اچھی صحت کے لیے ایک لازمی امر یہ ہے کہ آپ کو اچھی نیند آئے اور اس میں خلل واقع نہ ہو۔ لیکن اکثر لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ اگر ہم درکار وقت نہ سوئیں تو ہمارا دماغ اور جسم اتنی اچھی طرح کام نہیں کرتے جتنی اچھی طرح انہیں کام کرنا چاہیے۔ ایک برطانوی ماہر کا خیال ہے کہ نیند پوری نہ ہو تو کسی کام یا بات پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اس کے علاوہ قوتِ فیصلہ پر بھی اثر پڑتا ہے۔ چڑچڑاپن پیدا ہو جاتا ہے اور ہم مختلف باتوں میں شک کرنے لگتے ہیں۔ نیند کی کمی تکان اور مدافعتی نظام میں کمزوری کا سبب بھی بنتی ہے اور اس سے ہارمونی تبدیلی بھی واقع ہوسکتی ہے۔
جو لوگ خراٹے لیتے ہیں ان میں سے تقریباً پانچ فیصد کو حبس دم کی شکایت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حبس دم کے مریض ایک رات میں تین سو بار سے پانچ سو بار تک نیند سے جاگتے ہیں اور ان کی نیند کا یہ خلل دن بھر ان کی حالت کو تباہ رکھتا ہے۔ عموماً حبس دم کے مریض کو نیند میں اس خلل کا علم نہیں ہوتا۔ خراٹوں کی تین خاص وجوہ بتائی جاتی ہیں: وزن کی زیادتی، تمباکو نوشی اور مے نوشی۔ لہٰذا خراٹوں کو روکنے یا ان میں کمی کے لیے اس طرف توجہ دینا ضروری ہے، لیکن بعض دیگر وجوہ بھی ہوسکتی ہیں لہٰذا معالج سے مشورہ کر کے پہلے تو خراٹوں کی وجہ معلوم کیجیے اور پھر ان کے علاج کی طرف آئیے۔ وجہ معلوم ہوجائے تو چھوٹے موٹے علاج آپ خود بھی کرسکتے ہیں، مثلاً یہ کہ دن میں دو بار دس دس منٹ بھاپ لی جائے۔ جس گدے پر آپ سوتے ہیں، اسے خریدتے وقت کسی ماہر سے مشورہ کر لیں تو بہتر ہوگا۔ آزماکر دیکھئے کہ گدا آرام دہ اور صحیح طریقے سے آپ کے جسم کو سہار لیتا ہے یا نہیں۔ اس طرح صحیح تکیے کے انتخاب پر بھی توجہ دیجیے جس پر آپ کی گردن کی رگوں کو تکلیف نہ پہنچے اور آپ کی گردن اپنی قدرتی شکل میں سیدھی رہے اور آگے پیچھے بھی نہ ہو۔ عام طور پر سر کے نیچے ایک تکیہ رکھنا کافی ہوتا ہے۔
کوشش کیجیے کہ سوتے وقت کروٹ سے لیٹیں اور اس طرح کہ آپ کے گھٹنے کمر سے زاویہ قائمہ یعنی 90 ڈگری کے زاویے پر رہیں۔ سوتے وقت آنکھوں سے کنٹیکٹ لینس بھی نکال لینا چاہیے ورنہ آنکھوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور نتیجتاً بینائی متاثر ہوسکتی ہے۔ جو خواتین میک اپ کرتی ہیں انہیں چاہیے کہ سونے سے پہلے اپنا میک اپ اتار دیں، ورنہ یوں محسوس ہوگا جیسے چہرے پر جھریاں پڑ گئی ہیں۔میک اپ سے مسام بھی بند ہوسکتے ہیں جس کی وجہ سے چہرے پر دھبے نمودار ہونے لگتے ہیں۔ نیز جلد کو آکسیجن نہیں ملے گی تو جلد کی شادابی میں کمی ہوگی۔ سونے سے قبل آنکھوں سے مسکارے اور آئی لائنز کو صاف نہ کیا جائے تو آنکھوں میں جلن ہوسکتی ہے۔
رات کو سونے سے قبل دانتوں کو بھی صاف کرلینا ضروری اور اہم ہے۔منہ صاف ہو تو بیکٹریا کو پلنے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا اور منہ سے بو نہیں آتی۔
اکثر لوگ سوتے میں دانت کٹکٹاتے ہیں اور یہ عادت اکثر جبڑے اور سر میں درد کا سبب بن جاتی ہے۔ اس عادت سے دانتوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ دانتوں کا کٹکٹانا دباؤ کی علامت ہوسکتا ہے۔ بہرطور اس عادت سے جو تکلیف دانتوں، جبڑے اور سر میں ہوتی ہے وہ نیند میں خلل کا باعث بھی ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو یہ عادت ہو انہیں معالج سے مشورہ کرلینا چاہیے۔
آج کے دور میں بے خوابی کے مریضوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ جو لوگ اس شکایت میں مبتلا ہیں انہیں چاہیے کہ اپنے سونے کے کمرے کا درجہ حرارت صحیح رکھیں۔ کمرہ بہت ٹھنڈا نہ ہو بس اس میں خفیف سی خنکی ہو۔ سر شام تھوڑی ورزش کرلیں۔ کیفین کا استعمال محدود رکھیں، اگر ضروری ہو تو شور سے بچنے کے لیے کانوں میں روئی کے پھوئے رکھ لیں، یہاں تک کہ ٹک ٹک کی آواز سے بچنے کے لیے بڑی گھڑی بھی کمرے سے ہٹا دیں اور روشنی بری لگتی ہو تو آنکھوں پر پٹی چڑھا لیں۔
بستر کی چادریں اور تکیے کے غلاف زیادہ دیر تک نہ دھلیں تو ان میں گردی حشرے (کیڑے مکوڑے) جمع ہوجاتے ہیں جو دمے کے مرض کا باعث ہوتے ہیں۔ اور یہ کیفیت ہر لحاظ سے تکلیف دہ ہوتی ہے جو خصوصاً نیند میں خلل پیدا کرتی ہے۔ یہ خیال بھی رکھیے کہ اپنے بستر میں پالتو جانوروں کو نہ سلائیں۔ جانوروں کے بالوں، تھوک اور پیشاب میں الرجی پیدا کرنے والے عناصر ہوتے ہیں۔ جن لوگوں کو خود دمے کی شکایت ہے یا ان کے خاندان میں یہ شکایت پائی جاتی ہے انہیں چاہیے کہ پالتو جانوروں کو اپنے سونے کے کمرے میں بھی نہ گھسنے دیں۔lll