلت ہوتی ہے کہ گھر میں خاوند ہے مگر وہ راشن اور دوسری ضروری اشیاء کا تذکرہ نہیں کرتیں اور اُن اشیاء کی فہرست ہی مہیا کرتی ہیں، البتہ شوہر جیسے ہی اپنے کام کاج، روزی روٹی کے لیے گھر سے نکل رہا ہوتا ہے۔ بیگم پیچھے سے آواز دیتی ہے۔ اجی سنئے۔ رات کے لیے آٹا نہیں ہے، دوپہر کے لیے سبزی ختم ہوگئی، منے کا دودھ لیتے آئیے گا اور میرے لیے کریم لانا نہ بھولیے گا۔ وغیرہ وغیرہ
گھر سے نکلتے وقت بیوی کی فرمائش سے شوہر کا موڈ آف ہوجاتا ہے۔ بعض دفعہ غصہ سے جھنجھلاجاتا ہے اور اگر یہ ہمیشہ کا معمول ہو تو پھر خوشگوار زندگی میں تلخی پیدا ہونے لگتی ہے۔ شوہر اور بیوی میں بات بات میں نوک جھونک شروع ہوجاتی ہے۔ بیوی سوچتی ہے کہ جب میں بیاہ کر آئی تھی تو یہ کس طرح مجھ پر فدا ہوتے تھے۔ سب کچھ مجھ پر نچھاور کرتے بلکہ کرید کرید کر فرمائش معلوم کرتے تھے اور اب اچانک یہ تبدیلی اور غصہ…
ضرور کوئی نہ کوئی بات ہے۔ کبھی کبھی تو تصوراتی بدگمانی من میں ڈیرا جمانے لگتی ہے اور کبھی کبھی جس سے وہ اپنا حال بیان کرتی ہے، وہ بھی خواہ مخواہ دوسری عورت کے چکر کا خوف پیدا کرکے شوہر سے بیوی کو بدظن کرڈالتی ہے۔ انسانی سماج میں روز مرہ کی زندگی میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔
مرد اور عورت کی نفسیات میں بڑا فرق ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی نفسیات کو زندگی بھر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ تو اولاد کی محبت اور ذمہ داری دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی ادائیگی سے منسلک رکھتی ہے اور زندگی کی گاڑی چلتی رہتی ہے۔
شوہر چاہتا ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلے ٹینشن فری ہو۔ بیوی فرمائش چلتے چلتے نہ کرے، ضروریات کی فہرت گھر کے اندر مل جائے اور یہ مسئلہ اس وقت زیادہ سنگین ہوجاتا ہے جب مرد کی آمدنی قلیل ہو۔ مسائل اور ضروریات وسعت سے زیادہ۔ لوگوں کے مطالبات اور خانگی زندگی میں ہر وقت ٹکراؤ، ایسے حالات میں مرد اور عورت اس کنبہ میںکشیدہ زندگی گزارتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں تکرار ہونے لگتی ہے۔ لوگوں کے حقوق متاثر ہونے لگتے ہیں۔ جینا اجیرن ہوجاتا ہے۔
میرا یہ معمول تھا کہ ضروری اشیا اور راشن کی فہرست بیوی سے طلب کرتا اور مہینہ بھر کا سامان لاکر اس کے حوالے کردیتا۔ دودھ روزانہ گھر پر آکر گوالا دے جاتا۔ ساگ سبزی، پھل ترکاری لانا میری ذمہ داری تھی۔ کبھی سبزی ترکاری نہیں لاپاتا تو دال روٹی بن جاتی، یا پھر اور کوئی ڈش جو میری پسند سے باہر نہیں ہوتی تھی۔ میری بیوی کو بہت طرح کی ڈِش بنانی آتی ہیں۔ ہر ڈش عمدہ ا ور لذیذ بناتی تھی۔
ہم لوگ دونوں ناشتہ، کھانا دوپہر اور رات کا ساتھ کھاتے تھے۔ اگر وہ کسی کام میں مصروف ہوتی تو میں اس کے فارغ ہونے کا انتظا رکرتا۔ کبھی کبھار میرے آنے کے بعد وہ کھانا تیار کرتی حالانکہ مجھے گرم کھانے کا شوق نہیں تھا۔ ویسے بھی اسلام نے گرم کھانا کھانے سے منع کیا ہے۔
ادھر کچھ عرصے سے میری بیوی کی یہ عادت بن چکی تھی کہ جب میں گھر سے نکلنے لگتا پیچھے سے آواز دیتی۔ سنیے!
