آپ کے گھر میں آپ کی روحِ حیات، آپ کی بیوی، آپ کے بچوں کی ماں، اور وہ ہستی رہتی ہے جسے آپ دل و جان سے چاہتے ہیں، جس سے آپ پیار کرتے ہیں، جس کو آپ اپنی آرزوؤں اور تکلیفوں سے آگاہ رکھتے ہیں، جو آپ کے غم اور خوشی میں آپ کی شریک رہتی ہے اور جسے آپ اپنی ہر ظاہر و مخفی بات سے مطلع رکھتے ہیں۔ وہ آپ کی شریک سفر ہے جس کو اللہ نے ایک نشانی اور آپ کے لیے وجہِ سکون وعافیت بنایا ہے اور آپ دونوں کے درمیان محبت و رحمت کی گنگا بہادی ہے۔
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیویاں بنائیں تاکہ تم کو ان کے پاس آرام ملے اور تم میاں بیوی میں محبت اور ہمدردی پیدا کی۔‘‘ (الروم:۲۱)
آپ کا گھر تحفہ ہائے ربانی، آپ کے لخت ہائے جگر یعنی آپ کے بیٹوں اور بیٹیوں پر مشتمل ہے جو آپ کے لیے دنیا کی زندگی میں رونق و زینت ہیں:
’’مال اور اولاد حیاتِ دنیا کی ایک رونق ہیں۔‘‘ (الکہف: ۴۶)
آپ نے اپنے اس گھر کو قائم کرنے اور آباد کرنے میں اپنی جوانی کی محنت کا تمام حاصل قربان کیا ہے۔ اس کو تعمیر و آباد کرنے میں آپ نے اپنے مال و دولت ، محنت اور غوروفکر کسی بھی چیز میں بخل سے کام نہیں لیا ہے۔ یہی گھر آپ کی جائے پناہ ہے جہاں آپ کو تھکن، بے آرامی، تکلیف اور غموں سے پناہ ملتی ہے۔
کیا یہ گھر جسے آپ نے اتنی محنت و مشقت سے آباد کیا ہے، آپ کی خصوصی توجہ اور اہتمام کا مستحق نہیں ہے؟ آپ اس شخص کے متعلق کیا کہیں گے جس نے خود کو تھکا کر، محنت مشقت کرکے اور تکلیفیں جھیل کر اس قلعۂ عظیم کی تعمیر کی پھر اس کی تعمیر سے فارغ بھی نہ ہوا تھا کہ فوراً ہی اس سے بے پروا ہوگیا اور اس کی یہ بے پروائی بڑھتی ہی چلی گئی۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے پورے گھر کو نقصان پہنچایا اور نتیجتاً اس گھر کی چھت اسی کے اوپر آگری۔ یہ وہ حقیقت ہے جو زبان حال سے ہمارے سامنے خود کو ظاہر کررہی ہے۔ ہم اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ایک نوجوان شخص محنت و مشقت کرتا ہے، زمین پر بھاگ دوڑ کرتا ہے اور کبھی کبھی اپنا گھر بنانے کے لیے اسے قرض بھی لینا پڑتا ہے لیکن پھر جلد ہی اس کا یہ عزم و حوصلہ ڈھیلا پڑنے لگتا ہے۔ شادی کے بعد اس کی یہ توجہ کمزور ہوجاتی ہے اور انجام کار ازدواجی رشتوں میں سخت دراڑیں پڑنے لگتی ہیں، پھر رشتوں کی ان خرابیوں کا عکس اولاد پر پڑتا ہے پھر خود ازدواجی رشتوں کے اہم ستون، شوہر اور بیوی، پر بھی اس کے اثراتِ بد ظاہر ہونے لگتے ہیں جو انھیں منفی انجام اور بے شمار پریشانیوں سے دوچار کرتے ہیں اور یہ ساری چیزیں اس تربیت گاہ، یعنی گھر کو اور کبھی کبھی شوہر و بیوی دونوں، یا کسی ایک کی زندگی کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔
گھر ایک روحانی، جذباتی اور تربیتی آماجگاہ ہے جس کی طرف ان لوگوں کے دل مائل ہوتے ہیں جن کو اللہ نے نعمتِ اسلام سے نوازا ہے۔ اسی طرح اس گھر کی اہمیت کو وہ لوگ بھی محسوس کرتے ہیں جو کبھی اپنی دنیوی خواہشات اور دنیا کی لذتوں میں غرق تھے، جو حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے تھے، لیکن پھر توفیقِ خداوندی سے راہِ ہدایت کی طرف لوٹ آئے اور نصیحت و عبرت حاصل کی۔ جن کی فطرت سلیمہ انھیں واپس مل گئی خواہ چند لمحوں کے لیے ہی سہی۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کی تائید بہت سے غیر مسلموں کے اقوال سے بھی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم امریکہ کی ایک مشہور اداکارہ ’مبارلن موندو‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ خاتون ہے جس نے بے انتہا شہرت پائی، جس کا حسن و جمال دیکھنے والی آنکھوں کو مسحور کردیا کرتا تھا۔ اور جس کی دولت مندی پر بڑے بڑے دولت مند رشک کیا کرتے تھے۔ شاید آپ یہ بات جانتے ہوں کہ اس شہرئہ آفاق، حسین و جمیل اور مال دار ترین خاتون نے خود کشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔ مرنے سے پہلے اس نے ایک وصیت لکھی اور اس وصیت کو امریکہ کے ایک پوسٹ آفس کے حوالے کردیا اور یہ تاکید کی کہ اس وصیت کو اس کے مرنے کے بعد ہی پڑھا جائے۔ نوجوان لڑکیوں کو اپنی اس وصیت میں اس نے یہ بات بھی کہی تھی کہ ’’ نوجوان لڑکی! یہ مت سمجھنا کہ شہرت، مال و دولت اور خوب صورتی میں ہی خوشی اور سعادت ہے۔ یہ ساری چیزیں میرے پاس اتنی وافرمقدار میں تھیں کہ تم ان کا خواب میں بھی تصور نہیں کرسکتیں۔ اگر مجھے اپنے اختیار سے دوبارہ زندگی گزارنے کا موقع ملے تو میں ایک ایسی بیوی اور ایک ایسی ماں کی حیثیت سے زندگی گزارنا پسند کروں گی جو ایک سعادت مند گھر میں رہتی ہو۔‘‘ سبحان اللہ!
