ماں!
خدا کی رحمتیں تم پر مسلسل ہوں!
مری ماں! تم کو گزرے کم سے کم پچپن برس بیتے
زمانہ کتنا بدلا، کیسا بدلا ہے!
میں بھی دنیا کے اس بدلاؤ میں، لمبے سفر میں
کسے بتلاؤں کن راہوں سے گزرا ہوں!
مگر ہر موڑ پر، ہر دم
تمہارا ایک مبہم سا سراپا
مجھ کو اپنے قرب کا احساس کرواتا رہا ہے
مگر محرومی میری!
ماں!
تمہارا دامن شفقت نہ تھاما جاسکا مجھ سے
کہ میرے اور تمہارے درمیاں اک فاصلہ جو ہے
میں جس کا غم لیے
پچپن برس کے بعد بھی جب تنہا ہوتا ہوں
بہت ہی مضطرب، افسردہ و رنجیدہ ہوتا ہوں
مگر میں کیفیت دل کی
کسی بھی اور پر ظاہر نہیں کرتا، بہت پوشیدہ رکھتا ہوں
میں ڈرتا ہوں
تمہاری بیش قیمت یاد کی دولت
کروں ظاہر کسی پرتو
کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے چھن جائے!