ہر قدم پر ہمیں فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ بہت سے معاملات فوری فیصلوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ ہمیں غوروفکر اور منصوبہ بندی کی مہلت نہیں دیتے۔ عموماً اسی قسم کے فیصلے خاصے اہم ہوتے ہیں اور ان کے نتائج ہماری اور ہمارے گرد و پیش کے لوگوں کی زندگی پر اثر ڈالتے ہیں۔
مانا کہ اس قسم کی ہنگامی صورتِ حال ہر روز پیش نہیں آتی، مگر ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ ہم سب کو روزانہ سیکڑوں فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ان کا دائرہ روز مرہ کی چھوٹی موٹی باتوں (مثلاً ناشتہ ڈبل روٹی سے کیا جائے یا پراٹھے سے کام چلایا جائے؟) سے لے کر اہم معاملات شادی بیاہ، جائیداد کی خریدوفروخت اور گھریلو معاملات تک پھیلا ہوتا ہے۔
اس قسم کے فیصلے ہماری پوری زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم فیصلے کرتے ہوئے محض ذہنی کرتبوں سے کام چلانا چاہتے ہیں۔
اکثر اوقات ہم کسی پوائنٹ کی حمایت یا مخالفت میں پیش کیے جانے والے دلائل کی تعداد سے ہی متاثر ہوجاتے ہیں اور یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ دلائل معقول بھی ہیں یا نہیں۔
شاید یہ ممکن نہیں کہ کسی شخص کے تمام فیصلے درست ہوں۔ ہم سب زندگی میں بہت سے فیصلے صحیح کرتے ہیں اور بہت سے ہمارے فیصلے غلط بھی ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم ماہرین نے ایسے طریقے وضع کررکھے ہیں جن کو استعمال کرکے ہم اپنی فیصلہ سازی کی صلاحیت کو بہتر بناسکتے ہیں۔ یہ ترقی یافتہ صلاحیت ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ہم اچھے فیصلے کرسکیں تو یہ ہمارے حق میں اچھی بات ہی ہوگی۔
اس باب میں ہم چھ طریقوں کا ذکر کریں گے جن کے ذریعہ آپ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو نکھارسکتے ہیں۔
(۱) سوال فریم کیجیے
کسی منظر کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ اس کے کون سے حصے دیکھتے ہیں اور کن حصوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ گویا آپ منظر کو کس طرح’’فریم‘‘ کرتے ہیں۔ اسی طرح کوئی فیصلہ کرتے ہوئے مختلف فریموں کو آزمانا بہت اہم ہوتا ہے۔
اس کی ایک دلچسپ مثال ایڈورڈ رسو اور پال جے ایچ شو میکر نے اپنی مشترکہ کتاب ’’فیصلے کے پھندے‘‘ میں بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ جب کاروباری لوگوں کو بتایا جائے کہ کسی سودے میں فائدے کا امکان ۷۰ فیصد ہے تو وہ سودا کرنے پر مائل ہوجاتے ہیں، لیکن جب یہی بات ان سے یوں کہی جائے کہ اس سودے میں گھاٹے کا خدشہ تیس فیصد ہے تو وہ اس میں ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے ہیں۔
ایک ماہرِ نفسیات رابرٹ جے سٹرن برگ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ ناقابلِ حل محسوس ہونے والے کسی مسئلے کو سلیقے سے ’’ری فریم‘‘ کیا جائے تو اس کو حل کرنا نہ صرف ممکن بلکہ آسان بھی ہوجاتا ہے۔ اپنی ایک کتاب میں سٹرن برگ صاحب نے اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک سیلز مین کی مثال دی ہے۔
سیلزمین کی بیوی کو ہمیشہ شکایت رہتی تھی کہ وہ بہت زیادہ سفر کرتا ہے۔ لیکن بیوی کے گلے شکوؤں کے باوجود وہ ملازمت چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ ملازمت اس کو اچھی لگتی تھی اور وہ سفر سے بھی لطف اٹھاتا تھا۔ سڑن برگ کہتے ہیں کہ اپنا مسئلہ حل کرنے کے لیے سیلزمین اور اس کی بیوی کو سوال یہ نہیں اٹھانا چاہیے کہ ’’آیا وہ بہت زیادہ سفر کرتا ہے؟ اس کے بجائے ان کو یہ سوال سامنے رکھنا چاہیے کہ آیا اپنے بعض دوروں میں بیوی کو بھی ساتھ لے جانا چاہیے۔‘‘
