اعملوا اٰل داؤد شکرا، وقلیل من عبادی الشکورo (السباء: ۳۴:۱۳)
’’اے آلِ داؤد! عمل کرو شکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں۔‘‘
شکر کی مختصر توضیح کے لیے اس آیت کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ قرآن میں لفظ ’شکر‘ اسی آیت میں استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کے مشتقات اور صیغے تو بیسیوں آیتوں میں آئے ہیں لیکن لفظ شکر اسی آیت میں ہے۔ دوسرا لفظ ’شکور‘ (پیش کے ساتھ) سورہ الفرقان اور سورہ الدہر میں آیاہے:
’’وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا جانشین بنایا، ہر اس شخص کے لیے جو سبق لینا چاہے، یا شکرگزار ہونا چاہے۔‘‘ (الفرقان: ۲۵:۶۲)
’’ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔‘‘ (الدہر۷۶:۹)
شکر کے معنیٰ:
ایک معنی یہ ہیں : تصور النعمۃ واظہارہا، نعمت کا تصور اور اس کا اظہار۔ اس جانور کو جو فربہ ہو دابۃ شکور کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی فربہی سے اپنے مالک کی مہربانی اور اس کے احسان کا اظہار کرتا ہے، یعنی یہ کہ وہ اس کو اچھا کھلاتا پلاتا اور اس کی اچھی دیکھ ریکھ کرتا ہے۔
دوسرا معنیٰ ہے الامتلاء من ذکر المنعم علیہ، محسن کے ذکر سے زبان کا تر ہونا اور دل کا مملو ہونا۔ عین شکری وہ آنکھ جو آنسوؤں سے بھری ہوئی ہو۔ (مفردات راغب)
ان دونوں معنوں کے لحاظ سے اللہ کے شکر کا یہ مفہوم مستنبط ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ کی نعمت کا احساس ہو اور وہ اس کا اظہار بھی کرے۔
واما بنعمۃ ربک فحدث
(الضحیٰ: ۹۳:۱۱)
’’اور اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو۔‘‘
نیز یہ کہ انسان کی زبان اللہ کے ذکر سے تر اور اس کا دل اس کی نعمت کا معترف رہے۔
اللّٰہ کا شکر
تمام نعمتوں کا حقیقی منعم و محسن اللہ تعالیٰ ہے، اس لیے اس کا شکر ہر انسان پر واجب ہے۔ اللہ کا سب سے بڑا شکر اس پر ایمان لانا ہے اور یہ وہ شکر ہے کہ اس کے بغیر کوئی شخص اللہ کے غضب اور اس کی دوزخ سے نجات نہیں پاسکتا۔ شکر کی ضد، کفرانِ نعمت ہے اور سب سے بڑی ناشکری اس پر ایمان نہ لانا ہے۔ یہ ناشکری وہ حقیقی کفر ہے، جو انسان کو ابدی لعنت میں گرفتار کردیتا ہے:
’’جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی اور نہ انھیں پھر کوئی مہلت دی جائے گی۔
(البقرۃ۱۶۱-۱۶۲)
شکر حکمت کااولین ثمرہ ہے۔ اللہ نے حضرت لقمان کو حکمت عطا کی اور ساتھ ہی اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا:
’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو۔ جو کوئی شکر کرے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔ اور جو کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز ہے اور آپ سے آپ محمود ہے۔‘‘ (لقمان:۳۱:۱۲)
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو محیر العقول نعمتیں عطافرمائی تھیں، ان میں ایک یہ تھی کہ وہ حشرات الارض کی زبان سمجھتے تھے۔ چیونٹیوں کے سردار کی گفتگو سن کر انھوں نے یہ دعا مانگی:
’’اے میرے رب! مجھے قابو میں رکھ کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کرتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور ایسا عمل صالح کروں جو تجھے پسند آئے اور اپنی رحمت سے مجھ کو اپنے صالح بندوں میں داخل کر۔‘‘ (النمل: ۱۹)
اللہ کی بے شمار نعمتیں: قرآنِ کریم نے یہ حقیقت بھی انسانوں کے سامنے رکھ دی ہے کہ اللہ کی نعمتیں اور اس کے احسانات ناقابلِ شمار ہیں:
’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کرنہیں کرسکتے۔‘‘ (ابراہیم :۳۴) ’’اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو گن نہیںسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘ (النحل: ۱۸)
ہر نیکی شکر ہے
پہلے گزر چکا کہ شکر کی تین قسمیں ہیں اور نیکی کا ہر کام اللہ کی نعمت ہے خواہ اس کا تعلق قلب سے ہو یا زبان سے یا دوسرے اعضا و جوارح سے۔ اس نعمت کا شکریہ اس کام کو انجام دینا ہی ہے۔ اس لیے تمام عبادتیں، شکر ہیں اور ہر نیکی جو مسلمان خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے، شکر ہے۔ عبدالرحمن سلمیٰ نے کہا :
