’’گھر‘‘ انسانی زندگی کی بنیادی اکائی ہے۔ یہاں انسان پیدا ہوتا ہے اور پرورش پاکر اپنی سماجی، معاشی، دینی و دیگر طرح کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لائق ہوتا ہے۔ پیار و محبت، باہمی الفت اس کی بنیاد ہیں۔ اسی کے سہارے وہ پلتا بڑھتا ہے اور اسی کے سبب وہ آئندہ نسلوں کی پرورش و پرداخت اور تربیت و تعلیم کی ذمہ داری اٹھاتا اور اس کے لیے ہر قسم کی مشکلوں اور پریشانیوں سے لڑتا ہے۔ یہ ’’گھر‘‘ انسان کے لیے ایسی پناہ گاہ ہے جسے وہ دنیا کی تمام جسمانی، ذہنی اور عملی پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچنے کے لیے تلاش کرتا ہے۔ گھر انسان کے لیے بہت بڑی نعمت اور زندگی کے لیے بیش قیمت چیز ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
واللّٰہ جعل لکم من بیوتکم سکنا۔ (النحل:۸۰)
’’اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکون کی جگہ بنایا۔‘‘
اگر ہم اپنے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہمارے سماج میں کتنے خاندانوں کو یہ گھریلو سکون حاصل ہے تو اندازہ ہوگا کہ بے شمار افراد اور خاندانوں کے لیے ان کے گھر جائے سکون کی بجائے جہنم کدہ بنے ہوئے ہیں، جہاں وہ خواہی نہ خواہی جیل کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خود کشی کے بڑھتے واقعات، بچوں اور نوجوانوں کا گھروں سے فرار ہوکر مجرمانہ زندگی اختیار کرنا، رشتوں ناتوں کی ٹوٹ پھوٹ، طلاق کے واقعات، بھائی بھائی اور باپ بیٹے کے درمیان نفرت و دشمنی اور قریب ترین رشتہ داروں سے قطع تعلق ایسی چیزیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ اب گھروں میں لوگوں کو وہ سکون حاصل نہیں جو کبھی پہلے ہوا کرتا تھا۔
اس ترقی یافتہ دور نے انسان پر ناقابلِ برداشت معاشی ومعاشرتی بوجھ ڈال کر اسے ضروریات زندگی کی تکمیل کا غلام بنادیا ہے اور اس چیز نے اسے خود غرض، مفاد پرست بناکر اس سے وہ اقدار چھین لی ہیں جو خاندان اور گھر کے استحکام اور سکون و اطمینان کا ذریعہ بنی تھیں۔ چنانچہ مشرق و مغرب میں مضبوط و مستحکم خاندان اور آپسی محبت و الفت اور ایک دوسرے کے کام آنے کا تصور اس حد تک مدھم پڑگیا ہے کہ ہر شخص تنہائی، بے مروتی کا شکار ہوگیا ہے۔
اپنے گھروں کو سکون و اطمینان کا مرکز بنانا اور اسے مضبوط و مستحکم رکھنا اور کرنا ہمارا دینی، انفرادی،معاشی اور معاشرتی ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم کس طرح اپنے گھروں کو اپنے اور اپنے اہل خاندان کے لیے ’’سکون کی جگہ‘‘ بناسکتے ہیں اور مشرق و مغرب میں پھیلی خاندانی پھوٹ اور معاشرتی بگاڑ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
اپنے گھروں کو پرسکون بنانے کے لیے یہاں پانچ نکات پیش کیے جارہے ہیں، جن کا تعلق عام گھریلو زندگی سے ہے اور ان پر عمل کرنا ہر انسان کے لیے آسان ہے۔ ضرورت صرف توجہ اور ترجیح کی ہے۔ ترجیح اسی معنی میں کہ ہم اپنی معاشی، تجارتی یا دفتری زندگی میں اپنے گھر کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں یا دوسری چیزوں کو اور یہ کہ کیا ہم ان دونوں کے درمیان توازن پیدا نہیں کرسکتے؟!!
