بیمار احمد خلیل نے لفافے پر اپنے بیٹے کے ہاتھ کا لکھا ہوا پتہ دیکھا تو اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس نے کانپتی ہوئی انگلیوں سے لفافہ کو چاک کرکے اندر سے خط نکالا اور پھر دیر تک وہ خط کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچے ہوئے چپ چاپ بیٹھا رہا، یوں لگتا تھا، جیسے وہ اس خط کو پڑھنے سے ڈرتا ہے۔ اس کا منہ بولا نا بینا بیٹاعبدالرزاق، اس کا چچا زید، اس کا چچا زاد بھائی رشید، اس کا پاکستانی دوست عبدالرحمن اور اس کا انڈونیشی دوست عمّان یعنی اس کے سب تیماردار اس کے آس پاس کھڑے تھے، اور بڑی بے قراری سے اسماعیل کے خط کا حال جاننے کے لیے مشتاق نظر آتے تھے۔
اپنی بے قراری سے تنگ آکر رشید نے اپنا سیاہ اور قوی ہاتھ احمد خلیل کے کندھے پر رکھا، اور پھر اُسے نرمی سے سہلاتے ہوئے بولا: ’’احمد خلیل! کیا لکھا ہے، اسماعیل نے اپنے خط میں؟‘‘
احمد خلیل نے آہستہ سے خط کی تہیں کھولیں اور پھر بلند آواز میں ٹھہر ٹھہر کر سب کو خط سنانے لگا:
’’… ابا جان! حال ہی میں آئیل کمپنی والوں نے مجھے ترقی دے کر ایک اعلیٰ انتظامی عہدے پر مامور کردیا ہے۔ اب میری تنخواہ بہت اونچی ہوگئی ہے، ماہ رمضان کی آمد کی وجہ سے ہمارے ہاں تعطیلات ہوگئی ہیں، اور میں بہت جلد گھر آرہا ہوں، وہاں آکر آپ کو ایسی حیرت انگیز باتیں بتاؤں گا، جو آپ کی ساری زندگی کو بدل کر رکھ دیں گی…‘‘
زید قدرے حماقت کے ساتھ اپنے بھتیجے کو تکنے لگا، ’’لیکن… لیکن … ‘‘ وہ ہکلاتے ہوئے بولا: ’’مجھے تو اعتبار نہیں آرہا، اسماعیل کو گھر سے گئے صرف تین ہی برس تو ہوئے ہیں۔‘‘
عبدالرزاق پتھر کے مجسمہ کی طرح سن ہوا بیٹھا تھا، اور اس کی بے نور آنکھوں سے آنسو خاموشی کے ساتھ ڈھلک کر اس کے گالوں پربہہ رہے تھے۔ احمد خلیل نے بڑی محبت کے ساتھ اپنے منہ بولے بیٹے کے گرد اپنا ہاتھ پھیلادیا، اور بولا: ’’بیٹے عبدالرزاق! اسماعیل سے تمہارا تعارف صرف اس کے بچپن کے زمانے کا ہے، اب وہ سیانا ہوچکا ہے، لہٰذا اتنے سالوں میں اس کے اندر تبدیلی آجانا ایک قدرتی بات ہے…‘‘
احمد خلیل نے ابھی بات ختم نہ کی تھی کہ اس پر شدید کھانسی کا دورہ پڑگیا۔ وہ سہارے کی خاطر عبدالرزاق سے لپٹ گیا، اور عبدالرزاق نے اُسے مضبوطی کے ساتھ اپنی بغل میں لے لیا۔ ’’ابا! میرے ابا، کوئی فکر نہ کرو، میں یہاں موجود ہوں، میں اور کریم دونوں مل کر مسجد کے مکتب کو ترقی دیں گے، اور امام کی پوری مدد کریں گے، جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ بہرحال تمہارا ہے یا اِس گھر والوں کا…‘‘ اس کے بعد عبدالرزاق نے دھیمے سے احمد خلیل کو فرش پر بچھی ہوئی چٹائی کے اوپر لٹادیا، اور اُسے ایک رضائی اوڑھادی۔ سورج ڈھل کر افق کی آغوش میں پہنچ گیا تھا۔ چنانچہ سب کے سب خاموشی کے ساتھ افطاری کی توپ دغنے کا انتظار کرنے لگے۔
احمد خلیل نے عبدالرزاق کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بولا: ’’بیٹا! مجھے قرآن پاک کی وہ سورت سناؤ، جس میں قرآن کے نازل ہونے والی رات کا ذکر کیا گیا ہے۔‘‘
’’لیکن ابا، یہ تو آپ کو بھی زبانی یاد ہے۔‘‘ عبدالرزاق نے جواب دیا۔
’’یاد تو ہے، لیکن میں اسے اِس وقت تمہاری زبان سے سننا چاہتا ہوں۔‘‘ تمام لوگ مؤدب ہوکر بیٹھ گئے۔ اور عبدالرزاق نے ایک پرسوز لحن میں تلاوت شروع کی۔
’’بلاشبہ ہم نے (قرآن کو) شب قدر میں اتارا ہے۔اور آپ کو کچھ خبر ہے کہ شب قدر کیسی (عظیم وجلیل) رات ہے۔ شب قدر (ہزاروں) ہزار مہینوں سے افضل اور بہتر ہے۔ (اس رات میں) فرشتے اور روح القدس بحکمِ خداوندی (آسمان سے زمین کی جانب) ۔ ہر امر خیر لے کر اترتے (رہتے) ہیں۔ اور وہ (شب) ساکنان عالم کے لیے عرصۂ سلامتی ہے۔ (ابتدائی لمحات سے) طلوع فجر تک!‘‘