میں رک کر پوچھتا: کیا ہے؟
فلاں چیز نہیں ہے۔ فلاں چیز لیتے آئیے گا۔ وغیرہ وغیرہ
میں نے اس کو بارہا سمجھایا کہ ضرورت کی چیزوں کو گھر سے نکلنے سے پہلے بتلادو۔ تم تو گریجویٹ ہو، ایک پرچی ہی لکھ دو، یہ عادت اچھی نہیں، مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔ کبھی کبھی ایسا ہوجائے تو مضائقہ نہیں، لیکن عورت کی ذات، وہ مرد کی نفسیات نہ سمجھتی ہے اور نہ عقل applyکرنا جانتی ہے۔ مرد بھی عورت کی حس کو نہیں سمجھتا۔
ایک دفعہ کا واقعہ ہے۔ کچھ دنوں سے تنگی چل رہی تھی۔ بجٹ اور سسٹم متاثر ہوگیا تھا لیکن مہینہ بھر کے لیے ضروری راشن آگیا تھا۔ میری بیوی بھی حالات سے پوری طرح باخبر تھی۔ آج مجھے جلدی کہیں جانا تھا اور خلافِ توقع میری بیوی نے مجھے پیچھے سے نہیں روکا ٹوکا۔
بیوی سے رخصت ہوکر دکان چلا گیا۔ حسبِ معمول کھانے پر گھر آیا۔ ہاتھ منھ دھورہا تھا، بیگم نے دستر خوان چن دیا۔ دستر خوان پر hotpotمیں روٹیاں تھیں اور چنے کی دال ایک پیالہ میں تھی۔ میں نے دریافت کیا: بچے کھا چکے ہیں؟
بیگم بولی: ہاں وہ لوگ دودھ روٹی کھاکر کھیل رہے ہیں۔
مجھے بہت زور کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ میں نے بیگم کو آواز دی۔ ارے جلدی آؤ۔ بڑی بھوک لگی ہے اور تم ہو کہ کچن میں گھسی ہوئی ہو۔
اس نے کچن سے کہا: آپ کھالیجیے، میں بعد میں کھالوں گی۔
میں بولا: ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ تم بھی آؤ۔ یہ کہتے ہوئے میں نے case roleکا ڈھکن جیسے ہی اٹھایا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے اندر صرف پانچ روٹیاں ہیں۔
اب میں اس کا عذر سمجھا کہ وہ کیوں کچن میں گھسی ہوئی ہے؟
میری بیوی بہت ہی لذیذ کھانا بناتی ہے اور اس کو میری خوراک کا خوب اندازہ ہے، اس لیے وہ سارا کھانا مجھے کھلا دینا چاہ رہی تھی۔
میں نے کہا کہ ایک طشتری اور پیالی لے کر آجاؤ۔
پوچھنے لگی: کیوں؟
پہلے لے کر آؤ تو… پھر بتلاتا ہوں۔ ورنہ میں نہیں کھاتا۔
چپکے سے وہ ایک پلیٹ اور پیالی لے آئی۔
میں نے دال کو برابر سے دو جگہ تقسیم کیا۔ اس درمیان وہ اپنے پلیٹ پر ایک روٹی لے کر کہنے لگی۔ بس آپ کھائیں۔ میرے لیے اتنا کافی ہے۔
میں بھی اس کی خوراک سے واقف تھا۔ میں نے روٹیوں کو برابر برابر تقسیم کیا۔ اب ہم لوگوں کے حصے میں ڈھائی ڈھائی روٹیاں اور برابر برابر دال پیالیوں میں تھی۔ میں بولا: اب تم اپنے حصے کا کھاؤ اور میں اپنے حصے کا۔ غالباً زندگی کا یہ پہلا اتفاق تھا۔