’’نماز شکر ہے، روزے شکر ہیں اور ہر نیک کام جو تم اللہ کے لیے کرتے ہو، شکر ہے اور افضل شکر اللہ کی حمد ہے۔‘‘ (مختصر تفسیر ابن کثیر، بحوالہ ابنِ جریر)
بندوں کا شکر
اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جو بندوں کو دوسرے بندوں کے واسطے اور ذریعے سے ملتی ہیں۔ اس لیے ان واسطوں اور ذریعوں کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔رسول اللہ ﷺ کے بعد بندوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔ کیونکہ ہر انسان کو اس کے وجود اور ہستی کی نعمت،والدین ہی کے واسطے سے ملتی ہے۔ والدین ہی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ قرآنِ کریم میں صراحت کے ساتھ ان ہی دونوں کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
’’اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسانوں کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجالا، میری ہی طرف تجھے پلٹناہے۔‘‘(لقمان:۱۴)
بندوں کا شکر ادا کرنے کی اہمیت
ایک انسان جب دوسرے انسان پر کوئی احسان کرتا ہے تو شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ محسن کا شکریہ ادا کیا جائے۔ دین میں اس کی اہمیت یہ ہے کہ جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا، اللہ اس سے اپنے شکریے کو بھی قبول نہیں کرتا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگوں کا شکر گزار نہیں، وہ اللہ کا شکر گزار بھی نہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں: جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا، اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا۔
شکریہ ادا کرنے کے طریقے
کسی کے احسان کے شکریے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی کے یہاں ہدیتاً کوئی چیز بھیجے تو جواب میں ہدیتاً اس کے یہاں کوئی چیز بھیجنی چاہیے۔ نبی ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور ہدیہ دینے والے کو اس کا صلہ بھی دیا کرتے تھے۔ اگر آدمی احسان کا بدلہ اسی طرح کے احسان سے نہ دے سکے تو زبان سے اپنے محسن کی تعریف کرے اور لوگوں میں اس کے احسان کا تذکرہ کرے۔ اس کے علاوہ نبی ﷺ نے شکریے کی ایک مختصر دعا بھی سکھائی ہے۔
حضرت اسامہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس کے ساتھ کوئی نیکی کی جائے اور وہ نیکی کرنے والے سے کہے: ’’جزاک اللّٰہ خیراً‘‘ اللہ تمہیں اس کا اچھا بدلہ دے، اس نے مبالغہ کے ساتھ اپنے محسن کی ثنا کی ۔ (جمع الفوائد بحوالہ ترمذی)
شکر کا دنیوی صلہ: اللہ تعالیٰ آخرت میں اپنے شکر گزار بندوں کو جو اجر عطا فرمائے گا اور جن انعامات سے نوازے گا، وہ تو اپنی جگہ ہیں، دنیا میں اس کا صلہ یہ ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا حقیقی شکریہ ادا کرنے سے اس کی نعمتوں اور افضال و عنایات میںاضافہ ہوتا ہے۔ نعمتوں کا حقیقی شکر یہ ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی مرضیات میں صرف کیا جائے، اس کی معصیتوں اور نافرمانیوں میں صرف نہ کیا جائے۔ سورئہ ابراہیم میں ہے:
’’اوریادرکھو، تمہارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکر گزار بنوگے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوںگا اور کفرانِ نعمت کروگے تو میری سزا بہت سخت ہے۔ اور موسیٰ نے کہا کہ اگر تم کفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہوجائیں تو اللہ بے نیاز ہے اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔‘‘ (۱۴: ۷-۸)
شکر گزاری پر انعامات میں اضافے کا یہ وعدہ قیامت تک تمام شکر گزاروں کے لیے ہے، اور ناشکری پر سخت عذاب کی یہ دھمکی بھی قیامت تک تمام ناشکرگزاروں کے لیے ہے۔
اللہ کی سب سے بڑی نعمت اس کی دی ہوئی شریعت ہے۔ اس کا شکریہ ہے کہ اس پر عمل کیا جائے، اس کی حفاظت کی جائے، اور اس کے نفاذ کی جان توڑ کوشش کی جائے۔ اس وقت دنیا میں پھیلا ہوا گھنگھور اندھیرا اس کے بغیر چھٹ نہیں سکتا:
گھنگھور اندھیرا چھایا ہے
یہ دھندلی شمعیں تیز کرو
منزل ہے کٹھن اور دور بھی ہے
گھوڑوں کو ذرا مہمیز کرو
(تلخیص: ادارہ)
——