عین اِس وقت کسی نے دروازہ پر دستک دی، اور سب چونک کر رہ گئے، رشید اپنی جگہ سے اچھل کر دروازہ کھولنے کے لیے دہلیز کی طرف لپکا، جب اس نے دروازہ کھولا، تو اپنے سامنے اسماعیل کو کھڑا پایا، اسماعیل بھورے رنگ کے چست اور قیمتی سوٹ میں ملبوس تھا، اس نے اپنے ہاتھ میں ایک بادامی چرمی سوٹ کیس اٹھا رکھا تھا، اسماعیل کی داڑھی مونچھیں بالکل صاف تھیں، اور اس کے سر کے گھنے بال خوب بڑھے ہوئے تھے۔
’’مجھے افسوس ہے کہ مجھے بہت دیر ہوگئی۔‘‘ اسماعیل ہانپتے ہوئے بولا: ’’دراصل میرا طیارہ چار گھنٹے لیٹ پہنچا۔‘‘ رشید خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
اسماعیل اور رشید کئی منٹوں تک ایک عجیب تکلیف دہ خاموشی کے عالم میں منہ پھاڑے ایک دوسرے کو تکتے رہے، آخر کار اسماعیل نے رشید سے پوچھا: ’’میرا ابّا کہاں ہے؟‘‘
’’آجاؤ اندر، بھیّا گھر ہی میں ہے۔‘‘ رشید نے جواب دیا اور پھر اسماعیل اُس کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہوگیا۔ سب کی نگاہیں بڑی حیرت اور تاسف کے ساتھ اسماعیل پر مرکوز ہوگئیں، کیونکہ اسماعیل جوتوں سمیت کمرے کے اندر گھسا آرہا تھا، عبدالرحمن اور عمان کی امداد کے ساتھ احمد خلیل بڑی مشکل سے کراہتے ہوئے ایک بید کی چھڑی کے سہارے اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا، اپنے باپ کی صورت دیکھ کر اسماعیل جذبات سے مغلوب ہوگیا، اور پھر ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ احمد خلیل کی طرف بڑھا۔ ’’ابّا!‘‘ وہ بھرائی ہوئی آواز میں چلایا۔ احمد خلیل پر یکایک کھانسی کا دورہ پڑگیا، جونہی اسے کچھ سکون ہوا، اس نے اپنے دونوں ہاتھ اسماعیل کی جانب پھیلا دیے، اسماعیل چونک کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر اپنے باپ کے چہرے پر صدمے اور تکلیف کے آثار دیکھ کر معذرت طلبی کے انداز میں بولا: ’’ابا! ناراض نہ ہونا، تم جانو، تپ دق ایک چھوت کی بیماری ہے، لہٰذا میں پرہیز پر مجبور ہوں۔‘‘ جواب میں احمد خلیل اسے بیٹے کو ایسی نگاہوں سے دیکھنے لگا، جیسے وہ اپنے باپ کاعذر سمجھنے سے بالکل قاصر ہے، آخر کار اسماعیل نے خود ہی فضا پر طاری اذیت بخش سکوت کی مہر توڑی، اور بولا: ’’اماں کہاں ہے؟ میں اس سے بھی ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
رشید نے کمرے میں آویزاں پردے کی طرف اشارہ کیا، اسماعیل پردے کے عقب کی سمت بڑھا، پردے کی دوسری جانب اس کی ماں فرش پر بیٹھی شام کا کھانا پکارہی تھی، اسماعیل کو یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوا کہ اس کی ماں تھوڑے ہی عرصے میں خاصی بوڑھی ہوگئی ہے، اس کے چہرے پر گہری جھریاں نمودار ہوچکی تھیں، اور اس کے سیاہ اور لمبے بال جابجا سے سفید ہورہے تھے۔ اسماعیل نے اپنے بازو اپنی ماں کے گرد پھیلادیے، اور پھر اسے فرطِ محبت سے چومنے لگا، لیکن عاصمہ گم صم بیٹھی رہی، یوں لگتا تھا، جیسے وہ اسماعیل کو اجنبی سا سمجھ رہی ہے۔ عین اسی لمحے افطاری کے گولے کی آواز فضا میں گونجی، عاصمہ چونک کر بولی ’’لو‘‘۔ افطار کا وقت ہوگیا۔ تم تہران سے مدینہ تک کا طویل سفر کرکے آئے ہو، تمہیں ضرور بہت بھوک محسوس ہورہی ہوگی، پھر اس نے اپنا ہاتھ محبت کے ساتھ اسماعیل کے شانے پر رکھا، اور بڑی نرمی سے اس طرح بولی، جیسے وہ کسی بچے سے مخاطب ہو۔ ’’ذرا دیکھو تو اسماعیل، آج ہم نے خاص طور پر پلاؤ پکایا ہے، اور یہ صرف تمہارے لیے، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ تم پلاؤ کے بہت شوقین ہو۔‘‘
