[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

اچھی پڑھائی کیسے ہو؟

راشد نعمانی

ہر سال مختلف بورڈ، یونیورسٹیوں اور دیگر امتحانوں کے نتائج کے بعد یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کچھ طلباء تو بہت اچھے نمبر لے کر کامیاب ہوتے ہیں، پوزیشن اور امتیاز حاصل کرتے ہیں، تو بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو اچھے نمبر نہیں لاپاتے اور کچھ صرف پاس ہوجاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں ایک طالب علم زیادہ نمبر لاتا ہے تو دوسرا صرف کامیاب ہوجاتا ہے؟ کیا نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلباء کو کوئی جادو آتا ہے؟ جواب ہے ’’جی ہاں‘‘ اگر ایسے طلباء کوئی جادو جانتے ہیں تو وہ ہے ’’کڑی محنت اور مطالعے کا صحیح طریقہ۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے موثر مطالعے کی عادت ڈالی اور شوق پیدا کیا ہے جو انہیں دوسرے طلباء سے ممتاز کرتا ہے۔

ایک اچھا طالب علم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پڑھائی کے گُر جانے۔یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک طالب علم کتنا پڑھتا ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ کیسے پڑھتا ہے اور کیا پڑھتا ہے۔ اس ’’کیسے اور کیا‘‘ کا گہرا تعلق صحیح مطالعے کی عادتوں اور شوق سے ہے۔

اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ طلباء کو صحیح مطالعے کی عادتوں اور شوق کے بارے میں رہنمائی کی جائے اور انہیں اس بات کے لیے آمادہ کیا جائے کہ وہ اس پر عمل کرکے، اپنی پڑھائی کو اچھا بنائیں اور اسکول اور بعد کی تعلیمی زندگی میں آنے والے امتحانات کے نتائج میں نمایاں کامیابی حاصل کرسکیں۔

مطالعے سے متعلق چند پہلوؤں اور اس کے طریق کار کے بارے میں درج ذیل باتیں قابلِ توجہ ہیں:

(۱) مطالعے کے لیے ٹائم ٹیبل بنانا

علمِ نفسیات اور تعلیم کے ماہرین نے ’’پابندی اور منظم طریقے‘‘ سے مطالعہ کرنے کو کامیابی کی کنجی بتایا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ پڑھائی کے لیے روزانہ کا ایک ٹائم ٹیبل بنایا جائے۔ یہ ٹائم ٹیبل ہر طالب علم کی پڑھائی کی ضروریات اور اس کے حوصلے کے مطابق ہوگا۔ یعنی کچھ طلباء کو ایک کام کرنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہوگا تو دوسرے طلباء کو اسی کام کے لیے کم وقت۔ ٹائم ٹیبل طلباء کی پڑھائی میں پابندیٔ اوقات کی عادت ڈالتا ہے۔ اپنی توانائی اور وقت کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے میں معاون ہوتا ہے۔ ٹائم ٹیبل بیک وقت ایک چیلنج، رہنما اور مانیٹر کا کام کرتا ہے۔ ٹائم ٹیبل پڑھائی کے اوقات کو باقاعدہ بناتا ہے اور نظم و ترتیب پیدا کرتا ہے۔

پڑھائی سے پہلے اپنے آپ کو دماغی طور سے تیار کرنا اور پڑھائی سے متعلق تمام چیزوں جیسے کتابیں، کاپی، قلم، کاغذ وغیرہ سے تیاری ضروری ہے۔ یہ تیاری مطالعے کا موڈ بنانے میں مددگار ہوتی ہے۔

لگ بھگ سبھی طلباء اپنے بارے میں یہ جانتے ہیں کہ مختلف مضامین میں ان کی پوزیشن کیا ہے۔ کیا انھیں کوئی مضمون مشکل لگتا ہے؟ یا اس میں کچھ کمی محسوس کرتے ہیں۔ انھیں ایسے مضامین یا مضمون کے لیے ٹائم ٹیبل میں زیادہ وقت درکار ہوگا۔ مطالعہ کرتے وقت اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ جس مضمون کے لیے جتنا وقت دیا ہے اسے وقت ختم ہوجانے کے بعد وہیں چھوڑ دینا چاہیے اور دوسرے مضمون کا کام شروع کردینا چاہیے۔