(۲) پوری تیاری
اس قسم کے فیصلے بہت آسان ہوتے ہیں کہ آپ ناشتے میں فرائی انڈہ چاہیں گے یا آملیٹ۔ مگر نیا مکان منتخب کرنا ہو تو پھر آپ کو کئی معاملات کی چھان بین کرنی پڑتی ہے، مثلاً آپ کو جاننا ہوگا کہ مکان شہر کے کس حصے میں ہے، وہاں کے حالات کیسے ہیں، کس قسم کے لوگ وہاں رہتے ہیں، ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی اور گیس وغیرہ کی صورتِ حال وہاں کیسی ہے، کیا اسکول اور پارک وغیرہ ہیں، مارکیٹ کتنی دور ہے اور کیا اس علاقے میں جائیداد کی قیمتیں کم تو نہ ہوجائیں گی؟
معلومات اکٹھی کی جائیں اور تحقیق کی جائے تو بڑے فیصلے کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ چنانچہ ایک ماہر کا کہنا ہے کہ فیصلہ سازی میں سرزد ہونے والی اہم غلطیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم پوری صورتِ حال سامنے نہیں رکھتے۔
بڑے فیصلے کرنے سے پہلے مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر غوروفکر کرنے اور متعلقہ معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس قسم کے فیصلوں سے پہلے ضروری اطلاعات اور اعداد و شمار حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کیجیے۔ ہم عموماً آسانی سے دستیاب معلومات کی بنیاد پر فیصلے کرنے لگتے ہیں یا پھر حقائق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
پٹس برگ یونیورسٹی کے پروفیسر زالٹ مین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے پسندیدہ تصور کو بچانے کی خاطر اس تصور کی نفی کرنے والی معلومات سے گریز کرنے لگتے ہیں۔ یوں ہم درست فیصلہ نہیں کرپاتے اور اپنی پسند و ناپسند میں اٹک جاتے ہیں۔
(۳) مختلف امکانات کا جائزہ
عموما۔ کسی مسئلے کے بہت سے حل ممکن ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض پوشیدہ ہوتے ہیں اور کوشش کے بغیر ان کو جاننا دشوار ہوتا ہے۔ لہٰذا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے تخیل کو آزاد چھوڑ دیجیے۔ مثلاً مہینے کے مختلف بل ادا کرنے کے بعد آپ یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کررہے ہوں کہ آیا بیوی بچوں کے ساتھ تفریح کے لیے جانا چاہیے یا نہیں، تو اس کا واضح جواب ’ہاں‘ یا ’نہ‘ میں ہوگا۔ لیکن بعض اور امکانات بھی ہوسکتے ہیں۔ مثلاً آپ مہنگی تفریح کے بجائے سستی تفریح کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ یا تفریح کا دورانیہ کم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ان امکانات پر بھی نگاہ ڈالنی چاہیے۔
(۴) باطن کی آواز
ملازمت کے لیے انٹرویو دینے جائیں تو مستقبل کا باس بہت خوش خلق اور ہنس مکھ نظر آتا ہے۔ پھر بھی کبھی اندر سے آواز آتی ہے کہ اس شخص کے ماتحت کام کرنا غلطی ہوگی۔
اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا آپ کو یہ اچھا نہیں لگا کہ انٹرویو کے وقت اس نے آپ کی درخواست میز کے وسط میں رکھی ہوئی تھی یا آپ نے اس شخص کے دوسرے ملازموں سے معلومات حاصل کی ہیں؟ خیر، بہت سے لوگ کہیں گے کہ اس معاملے میںان کا وجدان رہنمائی کررہا تھا اور اسی نے ملازمت کی آفر قبول نہ کرنے کا اشارہ دیا۔
ٹیکساس یو نیورسٹی کے پروفیسر ویسٹن ایچ اگور کا کہنا یہ ہے کہ وجدان سے مراد کسی شے کو اچھی طرح جانے بوجھے بغیر اس کے بارے میں یقینی علم کا دعویٰ کرنا۔ لہٰذا اگور صاحب کی تنبیہ یہ ہے کہ فیصلے محض وجدان کی بنیاد پر مت کیجیے۔ اس صورت میں ہوتا یہ ہے کہ آپ حقائق کی ترتیب اپنی ضرورت کے مطابق کرنے لگتے ہیں اور حقیقت سے دور ہوجاتے ہیں۔
ساڑھے تین ہزار منتظمین کی رائے حاصل کرنے کے بعد اگور نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان میں سے کامیاب ترین افراد وہ ہیں جو اپنے وجدان پر اعتماد تو کرتے ہیں، مگر معلومات حاصل کرکے اس کو پرکھتے بھی ہیں۔ ایک ایگزیکٹیو نے یہ قصہ سنایا کہ ایک بار اس نے ملازمت کے ایک امیدوار کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو بہت اچھا تھا اور امیدوار کا تعلیمی ریکارڈ بھی شاندار تھا، مگر وہ دل سے اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہورہا تھا۔ اس کا وجدان امیدوار کو مسترد کررہا تھا۔ چنانچہ اس نے امیدوار کے بارے میں مزید معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ اس نے پولیس ریکارڈ کی بہت سی باتیں چھپالی تھیں۔
(۵) چھوٹے قدم اٹھائیے
جہاں کہیں ممکن ہو، فیصلوں پر عمل مرحلہ وار ہونا چاہیے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کسی مرحلے پر آپ کے فیصلے سے منفی نتائج سامنے آئیں، یا فیصلے کی نفی کرنے والے نئے حقائق معلوم ہوجائیں تو پھر آپ کم سے کم نقصان کے ساتھ، اپنا فیصلہ بدل سکیں گے۔
میرے دوست خالد ایسا ہی کرتے ہیں۔ گزشتہ برس انھوں نے شہر میں مکان خریدنے کی خاطر گاؤں میں اپنی کچھ اراضی فروخت کی تھی۔ شہر میں انھوں نے مکان تلاش کرلیا، لیکن معاملہ طے ہونے سے پہلے ارادہ بدل کر کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا کہ ان کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے دو تین ماہ درکار تھے کہ آیا گاؤں سے شہر کو منتقل ہونا اچھا فیصلہ تھا یا نہیں۔
اپنے رویوں میں ہمیشہ لچک رکھیے۔ یاد رکھیے کہ فیصلوں میں ردوبدل کرنے کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں کہ آپ مستقل مز اجی او رمضبوط قوتِ فیصلہ سے محروم ہیں۔ اگر آپ سوچ سمجھ کر فیصلوں میں ردوبدل کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے رویے میں لچک ہے اور آپ تغیر پذیر حقائق کو قبول کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
(۶) ڈیڈ لائن کا تعین
فیصلے کرتے ہوئے وقت کی حد ضرور مقرر کرنی چاہیے۔ یعنی پہلے سے یہ طے کرلینا چاہیے کہ جو کام آپ شروع کرنے والے ہیں اس کی تکمیل کے لیے کس قدروقت درکار ہوگا۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کوئی کام وقت پر نہ ہوسکے گا۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ وقت ہماری سب سے قیمتی متاع ہے۔ ہم اس کو ضائع نہیں کرسکتے۔
کئی مرتبہ ہمیں عارضی یا عبوری نوعیت کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ گویا زیادہ معلومات حاصل ہونے تک ہم حتمی فیصلے کو ملتوی رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک عبوری فیصلے حقیقی نہیں ہوتے۔ لیکن لاس اینجلز کے ایک مشہور ماہرِ نفسیات ہیرٹ بی بریکر ایسے فیصلوں کی اہمیت کے بہت قائل ہیں اور ان کو مفید اور ضروری قرار دیتے ہیں۔
اکثر اوقات کسی نقصان کا خدشہ ہمیںفیصلہ کرنے سے روک دیتا ہے۔ تاہم بڑے بڑے تجارتی اداروں کے اعلیٰ حکام کو فیصلے کرنے کی ترتیب دینے والے بریکر کا کہنا ہے کہ فیصلے کو معطل رکھا جائے اور کسی نتیجے تک نہ پہنچا جائے تو اس سے گہری تشویش اور پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ یہ تشویش اور پریشانی غلط فیصلے کرنے سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ہم خطرات سے گھبرا کر فیصلے نہ کرنے کی عادت چھوڑ دیں۔
——