عاصمہ اور میمونہ نے انگیٹھی پر سے پلاؤ کا بھاپ اگلتا دیگچا اتارا، اور اسے گھر کے منتظر مردوں کے سامنے رکھ دیا۔ اسماعیل اپنی وضع داری کا خاص لحاظ رکھتے ہوئے اُن کے ہمراہ شامل ہوگیا۔ لیکن وہ پتلون کے سبب فرش پر بیٹھنے میں بڑی تنگی محسوس کررہا تھا، چنانچہ سب کے سب اُس کے بے ڈھب اندازِ نشست پر اسے گھورے جارہے تھے۔
زید نے اپنے پژمردہ مگر گٹھیلے ہاتھ اٹھائے اور کھانے سے پہلے دعاء شروع کی۔
’’میں تعریف کرتا ہوں، اُس خدا کی، جس نے ہمیں کھانے کو دیا، اور پینے کو دیا، اور ہمیں مسلمان بنایا۔‘‘
اسماعیل کو نظر انداز کرکے وہ سب کے سب اپنے درمیان رکھے ہوئے مشترکہ طشت میں سے بہت ہی رغبت اور شوق کے ساتھ کھانا کھانے لگے، اسماعیل خاموش بیٹھا رہا، عاصمہ اسے الگ تھلگ بیٹھا دیکھ کر مضطربا نہ بولی ’’تم بھی کھاؤ بیٹے، پرے کیوں ہٹ گئے ہو، بھئی یہ دعوت تمہارے گھر آنے کی خوشی میں ہی تو دی گئی ہے۔‘‘
’’نہیں ماں۔‘‘ اسماعیل نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے بولا: ’’میں ابھی نہیں کھاؤں گا، فی الحال مجھے مطلق بھوک محسوس نہیں ہورہی۔‘‘
’’بھوک نہیں ہے، تب بھی تھوڑا سا کھالو بیٹے۔‘‘ عاصمہ نے لجاجت سے کہا۔
اسماعیل پر ایک دم جیسے دیوانگی طاری ہوگئی، اور وہ غضبناک ہوکر بولا: ’’میں بالکل نہیں کھاؤں گا ماں! اس ذلیل طریقے کے ساتھ میں بالکل نہیں کھاؤں گا۔‘‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسماعیل کسی سخت تکلیف دہ ذہنی الجھن کا شکار ہوگیا ہے۔ اس کا جی چاہا کہ وہ فوراً یہاں سے بھاگ جائے، دراصل اسے مطلق یہ امید نہ تھی کہ اس کے گھر کی یہ کیفیت ہوگی، وہ سوچنے لگا کہ اس نے ایک ایسے گھر واپس آکر شدید حماقت کی ہے، جو اب اُس کا گھر نہیں رہا… اُس نے اجاڑ اجاڑ نگاہوں کے ساتھ اس چھوٹے سے کمرے کا جائزہ لیا، جس کی کل کائنات فرش پر بکھری ہوئی چند چٹائیاں، کچھ تہہ کی ہوئی رضائیاں، اور سامنے کے دیوار گیر پر رکھے ہوئے چند برتن تھے۔
’’اما! آخر تم نے وہ روپیہ کہاں صرف کردیا، جو میں تمہیں باہر سے بھیجتار ہا ہوں؟‘‘
ایک خاصے طویل عرصے تک تو میں اس روپے سے ہسپتال کے ڈاکٹر کی بتلائی ہوئی دوائیں اپنے لیے خریدتا رہا، پھر جب میں نے محسوس کیا کہ یہ دوائیں بے فائدہ ہورہی ہیں، تو میرے بیٹے، میں نے ان کی بجائے اپنی خوراک میں مقوی چیزوں کا اضافہ کردیا اور ساتھ ہی یہ چند رضائیاں بھی خریدلیں، جو رقم باقی بچی، وہ میں نے زکوٰۃ میں دے دی…‘‘
اسماعیل منہ پھاڑے اپنے ماں باپ کی سمت دیکھ رہا تھا، اور اس کی آنکھوں میں تحقیر اور بے اعتمادی کے جذبات جھلک رہے تھے، جب اس کے باپ نے زکوٰۃ کا ذکر کیا تو وہ جیسے تڑپ اٹھا، ’’تم نے روپیہ زکوٰۃ میں دے دیا، آخر کیوں دے دیا زکوٰۃ میں؟‘‘
’’اس لیے دے دیا کہ ہم بھی کچھ عرصہ پہلے لوگوں سے زکوٰۃ لیا کرتے تھے۔‘‘ عاصمہ آہستگی سے بولی: ’’اور اب کہ تم نے ہمیں بفضلِ خدا غنی کردیا ہے، تو ہم نے بھی جواباً اپنے کم نصیب بہن بھائیوں کی حاجت روائی ضروری سمجھی۔
اسماعیل خاموش ہوگیا، اس اثنا میں مردوں نے کھانا ختم کرلیا تھا، چنانچہ عاصمہ نے خاموشی کے ساتھ برتن سمیٹے اور اور پھر بچا کھچا کھانے کے لیے پردے کے پیچھے چلی گئی۔
احمد خلیل اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر بولا:’’اسماعیل! کوئی دو سال ہوئے تم نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ کام سے فارغ ہوکر تم شب کو کسی نائٹ اسکول میں تعلیم کے لیے جایا کرتے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک تم اچھے خاصے عالم بن چکے ہوگے، اور تم نے اب تک کم از کم بڑے بڑے شاعروں کا کلام ضرور پڑھ لیا ہوگا اور ان کے بہت سے خوبصورت اشعار تمہیں زبانی یاد ہوچکے ہوں گے کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے رسول پاک ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ شاعری دانشوری سے خالی نہیں، اور اب تک کسی شاعرنے جو سب سے زیادہ سچے الفاظ کہے ہیں، وہ لبیدؔ کا یہ مصرعہ ہے کہ سوائے خدا کے دنیا کی ہر چیز بے معنی ہے۔… بیٹے ! کیا تمہیں لبیدؔ کے یہ اشعار یاد ہیں۔‘‘