ٹائم ٹیبل بناتے وقت طلباء کو مندرجہ ذیل نکات کا خیال رکھنا ضروری ہے:

(الف) ان کے پاس کتنا خالی وقت ہے؟

(ب) کتنے مضامین ہیں؟

(ج) کس مضمون کے لیے کتنا وقت مقرر کیا جائے؟

(د) ہوم ورک ہے تو اس کے لیے روزانہ کا اوسط وقت۔

(ہ) خود کے مطالعے کے لیے وقت اور سب سے آخر میں جو کچھ ہفتے بھر میں پڑھا ہے اسے دہرانے کا کام۔

طلباء کو ایسا ٹائم ٹیبل ہرگز نہیں بنانا چاہیے جس پر وہ عمل کرنے میں کسی قسم کی دشواری محسوس کریں۔ ایسی صورت میں ان کی دلچسپی اور توجہ پڑھائی کی طرف سے ہٹ جانے کا خدشہ ہے جس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔

(۲) پڑھنے کی جگہ

پڑھنے اور کام کرنے کی جگہ جہاں تک ممکن ہو بالکل الگ ہونی چاہیے۔ جہاں مطالعے سے متعلق تمام ساز و سامان موجود ہو۔ جہاں نے تو ان کے پڑھنے میں کوئی مخل ہو اور نہ ہی ان کے پڑھنے سے دوسروں کو خلل پہنچے۔ بہت سے طلباء کے گھروں میں جگہ کی کمی کی وجہ سے الگ پڑھنے کی جگہ یا کمرہ نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں طلباء کو دستیاب جگہ میں اپنی پڑھائی کے لیے مناسب جگہ اور صحیح وقت کا انتخاب کرنا ہوگا۔ جہاں وہ بغیر کسی خلل کے پڑھ سکیں۔ مطالعہ کی جگہ جہاں تک ممکن ہو ہر قسم کے شور و غل سے پاک ہو، وہ خوب روشن اور ہوا دار ہو۔ شوروغل اور غیر مناسب جگہ پڑھائی میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ اور پڑھائی کی طرف سے توجہ کو ہٹاتے ہیں۔

(۳) مطالعے کے اوقات

ماہر نفسیات’’منظم مطالعہ‘‘ کے لیے پڑھائی کے مخصوص اوقات پر زور دیتے ہیں کیونکہ یہ عنصر پڑھائی کی طرف توجہ و دھیان دینے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ آپ چاہے دیر رات میں پڑھیں یا سویرے تڑکے، یا دن کے وقت میں، ضرورت اس بات کی ہے کہ پڑھائی کے طے شدہ اوقات پر سختی سے عمل کریں۔

(۴) کام میں یکسوئی سے لگنا

اسکول شروع ہونے پر اپنی پڑھائی کے کام میں ہمہ تن جٹ جانا چاہیے۔ پہلے پورے سبق کو خاموشی سے پڑھیں۔ پھر اس پر نظر ثانی کریں اور موٹی سرخیوں پر دھیان دیں تاکہ تمام ضروری معلومات دماغ میں منظم ہوجائیں۔ نوٹس تیار کریں یا سبق کی خاص خاص تفصیلات کا خلاصہ تیار کریں۔ اور حافظہ کا بھر پور استعمال کریں، سبق کو سرسری طور سے پڑھ کر اور اس بات کی توقع کرنا کہ پڑھی ہوئی باتیں دماغ میں خود بخود نقش ہوجائیں گی، خام خیالی ہے۔ سب سے آخر میں سبق میں دئے گئے سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔

سبق کو یاد رکھنے کے لیے توجہ اور دلچسپی سے پڑھنا، یاد ہونے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ سبق پڑھتے وقت اس میں یاد رکھنے کے قابل نکات کے نیچے پنسل سے لائن کھینچ دینا اچھا ہوگا۔ اس طرح سبق کو دوبارہ پڑھتے وقت ان نکات پر زیادہ توجہ دی جاسکے گی۔ پڑھائی میں توجہ یا دھیان کی عادت کا دارومدار پابندی، پڑھائی کی جگہ نیز پڑھنے والے کی فطری و دماغی حالت پر ہے۔