(۱) خلوص و محبت
کسی خاندان کے سکون اور قرار کا انحصار اس کے افراد کے درمیان باہمی خلوص و محبت پر ہے۔ خلوص و محبت کی سرمایہ کاری جس قدر آپ کے گھرمیں ہوگی وہ اتنا ہی پرسکون اور کامیاب ہوگا۔ ایک دوسرے کی خواہش، ضرورت اور خوشی و بھلائی کا خیال رکھنے والے اور اس سلسلہ میں ایک دوسرے کو تعاون دینے والے لوگ اپنے گھر کو مثالی محبت کا نمونہ بناتے ہیں۔ جہاں لوگ ایک دوسرے پر محبتیں نچھاور کرتے ہوں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی فکر کرتے ہوں وہ گھر خواہ مادی اعتبار سے خوشحال نہ تصور کیا جائے مگر وہ ایسے ہزاروں خوشحال خاندانوں سے زیادہ پُرسکون ہوگا جہاں بے شمار دولت کے انبار ہوں مگر لوگ سکون و اطمینان کی تلاش میں گھر سے باہر گھومتے ہوں۔
ایسے افراد کے لیے جو اہل خانہ کی معاشی ضرورت اور سامانِ عیش فراہم کرنے کے لیے رات دن جدوجہد کرتے ہیں اوراپنے گھروں سے زیادہ اس کے سامانِ عیش کی فکر کرتے ہیں کسی کا یہ قول کتنا مناسب ہے:
’’بعض وقت میں محسوس کرتا ہوں کہ جو وقت میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزارتا ہوں اگر دفتر میں گزاروں تو زیادہ فائدہ ہوگا۔ لیکن یہ خیال آتے ہی میں سوچتا ہوں کہ اس سے میرا دفتری ریکارڈ بہتر ہوجائے گا۔ یہ بات اہم ہے۔ مگرباپ کی حیثیت سے میرے فرائض اہم ہیںاور انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر میں بچوں کے لیے اچھا باپ ہوں تو وہ بھی اچھے والدین ثابت ہوں گے۔ پھر جب میں دنیا میں نہ رہوں گا اور میری دفتری پروگریس کو دیمک چاٹ چکی ہوگی تو اس وقت میرے پوتے یااس کے بیٹے کو اچھا باپ صرف اس لیے میسر آسکے گا کہ میں خود اچھا باپ تھا۔‘‘
(۲)باہمی اتحاد
یوروپ کے ایک سروے میں ۱۵۰۰ بچوں سے پوچھا گیا کہ ایک خوشحال اور پرسکون خاندان کیسے بنتا ہے۔ تو ان میں سے کسی نے بھی مال و دولت، شاندار گھر، اور موٹر کاروں کی بات نہیںکی۔ ان کا جواب تھا ’’مل جل کر رہنے، ساتھ وقت گزارنے اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے۔‘‘
گھر اور خاندان چاہے ’’متحدہ‘‘ ہو یا ’’تنہا‘‘ اس کے سکون کا راز باہمی اتحاد اور اس اتحاد کو باقی رکھنے کی فکر میں ہے۔ جس کے افراد خاندان کو متحد رکھنے کے لیے فکر مند نہ ہوں گے وہ ایک دوسرے کی ضروریات، خواہشات اور جذبات کا خیال رکھنے میں کوتاہ ہوجائیں گے اور یہیں سے سکون کی فضا کے درہم برہم ہونے کی ابتدا ہوتی ہے۔
اس کے برخلاف مل جل کر کچھ وقت گزارنا، تقریبات اور تہواروں میں ایک ساتھ جمع ہوکر کھانا پینا اور باہمی دلچسپی کے موضوعات اور گھر و خاندان کی فلاح و ترقی کے موضوع پر گفتگو کرنا باہمی اتحاد کو فروغ دے کر گھر کو اور زیادہ پرسکون بناتے ہیں۔
(۳) قدردانی و ستائش