’’ہاں ! سچے لوگوں کوسچائی کے راستہ پر ہی رہنا چائیے۔‘‘
’’اورتم سب اللہ کی طرف ایک دن ضرور لوٹوگے۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ علم میں ہر شے کا حساب لگادیا ہے اور اس کے سامنے ہر پوشیدہ و مخفی چیز عیاں ہے۔‘‘
’’اور پھر اُس دن کا خیال کرو، جب گناہ گاروں کو سوائے معافی کی دعا کے اور کوئی سہارا میسر نہ ہوگا اور اسی دعا کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ کی بے بہارحمت سے فیض یاب ہوسکیں گے۔‘‘
’’اس روز (گناہ گار) اپنے اچھے اعمال (کے نتیجوں) کا اپنے روبرو مشاہدہ کریں گے۔‘‘
’’اور اس ذاتِ والا کی بخشش کا کرشمہ دیکھیں گے، جو سرتا پا رحمت ہی رحمت ہے۔‘‘
’’ہاں، اُس عظیم و رحیم ہستی کے دامان رحمت میں جگہ ڈھونڈو، اور اس کے ہاں سے اپنے لیے طلب کرو، ایمان کی استقامت، عمل صالح اور سچا یقین…‘‘
’’اسماعیل! مجھے لبیدؔ کی اس نظم کا بقیہ حصہ یاد نہیں آرہا ہے، تم نے اسے اپنے موجودہ اسکول میں ضرور پڑھا ہوگا، مجھے ذرا یہ ساری نظم تو پڑھ کر سناؤ۔‘‘
اسماعیل نے عجیب سی نگاہوں کے ساتھ اپنے باپ کی سمت دیکھا اور پھر بڑی رکھائی کے ساتھ دھیرے سے بولا: ’’میں اسکول میں کوئی شاعری واعری نہیں پڑھتا ہوں۔‘‘
’’تب تم وہاں زیادہ تر قرآن پاک اور اس کی تفسیریں پڑھتے ہوگے۔‘‘
’’میں نائٹ اسکول میں قرآن پڑھنے کے لیے نہیں جایا کرتا۔‘‘
’’تو پھر برخوردار! وہاں آخر کن چیزوں کی پڑھائی ہوتی ہے، کیا قرآن کے علاوہ اور بھی کوئی چیز پڑھائی کے قابل ہے؟‘‘
’’کیوں نہیں، ہمیں نائٹ اسکول میں ہر اچھی چیز پڑھائی جاتی ہے، انگریزی پڑھائی جاتی ہے، میلینکس پڑھائی جاتی ہے اور ویلڈنگ ، کیمسٹری، فزکس اور برقیات…‘‘ اسماعیل اپنے باپ کے حیران و ویران چہرے کی طرف دیکھ کر رک گیا۔ ’’ہائیں ابا! کیا میری بات تمہاری سمجھ میں نہیں آرہی ہیں؟‘‘
’’قرآن کی تعلیم کے بغیر، دینیات کی تعلیم کے بغیر، اور شعراء کے کلام کی تعلیم کے بغیر، آخر تمہیں اپنے دین کا علم کیسے حاصل ہوگا؟‘‘
اسماعیل کو غصہ آگیا۔ وہ اپنی مٹھیاں بھینچ کر بولا: ’’ماضی مرچکا ہے، ابا! آخر تم لوگ کیو ںنہیں سمجھتے کہ ماضی مر چکا ہے۔ ایسے لوگوں کے خیالات اور الفاظ بھلا ہمیں کیا فائدہ پہنچاسکتے ہیں جن کی موت پر ہزار ہا سال گزرچکے ہیں۔ تم ایسے فرسودہ و قدیم قوانین کے مطابق زندگی گزارنا چاہتے ہو۔ جو ابتدائی انسانی معاشرہ کے لیے بنائے گئے تھے اور جن کا کوئی ربط موجودہ زمانے کے مسائل سے باقی نہیں رہا۔‘‘ اسماعیل نے اپنی گردن بلند کرتے ہوئے عجز و ناز سے کہا : ’’ابا ! تم نے میرے دین کے بارے میں پوچھا ہے، یقینا میں بھی ایک دین پر ایمان رکھتا ہوں، لیکن وہ تمہارے دینی عقیدے سے بہت مختلف ہے۔ سنو! میرا عقیدہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی انفرادی کوششوں کے ساتھ اعلیٰ سے اعلیٰ معیارِ زندگی حاصل کرسکتا ہے۔ آج جبکہ ہمارے ملک کے لوگ ایک طرف جابر حکمرانوں کی غلامی میں اسیر ہیں، اور دوسری طرف فرسودہ روایات، غربت، جہالت اور بھوک کے پھندوں میں گرفتار ہیں، جب ہماری قوم کے معصوم بچے بیماری اور فاقہ کشی کے باعث بڑی کثرت سے موت کا شکار ہورہے ہیں، ہمیں دینیات کے عالموں، شاعروں اور فلاسفروں کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، ان کے بجائے ہمیں زیادہ سے زیادہ ڈاکٹروں، انجینئروں اور سائنس دانوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں عظیم بندوں، بڑی بڑی فیکٹریوں، بھاری صنعتوں، لکھو کھا ٹریکٹروں، اور ہر قسم کی مشینوں کی ضرورت ہے۔ہمیں زیادہ سے زیادہ ہسپتالوں کی ضرورت ہے۔ لیکن تم ان باتوں کو کیا جانو! تم تو پرانی لکیر کے فقیر ہو، تمہیں کیا معلوم کہ ہم اِن دنوں اپنے ہاں ایک نئی قومی زندگی کی تعمیر میں مشغول ہیں جو تمہارے نیم وحشی ذہن کے سپنوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ حیرت انگیز اور قابلِ قدر ہے، اور اباّ! میرے لیے یہ بات حد درجہ قابلِ فخر اور حد درجہ ولولہ خیز ہے کہ اس نئی قومی زندگی کی تعمیر میں کچھ نہ کچھ حصہ میں بھی لے رہا ہوں۔
’’لیکن تمہاری بیوی ان دنوں کہا ںہے؟ تم نے ایک خط میں لکھا تھا کہ تم نے ایک عیسائی عورت سے شادی کرلی ہے۔ بھلا تم نے اپنے ہی دین کی کسی عورت سے شادی کیوں نہ کی؟‘‘
’’یہ کوئی ہرج کی بات نہیں ہے ابّا! میری بیوی تو صرف نام کی عیسائی ہے۔ ورنہ حقیت میں اس کا مذہب بھی وہی ہے، جو میرا ہے یعنی انسان کو رسوم و رواج کی جکڑبندیوں اور زمانۂ قدیم کے فرسودہ نظریات اور عقائد سے مکمل نجات دلانا… ہماری شادی کا اصل باعث اسی عقیدے کا اشتراک ہے، میرے لیے کسی پرانی وضع کی مسکین طبع اور اپنے حقوق سے نابلد عورت کے ساتھ شادی کرنا قطعی دشوار ہوتا، میری بیوی بیروت یونیورسٹی کی گریجویٹ ہے۔ اور میں اس کے ساتھ بے پناہ محبت کرتا ہوں، میرے نزدیک وہ دنیا کی تمام عورتوں میں سب سے شاندار عورت ہے۔ میں اسے یہاں آپ سب سے ملانے کی خاطر ضرور لانا چاہتا تھا، لیکن وہ اِن دنوں امید سے ہے، اورمیں اُسے جلد از جلد کسی اسپتال میں داخل کرانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اُسے ہسپتال میں کیوں داخل کرانا چاہتے ہو تم؟ کیا وہ بیمار ہے؟ ‘‘احمدخلیل نے سخت حیرانی کے عالم میں پوچھا۔
اسماعیل نے اپنے والد کی جانب گستاخانہ نگاہوں سے دیکھا اور بولا: ’’میری اولاد اِس طریقے سے پیدا نہیں ہوسکتی جس طریقے سے میں پیدا ہوا تھا، میں چاہتا ہوں کہ میرا ہر بیٹا اور میری ہر بیٹی مضبوط، صحت مند اور تنو مند جسم کی مالک ہو، لہٰذا میں ان کی پیدائش جدید طریقوں کے مطابق کراؤں گا، ابّا! میں تمہاری مانند اپنے آٹھ بچوں میں سے سات کو ضائع کردینے کے لیے بہرحال تیار نہیں ہوں۔‘‘
’’گویا تم مجھ پر اپنے ہی بچوں کے قتل کا الزام لگا رہے ہو؟‘‘ احمد خلیل غصہ سے چلایا۔
’’ہاں، لیکن ایک نادانستہ قتل کا، تمہارا جرم یہ ہے کہ تم بہتر تعلیم حاصل نہ کرسکے اور نہ ہی تم نے اس کے حصول کے لیے کوئی خواہش یا کوشش کی، ابا! دراصل تم میری بات نہیں سمجھ رہے ہو، میرے بچے ایک مختلف، بالکل ہی مختلف زندگی اختیار کریں گے۔ آؤ ابا! میں تمہیں دہران لے جاکر اس مختلف اور نئی زندگی کی چند جھلکیاں دکھاؤں اور سچ پوچھو تو میں گھر اسی غرض سے آیا ہوں تاکہ میں تمہیں اور اماں کو اپنے نئے گھر لے جاؤں، جہاں اپنی زندگی کے باقی ایام تم آرام اور سلامتی کے ساتھ گزار سکو۔ آؤ اور میرے ساتھ چل کر ذرا تم بھی اپنی آنکھوں سے اس عظیم مستقبل کی ایک جھلک دیکھ لو، جو ہماری قوم کے لیے مقدر ہوچکا ہے۔‘‘
یکایک احمد خلیل کو کسی اور بات کا خیال آگیا اور وہ گفتگو کا موضوع بدلتے ہوئے بولا: ’’تمہارے بھائی رفیق کا کیا حال ہے؟‘‘
اسماعیل ایک لمحہ کے لیے کانپا اور پھر اپنی نگاہیں فرش کی سمت گاڑتے ہوئے بولا: ’’وہ ٹھیک ہی ہے۔‘‘
احمد خلیل نے اس کی آواز میں جھوٹ کی لرزش صاف بھانپ لی اور اس نے قدرے زور سے کہا: ’’تمہاری یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی بیٹا! تمہارا چہرہ اور تمہاری آواز تو کسی اور ہی چیز کی چغلی کھا رہی ہے، کیا خدانخواستہ رفیق پر کوئی حادثہ تو نہیں گزرگیا؟ دیکھو بھئی! اپنے باپ سے کوئی بات چھپانے کی کوشش نہ کرو۔‘‘
اسماعیل نے اپنی نگاہیں پھر جھکالیں لیکن وہ اس دفعہ اپنے آپ پر قابو کھوبیٹھا، اس کے بدن پر سخت لرزہ طاری ہوگیا، اور وہ دھیمے سے بولا: ’’کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ رفیق مرچکا ہے۔‘‘
احمد خلیل کے چہرے کا رنگ انتہائی پیلا پڑگیا، کھانسی کا ایک شدید دورہ اٹھا، اور وہ بے سدھ ہوکر بستر پر گر پڑا۔ ’’رفیق مرچکا ہے۔‘‘ وہ ہانپتے ہوئے بولا: ’’اسماعیل آخر تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا؟‘‘
’’اس نے ایک روز استرے سے خود ہی اپنے دونوں ہاتھ کاٹ ڈالے۔ اور اس کی چیخ و پکار سن کر جب میں وہاں پہنچا، تو اسے لہو کے تالاب میں تیرتا پایا، میں نے فوراً ڈاکٹر کو بلوایا، جس نے اسے اسپتال پہنچانے کی ہدایت کی، لیکن اس نے اسپتال کے راستے ہی میں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیا… افوہ! تم میری جانب ایسی نظروں سے کیوں دیکھ رہے ہو ابا! میں سچ کہتا ہوں کہ اس میں میرا کوئی قصور نہ تھا۔‘‘
’’اسماعیل ذرا میری طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھو، اور مجھے بالکل سچ مچ بتاؤ کہ اصل قصہ کیا تھا؟‘‘
’’مجھ پر اعتبا رکرو، ابا!‘‘ اسماعیل چلا کر بولا: اس کی آواز بھی اس کے بدن کی مانند بدحواسی کے باعث کانپ رہی تھی۔ ’’میرا اس کی موت میں کوئی دخل نہ تھا، دراصل کمپنی نے ہم دونوں کو ایک انتہائی شاندار آسامی پیش کی تھی، یہ ایک اعلیٰ افسرانہ اسامی تھی، جو ایک نئے اور نہایت نفیس ائیرکنڈیشنڈ دفتر میں واقع تھی، یہ اسامی یا تورفیق کو ملتی یا مجھے۔ اور میں سمجھتا تھا کہ اگر اس کے لیے رفیق کو چن لیا گیا تو وہ اسے کبھی کامیابی کے ساتھ نہ نبھا سکے گا، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک پگلے کا لڑکا ہے، اس مکروہ پگلے کا لڑکا جو ننگے بدن اِدھر اُدھر بھاگتا دوڑتا رہتا تھا اور ہر وقت غلاظت میں لتھڑا رہتا تھا، حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے جب بھی اپنے پگلے چچا کا خیال آتا ہے، تو میری طبیعت بری طرح متلانے لگتی ہے۔‘‘
’’اسماعیل! یہ مت بھولو کہ رفیق کا باپ میرا بھائی تھا، اور ایک معذور اور بیمار شخص تھا اس کی بے چارگی پرتمہیں طعن نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
’’خیر! اُس کے باپ کی بات چھوڑو، میں تو یہ دیکھ رہا تھا کہ خود رفیق بھی روز بروز ویساہی بنتا جارہا ہے کبھی کبھار وہ یکایک بیٹھے بٹھلائے خواہ مخواہ چلانے لگتا اور پھر زار و قطار رونے لگتا، چنانچہ اس کی انہی عجیب عادات کے خیال سے میں نے کمپنی کے مالکان سے کہہ دیا کہ رفیق کو ترقی دینا خطرہ مول لینے کے مترادف ہوگا۔ میں خوب جانتا تھا کہ رفیق مقابلہ کے امتحان اور افسری کی کڑی آزمائشوں میں پورا نہیں اترسکتا اور میں یہ سمجھنے میں حق بجانب بھی تھا… کیا تمہیں اب بھی اعتبار نہیں آرہا ابا؟‘‘
احمد خلیل نے اسماعیل کو دونوں کندھوں سے تھام لیا، اور پھر اسے آگے پیچھے ہلاتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں بولا: ’’اسماعیل! آخر تم اپنے ہی چچا زاد بھائی کے دشمن کیوں ہوگئے، ہائے، کیا وہ تمہارا اپنا ہی گوشت پوست نہ تھا، میرے بچے! آخر تمہیں کیا ہوگیا؟‘‘
’’خدارا! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو میرے ابا! میں نے صرف وہی کچھ کیا جو اس موقع پرمجھے کرنا چاہیے تھا۔‘‘
’’کاش! تم نے اپنے لیے کوئی اور کام ڈھونڈلیا ہوتا، اسماعیل! تمہیں چاہیے کہ جو کچھ بھی تم نے کیا ہے، اس کا میرے روبرو برملا اعتراف کرو اور پھر دل و جان سے اپنی غلطی کی تلافی کی کوشش کرو، رات دن اللہ کے حضور اپنے گناہوں پر گڑگڑاؤ اور اس سے معافی کی التجا کرو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، اپنے گناہ کی تلافی کرو اسماعیل۔‘‘
’’ابا! مجھ سے یہ نہ ہوگا۔ میں اپنی نوکری کو نہیں چھوڑ سکتا۔ نہ اپنے اعلیٰ گھر اور نفیس بیوی بچوں کو تیاگ سکتا ہوں اور نہ ہی اپنے مستقبل کے حسین خوابوں اور امیدوں کا گلا گھونٹ سکتا ہوں۔ تم مجھ سے اپنی سی زندگی کی توقع نہ رکھو۔ میں بہرحال باقی ماندہ زندگی کسی مسجد کے صحن میں جھاڑو پھیر کر اور وہاں کا کوڑا کرکٹ سمیٹ کر نہیں گزارنا چاہتا… تم دراصل اندازہ نہیں لگاسکتے ہو کہ ایک اعلیٰ و نفیس ذریعہ معاش آدمی کے لیے کیا قدروقیمت رکھتا ہے… تمہیں تو خدا نے کبھی اپنے بچوں کو پیٹ بھر کھلانے کی توفیق بھی نہ دی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میں بچپن میں کس طرح کئی کئی راتیں بھوک کے مارے چلاتا بلبلاتا رہتا تھا۔ پیٹ میں درد کی شدت کے باعث مجھے ان راتوں میں ایک لمحہ کے لیے نیند نہ آتی تھی۔ میری عمر اس وقت زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہوگی، لیکن مجھے اُس زمانے کی ساری اذیت اب تک بخوبی یاد ہے… تم نے میری کوئی پرورش نہ کی، تم نے مجھے بھوکوں مارا، کیوں کہ تم مفلس و قلاش تھے… بچپن کی فاقہ کشی نے میری صحت کو عمر بھر کے لیے تباہ کردیا ہے۔ لہٰذا میں نے گزشتہ تلخ تجربہ کے بعد اب یہ پکا فیصلہ کرلیا ہے کہ آئندہ زندگی میں نہ تو میں خود کبھی بھوک کو دعوت دوں گا اور نہ اپنی بیوی بچوں کو بھوکا مرنے دوں گا۔‘‘
’’اسماعیل! میرے بیٹے! کیا تم اپنے آپ کو خود مختار سمجھتے ہو؟ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے قانون کی اطاعت تم اپنے لیے واجب خیال نہیں کرتے ہو؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم اللہ کی رضا کے بغیر زندہ رہ سکتے ہو؟ یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عظمت تمہارے ہر ہر سانس میں پوشیدہ ہے۔ اور اگر وہ چاہے، تو تمہارے جسم سے عین اسی لمحے روح کھینچ کر تمہاری زندگی کا خاتمہ کرسکتا ہے۔ یقینا ایک روز تمہیں اسی کے حضور لوٹنا ہے۔ اور اس کے بعد قیامت کے روز لازماً اس کے روبرو پیش بھی ہونا ہے۔‘‘
اسماعیل نے عجب ڈھٹائی سے قہقہہ لگایا، اور بولا: ’’مجھے اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ابا! میری عمر اس وقت صرف اٹھائیس برس ہے۔ لہٰذا میری زندگی کا ایک طویل حصہ ابھی باقی ہے۔‘‘ پھر اسماعیل نے اپنی گہری گہری نگاہیں اپنے باپ کے پتلے دبلے چہرے پر گاڑدیں جس میں پیوست چمکتی ہوئی سیاہ آنکھیں بخار کی حدت کے باعث اور بھی تابناک نظر آتی تھیں۔ ’’ابّا!‘‘ وہ پاس آتے ہوئے گھبرا کر بولا: ’’کیا تمہیں موت سے خوف نہیں آرہا؟‘‘
احمد خلیل نے پرسکون اور پرعزم لہجے میں جواب دیا: ’’میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمان کو صرف برے عمل ہی سے خوف آتا ہے۔ … اسماعیل! اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرو اور اپنے گناہوں کی معافی چاہو، ورنہ کوئی موت سے بھی زیادہ خوفناک افتاد تم پر وارد ہوسکتی ہے۔‘‘
اسماعیل گھبرا کر اپنی گردن میں پڑی ٹائی کو توڑنے مروڑنے لگا اور بولا:’’مجھے اب واپس چلنا چاہیے، میری بس کا وقت ہوگیا ہے۔ مدینہ سے جدّہ تک ہر دو گھنٹے کے بعد بس جاتی ہے۔ اور مجھے گھر آئے خاصا وقت ہوچکاہے۔‘‘
احمد خلیل نے بڑھ کر اس کو دونوں کندھوں سے بڑی حیرت انگیز طاقت کے ساتھ پکڑ لیا۔