وہ اپنی زندگی کا سفر اس طرح ختم کرتی ہے کہ اس کے دل میں ایک ایسے گھر کی آرزو مچل رہی ہوتی ہے جہاں اس کی روح کو قرار مل سکے اور جس گھر میں وہ خوش رہ سکے۔ یہ پوری نوع بشر کے لیے بالعموم اور ان لذت پسند مردوں اور عورتوں کے لیے بالخصوص ایک پیغام ہے جن پر رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ ارشاد رسول کریمﷺ ہے:
لعن اللّٰہ الذواقین والذواقات۔
’’اللہ نے ان مردوں اور عورتوں پر لعنت بھیجی ہے جو حصول لذت کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے ناجائز تعلق قائم کرتے ہیں۔پھر ایک کے بعد دوسری جگہ منھ مارنے لگتے ہیں۔‘‘
یہ لعنت اس معاشرے کے لوگوں پر ہے جہاں ایک مرد بیسیوں عورتوں سے اور ایک عورت بیسیوں مردوں سے ناجائز تعلقات قائم رکھتی ہے۔
اوپر آپ نے جو کچھ پڑھا، اس کے پیشِ نظر میں اپنے عزیز و محترم قارئین کے سامنے مضامین کا یہ سلسلہ پیش کررہا ہوں، جن میں سے بعض مضامین آپ کو رنج و الم کی دکھ بھری داستان سنائیں گے۔ قبل اس کے کہ آپ میرے اس مضمون کا مطالعہ ختم کریں میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے گھر پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور اسی لیے میں آپ کے سامنے یہ سوال بھی رکھتا ہوں کہ ’’ہم اپنے گھر پر توجہ کیوں دیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں میں کہوں گا کہ اپنے گھر پر توجہ دینا ہمارے لیے درج ذیل اسباب کی بنا پر واجب ہے:
۱- ان تمام وجوہ کی بنا پر جن کو میںنے اپنے زیر نظر مضمون میں واضح کیا ہے۔
۲- اس لیے کہ اپنے گھر پر توجہ دینا انسان کا فریضہ ہے جو اللہ نے اس پر عائد کیا ہے اور اسے اس کا مکلف بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! خود کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
(التحریم: ۶)
’’اور اپنے اہلِ خانہ کو نماز کا حکم دو اور اس پر جم جاؤ۔‘‘ (طٰہٰ)
۳- اپنے گھر پر توجہ دینا اور اس کا خیال رکھنا ایک ایسی ذمہ داری ہے جو ہمارے رسول کریمﷺ نے ہر مسلمان کے کندھے پر ڈالی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں کا ہر شخص نگراں ہے اور ہر نگراں سے اس کے زیرِ نگرانی لوگوں کے متعلق سوال ہوگا۔ مرد اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ خادم اپنے مالک کے مال کا نگراں ہے، اور اس سے بھی اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ تم میں کا ہر شخص نگراں ہے اور ہر شخص اپنی رعیت کے سلسلے میں جواب دہ ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
۴- برائیوں اور خرابیوں سے پاک مسلم گھر ایک مضبوط مسلم سماج کی تعمیر کی راہ میں بنیادی قدم ہے۔ کیونکہ گھر ایک معاشرے کے آل اولاد کی طرح ہوتے ہیں۔ ایک مسلم معاشرہ بہت سے مسلم دینی گھرانوں کے مجموعے کے سوا اور کیا ہے؟
۵- گھر کے افراد پر توجہ دی جائے گی تو افراد خانہ کے معیار اور مرتبہ میں توازن قائم رہے گا۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ مرد تنہا ہی پرورش کرتا رہے اور اپنی بیوی اور بچوں کویوں ہی چھوڑ دے۔
۶- ایسا خوش نصیب مسلم گھر جس کے افراد باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوں، اپنے افراد کو ان کے ہر کام میں کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے جس کا عکس معاشرے کی ترقی اور خوش حالی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