کھاتے کھاتے میں نے نرمی سے پوچھا: کیا آٹا ختم ہوگیا ہے؟
اس نے اثبات میں سرہلایا۔
میں بولا: تم نے مجھے بتلایا کیوں نہیں؟
آپ باہر جاچکے تھے، ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا۔
کیا تمہارے پاس پیسے نہیں تھے؟ کسی سے ایک آدھ کلو منگوالیتیں۔
میں نہانے دھونے میں مصروف ہوگئی۔ پھر فراغت کے بعد بچوں کو اسکول لانے چلی گئی۔ اسکول سے بچوں کو لانے کے بعد جب کچن میں گئی تو دیکھا چاول اور آٹا دونوں ختم ہیں۔ جتنا تھا، اس کی روٹیاں بناڈالیں چوںکہ مودی دکان بند ہوچکی تھی، میری بیوی کے میکے میں کرانے کی دوکان کو مودی دکان کہا جاتا ہے۔
جب میں نے دو برابر حصوں میں کھانا تقسیم کرکے اسے اس کا حصہ دے دیا تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو پورا نہیں ہوگا۔ آپ کھالیں، میں دوسری چیزیں کھا لوں گی۔ اپنے حصے کا مجھے کھلانے پر بضد تھی۔
میں بولا: تمہاری کفالت کا ذمہ، بچوں کی پرداخت و کفالت کا ذمہ، نان نفقہ کا ذمہ میں نے نکاح کے وقت لیا ہے، چنانچہ اپنی حیثیت کے مطابق جیسا خود کھاؤں گا، پیوں گا، پہنوں گا، ویسا ہی تمہیں کھلانا پلانا اور پہنانا میری ذمہ داری ہے۔ ورنہ اللہ کے نزدیک میں جواب دہ ہوں گا۔
پھر ہم دونوں تھوڑی دوری بناکر کھانا کھانے میں مگن ہوگئے۔
وہ اپنے حصے کا کھا رہی تھی اور میں اپنے حصے کا۔
غالباً میں ڈیڑھ سے کچھ زائد روٹیاں کھا چکا ہوں گا کہ اچانک ایک مکڑی میرے ہاتھ کے لقمے سے ہوتے ہوئے پلیٹ میں رکھی روٹی پر چلنے لگی۔ چلتے چلتے دال کی پیالی میں ڈوب کر مرگئی۔
میں ہاتھ کے نوالے کے ساتھ تمام کھانے کو لے کر باہر آیا تاکہ کسی جانور کو دے دیا جائے۔
باہرآنے پر کوئی کوا، مرغی، کتا اور گائے کچھ بھی نہیں دکھائی دیا۔ بالکل سناٹا تھا۔
میں نے ایک چبوترے میں جیسے ہی دال ڈال کر روٹی ڈالی کہ اچانک ایک کتا نہ جانے کہاں سے آیا اور چھپٹ کر روٹی لے بھاگا۔
میں ششدر رہ گیا کہ یہ کتا اچانک کہاں سے چلا آیا۔
ذہن تیزی سے بیدار ہوا کہ آج کے کھانے میں اس کتے کا حصہ شامل تھا۔
واقعی رزاق نے اپنی مخلوق کے رزق کا کیسے کیسے نظم کر رکھا ہے۔
ہرکسی نے اپنے اپنے حصے کا کھانا کھا لیا۔
ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں