اگر ہم چاہتے ہیں۔۔۔

سعدیہ یاسمین

ایک پُرامن اور اطمینان کی زندگی کا زریں اصول بتاتے ہوئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا تھا:
اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الاَرْضِ یَرْحَمُکُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ۔
’’ تم لوگ زمین پر بسنے والوں پر رحم کرو تو وہ قوت جو آسمان میں ہے تم پر رحم فرمائے گی۔‘‘
یہ بات انسانی زندگی کا کلیدی اصول ہے اور اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے انسان اپنے دل میں مخلوق سے محبت اور اس کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کرنے کی خود کو ٹریننگ دے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اور اس کی محبت بھی انہیں لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے جو مخلوق کے ساتھ رحم کا معاملہ کرتے ہیں۔ ہمارے رسول ﷺ نے تو انسان سے آگے بڑھ کر جانوروں تک پر رحم کرنے کی تلقین فرمائی اور کسی کو ایذاء و تکلیف پہنچانے سے سختی سے روکا۔ اسی طرح ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اللہ کی مخلوق پر رحم نہ کرے گا اور ان کے دکھ اور تکلیف کو اپنا دکھ درد نہ سمجھے گا تو کل قیامت میں اللہ تعالیٰ بھی اس پر اپنی نظر کرم نہ ڈالے گا اور اس سے رحم کا معاملہ بھی نہ کرے گا۔
مسلمان،مسلمان ہی کے لیے نہیں بلکہ سب انسانوں کے لیے رحم کا پیکر ہو۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات پر رحم کرے تاکہ کل قیامت میں اللہ کی رحمت کا مستحق ہوسکے کیونکہ اللہ کی رحمت بھی مخلوق کے ساتھ رحمت کامعاملہ کرنے سے مشروط ہے۔
ذیل میں چند چیزیں پیش کی جارہی ہیں جو سماجی و معاشرتی اعتبار سے رحمت و شفقت اور محبت کے جذبات کو فروغ دے سکتی ہیں، مگر ان کا تعلق ہمارے عملی رویہ سے ہے۔ سماج کا ہر فرد چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ اچھائی، رحمت اور نرمی کامعاملہ کیا جائے مگر وہ خود اس سلسلہ میں کتنا حساس ہے، یہ ایک سوال ہے جس پر خود ہمیں غور کرنا چاہیے۔
٭ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے دکھ درد میں ہمارا ساتھ دیں،بیماری میں ہماری عیادت کے لیے آئیں، ضرورت مندی میں ہماری ضرورت کو پورا کریں تو ہمیں بھی چاہیے کہ کوئی بیمار ہے تو اس کی عیادت کریں اور جس طرح سے بھی ممکن ہوسکے اس کے کام آئیں۔ اسی طرح ضرورت مندوں کی مالی مدد، بہ صورت دیگر نرمی، محبت و ہمدردی کا معاملہ کریں اور مالی مدد ہو یا جسمانی دونوں طرح سے اس کے کام آئیں۔حتی الامکان ضرورت مند کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں اس لیے کہ اللہ بندوں کی مدد اسی وقت تک کرتا ہے جب تک وہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔
٭ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہمیں دکھ نہ پہنچائے، کسی کی زبان یا کسی کے ہاتھ سے ہمیں تکلیف نہ پہنچے تو ہمارے اوپر بھی یہ بات لازم ہے کہ ہم بھی پوری طرح اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارے ہاتھ سے یا زبان سے کسی کو کچھ تکلیف نہ پہنچے۔
٭ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ہم سے بے رخی اور بدمزاجی کے ساتھ بات نہ کرے کیونکہ اس سے ہمارے دل کو تکلیف ہوتی ہے تو ٹھیک اسی طرح ہمیں بھی اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ دوسروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے ہمارے کسی انداز سے بے رخی یا بدمزاجی کااظہار نہ ہو اور ہماری طرف سے اس کا دل نہ دکھے۔ اس لیے کہ ایک مومن کی صفت یہ ہے کہ : ’’مومن وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے مومن محفوظ ہوتا ہے۔‘‘
٭ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پڑوسی اور ملنے جلنے والے لوگ ہمارے بچوں کے ساتھ محبت سے بات کریں، ان کی اصلاح پر نظر رکھیںاور غلط راستوں پر چلنے سے روکیں تو یہی کام ہمیں بھی دوسروں کے بچوں کے ساتھ کرنا ہوگا۔ اگر وہ غلط راہوں پر چل پڑیں تو پیار و ہمدردی سے ان کو سمجھائیں اور پوری دلسوزی کے ساتھ انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کریں۔
اگر ہر مسلمان ان باتوں کو عملی زندگی میں برتنا شروع کردے تو ایک صاف ستھرا اور محبت و خیرخواہی کی مضبوط بنیادوں پر استوار اسلامی معاشرہ تیار ہوسکتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146