آپ کی پڑھائی اس وقت تک موثر نہیں ہوسکتی جب تک آپ پڑھائی میں دھیان یا توجہ کی عادت نہیں ڈالیں گے۔ پابندی اور نظم و تربیت کے ساتھ مطالعہ، طے شدہ ٹائم ٹیبل، پڑھائی کی جگہ، مقررہ وقت، اچھی صحت، مناسب روشنی اور آرام کچھ ایسی چیزیں ہیں جو پڑھائی لکھائی کی طرف توجہ یا دھیان قائم رکھنے میں مددگار ہیں۔

(۵) پڑھائی کے دوران آرام کا وقفہ

پڑھائی کی طرف دھیان قائم رکھنے کے لیے آرام بھی ضروری ہے۔ بہت سے طلباء پڑھائی لکھائی کی شروعات سنجیدگی کے ساتھ کرنے میں دقّت محسوس کرتے ہیں اور غلط شروعات کی وجہ سے اپنا کافی وقت برباد کرتے ہیں۔ کچھ طلباء اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ پڑھائی آسان کام سے شروع کریں اور پھر مشکل کی طرف جائیں۔ کچھ طلباء اس کے بالکل برعکس کرتے ہیں۔ مطالعہ سے متعلق تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اکثر و بیشتر آسان کاموں سے شروعات کرنا زیادہ مفید ہوتا ہے خصوصاً ان مضامین میں جن میں طلباء کو زیادہ دلچسپی ہے۔

پڑھائی کی شروعات کیسے کریں؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایک بار طالب علم نے یہ مسئلہ حل کرلیا تو اس کی پڑھائی ٹھیک ڈھنگ سے شروع ہوجائے گی۔ پڑھائی میں یہ طے کرنا ضروری ہے کہ کون سا مضمون کب پڑھیں؟ اس کے بعد کیا پڑھیں؟ یہ تمام تفصیلات طالب علم کو مضامین کے مشکل اسباق کو سامنے رکھ کر خود طے کرنے چاہئیں تاکہ وہ ایک کے بعد دوسرا مضمون وقت اور توجہ سے پڑھ سکے۔

(۶) پڑھائی کے اوقات کی تقسیم

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ اگر پڑھائی اوقات کے بٹوارے کے ساتھ کی جائے تو زیادہ مفید اور موثر ہوگی۔ بہ نسبت ایسی پڑھائی کے جو ایک وقت میں لمبے عرصے تک کی گئی ہے۔ اگر پڑھائی تھوڑے تھوڑے وقفے کے لیے کریں اور اس کے بیچ تھوڑا سا آرام کریں تو دماغ زیادہ اچھی طرح کام کرتا ہے۔ آرام ایک طرح کی کام میں تبدیلی ہے۔ اس سے دماغی تھکاوٹ دور ہوتی ہے۔ اور پڑھائی کی طرف دھیان لگانے میں مدد ملتی ہے۔

پڑھائی کے دوران تھوڑی دیر کا آرام دماغی بیٹری کو پھر سے چارج کرنے میں مدددیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وقفہ طالب علم کو پڑھے ہوئے مواد کو مستحکم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یاد رہے کہ پڑھائی کے دوران یہ وقفہ بہت زیادہ لمبا نہ ہو ورنہ اس سے پہلے جو کچھ بھی پڑھا ہے اسے بھول جانے کا اندیشہ ہے۔ ایک گھنٹہ کی پڑھائی کے بعد یا جتنی دیر بھی آپ توجہ و دھیان سے پڑھ سکیں، دس منٹ کا آرام مناسب رہے گا۔ اس وقفہ کے دوران آپ غزلیں اور ترانے بھی سن سکتے ہیں یا آنکھ بند کرکے آرام کرسکتے ہیں اس طرح کی تبدیلی دماغی و جسمانی تھکاوٹ کو دور کرتی ہے۔