’’ابّا مجھے جانے دو! مجھے جانے دو۔‘‘ اسماعیل نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ لیکن احمد خلیل نے اپنی گرفت ڈھیلی نہ کی۔
’’اسماعیل! میری طرف دیکھو، مجھ سے نگاہیں ملاؤ‘‘ اسماعیل نے اپنے منہ کو دوسری جانب پھیر لیا۔ لیکن احمد خلیل نے پھر اس کا رخ زبردستی اپنے سامنے کرلیا اور بولا: ’’سنو، اسماعیل! یہ الفاظ میرے نہیں ہیں، یہ اللہ کا کلام ہے۔ وہ کلام جو ایک ازلی و ابدی سچائی ہے وہ کلام جو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست اپنے حبیبؐ اور ہمارے ہادیِ برحق پر نازل فرمایا تھا، سنو اسماعیل! اس کلام کا ایک حصہ سنو:
’’(متاعِ دنیا پر) تمہارا فخر و غرور تمہیں غافل کیے رہتا ہے۔ تاآنکہ تم قبرستانوں میں پہنچ جاتے ہو۔ (تمہارا یہ فخر باطل) ہرگز (صحیح) نہیں ہے، تم عن قریب جان لوگے۔ (پھر سن لو کہ تمہارا یہ فخر باطل) ہرگز (صحیح) نہیں ہے تم عنقریب جان لوگے کاش تمہیں کچھ (حقیقی) اور یقینی علم ہوتا۔ اور تم لوگ (ایک دن) ضرور دوزخ کو دیکھو گے۔ اپنے یقین کی آنکھوں سے (اُسے) دیکھو گے۔ اور پھر اس روز تم سے ہر نعمت کی پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘
’’مجھے جانے دو ابا! مجھے جانے دو۔ میں بہت جلدی میں ہوں۔‘‘ اسماعیل نے اپنے آپ کو باپ کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے کہا اور پھر اپنا چرمی سوٹ کیس اٹھا کر بغیر کچھ اور بولے وہ دروازے سے باہر نکل گیا۔ احمد خلیل اس کے پیچھے پیچھے دہلیز تک آیا، اور پھر اسے دور تک گلی میں تیز تیز قدموں کے ساتھ جاتے دیکھتا رہا۔ لیکن اسماعیل نے ایک مرتبہ بھی مڑکر پیچھے کی جانب نہ دیکھا۔ جب وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تو احمد خلیل پر پھر کھانسی کا ایک شدید دورہ پڑگیا۔ اور وہ سہارے کے لیے دیوار سے لگ گیا، عاصمہ نے لپک کر اسے تھام لیا اور اپنا بازو اس کی کمر کے گرد ڈال کر بولی: ’’آؤ بستر پر چل کر لیٹ جاؤ، اس وقت تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ رشید بھی مدد کے لیے آپہنچا۔ احمد خلیل ان دونوں کا سہارا لے کر بمشکل تمام اپنے بستر تک پہنچا اور پھر اس پر لیٹ گیا۔ عبدالرحمن اور عمان نے جلدی جلدی اسے آس پاس کی تمام رضائیاں اوڑھادیں۔ احمد خلیل نے ان دونوں کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیے اور پھر ایک عجیب والہانہ شوق کے ساتھ اس نے عبدالرحمن کی گھنی سیاہ داڑھی اور عمان اللہ کی ترچھی مگر پر محبت آنکھوں پر اپنی نگاہیں مرکوز کردیں۔ ’’بخدا! تم مجھے اپنے حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ عزیز اور محبوب ہو۔‘‘ وہ بولا اور پھر اس نے دوسری طرف منہ پھیر کر کہا: ’’عبدالرزاق، بھئی تم نظر نہیں آرہے ، کہاں ہو تم؟ یار وکیا اندھیرا کچھ زیادہ ہی پھیل گیا ہے؟‘‘
’’میں یہاں ہوں ابا! بالکل تمہاری دائیں جانب، مجھے کوئی خدمت بتاؤنا۔‘‘
’’خدمت؟ ہاں ، عبدالرزاق، مجھے قرآن پاک کی آخری سورت سناؤ، کیا تمہارا ابھرے ہوئے حروف والا قرآن تمہارے پاس موجود ہے؟‘‘
’’نہیں ابا، وہ قرآن تو میں الازہر میں چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ تاہم وہ سورت مجھے زبانی یاد ہے۔ لو سنو:
’’کہو کہ میں پناہ ڈھونڈتا ہوں، اس کی جو انسانوں کا رب ہے، انسانوں کا بادشاہ اور انسانوں کا معبود برحق ہے۔ اس وسوسہ انداز (شیطان) کے شر سے جو (اللہ کا ذکر سن کر مارے ہیبت کے) سکڑ جایا کرتا ہے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ وہ خواہ جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔‘‘
——