انسان کی یہ بنیادی ضرورت اور خواہش ہے کہ گردو پیش کے لوگ اسے پسند کریں اور اس کی ستائش کریں اور اس کی ابتدا یقینا ہمارے اپنے گھر سے ہونی چاہیے جہاں لوگ ایک دوسرے کے کاموں اور کامیابیوں پر تعریف وستائش کریں۔ اللہ کے رسول کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان ہوتے تو ان کی مختلف خوبیوں کی تعریف کرتے اور بچوں کے درمیان ہوتے تو ان کے کاموں اور خوبیوں کو سراہتے تھے۔ اس طرح اہل خاندان کے درمیان مضبوط تعلق قائم ہوتا ہے جو گھر کو اور زیادہ آسودہ اور پرسکون بناتا ہے۔ بچوں کی تربیت اور حوصلہ افزائی نیز ان سے جذباتی تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے خاص طور پر اس چیز کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک ماں نے لکھا: ’’ہم میاں بیوی دونوں ہر رات اپنے بچوں کو گلے لگاتے ہیں اور چومتے ہیں ان سے کہتے ہیں کہ تم واقعی بہت اچھے ہو، ہمیں تم سے بے پناہ محبت ہے اور تم پر ناز ہے۔‘‘
اس کے برخلاف گذشتہ سال دسویں کلاس کی ایک طالبہ نے صرف اس وجہ سے خود کشی کرلی کہ اس نے بورڈ کے امتحان میں جب امتیازی نمبروں سے کامیابی کی خبر گھر والوں کو سنائی تو کسی نے اس کی تعریف یا ستائش نہیں کی اور اس کی کامیابی پر مبارکباد نہیں دی۔
(۴) کمیونیکشن یا باہمی گفتگو
ماہرینِ نفسیات نے لکھا ہے کہ باہمی گفتگو اور بے تکلف و بلا جھجک بات چیت تعلقات کو مضبوط بنانے کاذریعہ بنتی ہے۔ باہمی گفتگو اور کھل کر بات چیت کرنے کا مطلب ہے غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوجانا۔ اکثر گھروں کا سکون اکارت کرنے والی چیز یہی غلط فہمیاں ہوتی ہیں جو دل میں دھیرے دھیرے جگہ بناتی جاتی ہیں اور ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے خاندان کی ٹوٹ پھوٹ اور رشتوں میں دراڑ جو گھر کے سکون کو درہم برہم کردیتے ہیں۔ چنانچہ کامیاب خاندان اور پرسکون گھر کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ گھر کے افراد ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور غلط فہمیوں سے اپنے گھر کو اور اپنے آپ کو بچائیں۔
(۵) دینی بنیادوں کا استحکام
گھر کو پرسکون بنانے میں ایک اہم ترین رول ان دینی بنیادوں کا ہے جن کا تعلق ہماری فلاح دنیا و آخرت سے ہے۔ جس گھر کے افراد باہمی تعلقات اور معاملات میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والے ہوں وہاں انتشار، ٹوٹ پھوٹ اوربدامنی نقب لگانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ گھر کے افراد باہمی تعلق اور پھر اللہ سے تعلق جس قدر مضبوط ہوگا گھر اسی قدر سکون و اطمینان کا گہوارہ بنے گا۔
اللہ سے ڈرنے والے والدین کبھی اپنی اولاد کا حق مارنے یا ان کی بہتر تربیت و تعلیم سے غافل نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح دین دار شوہر بیوی ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی میں یقینا چست ہوں گے۔ اور یہ بھی ممکن نہیں کہ اللہ کے احکام سے واقف بہن بھائی ایک دوسرے کے سلسلے میں محبت و الفت کے جذبات سے خالی ہوں۔ ایک پرسکون گھر کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ہر فرد اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس سے پر ہو اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے والا اور برائیوں سے بچنے والا ہو۔