لمبے عرصے تک اور مسلسل پڑھائی کرنے سے جسمانی تھکاوٹ آتی ہے اور جو کچھ پڑھا ہے وہ ذہن نشین نہیں ہوپاتا یا یاد نہیں رہ پاتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ فرض کیجیے کوئی شخص ایک وقت روزانہ کی مقدار سے بہت زیادہ کھانا کھالے تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ وہ شخص بدہضمی کا شکار ہوجائے گا۔ بالکل اسی طرح اگر طالب علم امتحانوں سے چند مہینے پہلے ایک دم سے پڑھائی کے اوقات بڑھادے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں امکانات اس بات کے ہیں کہ وہ مقررہ پڑھائی کے بعد دماغی اور جسمانی طور سے تھک جائے گا۔ اس کی توجہ پڑھائی کی طرف سے ہٹ جائے گی اور جو کچھ پڑھا ہے وہ دماغ میں محفوظ نہ رہ سکے گا۔ ایسا کیو ںہوتا ہے؟ جواب ہے کہ جسم اور دماغ اس فالتو محنت کے لیے ابھی تک عادی نہیں ہیں۔ مناسب طریقہ یہ ہوگا کہ پڑھائی کے اوقات کو تھوڑا تھوڑا بتدریج بڑھائیں تاکہ آپ دماغی تھکن اور اکتاہٹ سے بچ سکیں۔

(۷) یاد کیسے کریں؟

موثر مطالعہ کے لیے اپنی قوت یادداشت کا استعمال ضروری ہے کیونکہ پڑھائی میں اکثر طالب علموں کو کچھ مواد یا تفصیلات یاد کرنی پڑتی ہیں۔ یاد کرنے کا یہ کام دو طریقوں سے کیا جاسکتا ہے۔ بامعنی یا بامقصد اور تھوڑے سے مواد کو بار بار لگاتار یاد کرنے سے وہ چیز یاد ہوجائے گی۔ یاد کیے ہوئے مواد کو بار بار دہرانا بھی چاہیے تاکہ وہ کافی عرصے تک یاد رہے اور آپ اسے بھولیں نہیں۔

یاد کرنے کے دوسرے طریقے کے مطابق مواد کو پہلے اکائیوں میں تقسیم کرلینا چاہیے اور پھر ان اکائیوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں۔ پہلے ایک حصہ یادکریں پھر دوسرا اور اسی طرح آگے بڑھیں۔ مشکل اور لمبے مواد کے یاد کرنے کا یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے جبکہ چھوٹے اور ایسے مواد کو جہاں خیالات میں تسلسل ہو،ایک ساتھ یاد کرنے میں فائدہ ہے۔

طلباء کو اپنا مطالعہ صرف درسی کتابوں تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کو عام معلومات میں اضافے کے لیے خالی وقت میں اخبار، رسائل اور ادب سے متعلق اچھے ناول، افسانے، کہانیاں، شعرو شاعری کی کتابیں بھی پڑھنے کا شوق پیدا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ متعین دینی کتابوں کے مطالعہ کو بھی اپنی زندگی کا معمول بنانا چاہیے۔

ہمیں امید ہے کہ طلباء موثر مطالعے کے ان نکات پر عمل کریں گے تاکہ وہ اپنی پڑھائی کو منظم کرسکیں۔ پڑھائی کے سلسلے میں پابندی اور باقاعدگی کی عادت ڈالیں گے۔ اس طرح وہطالب علمی ا ور بعد کی زندگی میں کامیابی حاصل کریں گے اور کتابوں کو اپنا دوست پائیں گے۔

والدین سے

بچوں کی امتحان میں کارکردگی میں والدین کا رول بھی اہم ہوتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لڑکے لڑکیاں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کے والدین ان کی تعلیمی مصروفیات، ضروریات اور ماحول کی حفاظت کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

ہم اپنے بچوں کو پڑھائی اور مطالعہ کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ ٹائم ٹیبل بنانے اور اس پر پابندی سے عمل کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور یہ بات تو ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جب گھر میں بچے پڑھ رہے ہوں تو گھر میں شور و ہنگامہ نہ ہونے دیا جائے۔ گھریلو کاموں کے ذریعہ ان کے مطالعہ میں خلل نہ ڈالا جائے۔ اسی طرح لکھنے پڑھنے کی ضروریات فراہم کرکے بھی بچوں کی حوصلہ افزائی ہوسکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ بچوں سے زیادہ آپ ان کے سلسلہ میں فکر مند ہوں اور ان کے سر پر مسلط ہوئے بغیر بہتر انداز میں انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں