پچھلے کئی ہفتوں سے اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے۔ وہاں نہ تو بجلی پانی کی سپلائی ہے نہ اشیائے خوردنی، نہ دوا و علاج ہے اور نہ گاڑیوں کے لیے ایندھن۔ روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی چیزوں کی ناقابل برداشت قلت کے نتیجے میں بچوں کے لیے دودھ، مریضوں کے لیے دوائیں اور کھانے پینے کی عام اشیاء جب بالکل ختم ہوگئیں تو غزہ کے رہنے والوں نے مصر سے متصل سرحد کو توڑدیا ا ور زندگی کی ضروری اشیاء خریدنے کے لیے وہ مصر میں داخل ہوگئے۔ اسرائیلی حکومت جس نے مکمل ناکہ بندی کرکے غزہ کے ۱۵ لاکھ انسانوں کو مارنے کے لیے مکمل انتظامات کرلیے تھے اپنی زندگی کی بقاء کے لیے ایک مہم سر کرلے گئے۔ اس کے لیے مصر کے صدر حسنی مبارک کا طرزِ عمل بھی یقینا قابل قدر ہے جنھوں نے فلسطینی عوام کی مصیبت کو سمجھتے ہوئے انہیں اپنی سرحدوں میں داخل ہونے اور ضروری اشیا خرید کر واپس چلے جانے کی اجازت دے دی اور اس کے بعد سرحد بند کردینے کا اعلان کردیا۔
اس وقت غزہ کی کیفیت یہ ہے کہ پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ واٹر ٹریٹمنٹ کا نظام معطل ہے اور سیوج کے مسئلے کے سبب عجیب وغریب کیفیت شہری علاقوں میں نظر آرہی ہے۔ بچے موم بتیوں اور کیروسین لیمپوں کی روشنی میں پڑھ رہے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی غذائی اشیاء اور دوائیں تقریباً نایاب ہیں۔ گویا پورہ غزہ اجتماعی طور پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ صورت حال عدل و انصاف اور بنیادی انسانی قدروں کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔ عدل و انصاف اور انسانی قدروں کو نہ تو امریکہ مانتا ہے اور نہ اسرائیل حالانکہ انسانی حقوق کے دونوں دعوے دار ہیں مگر یہاں وہ عالمی سطح پر معروف اس حقوق انسانی کے چارٹر کی بھی دھجیاں اڑا رہے ہیں جو جنگ کی حالت میں بھی کسی ملک کے شہریوں کو حاصل رہتے ہیں۔
اس صورت حال پر پوری دنیا میں زبرست تشویش اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ عالم اسلام ہی نہیں بہت سی غیر مسلم مملکتیں بھی اسرائیل کے اس رویہ پر نالاں ہیں اور اسرائیل کی مذمت کررہی ہیں مگر اسرائیلی حکام کسی چیز کو خاطر میں لائے بغیر غزہ کے عوام کو اس بات کی سخت ترین سزا دے رہے ہیں کہ انھوں نے حماس کا ساتھ کیوں دیا اور اسے گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں کیوں جتایا۔ اسرائیل نے اس وقت اہل غزہ کو جس طرح سے گھیر رکھا ہے اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اہل غزہ کو ’’موت یا خودسپردگی‘‘ کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر برائے انفرااسٹرکچر بنیامین بین ایلیجر کا بیان اسرائیلی عزائم کی غمازی کرتا ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اس صورت حال پر کہا: ’’حماس ہمیں اس بات کے لیے مجبور کررہی ہے کہ ہم غزہ پٹی پر قبضہ کرلیں۔‘‘ دوسری طرف امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نمائندے نے اپنا بیان دے کر واضح کردیا کہ امریکہ پہلے کی طرح اس وقت بھی اسرائیل کی ہی پشت پناہی کررہا ہے اور اب تو کھلے عام اسے اس مرحلہ میں بھی امریکی حمایت حاصل ہے۔ امریکی نمائندے ٹام کینری نے کہا:
’’ہم اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کو سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ کوئی ایسا عمل نہیں کیا جائے گا جس سے غزہ کی عام آبادی کے لیے مشکل پیدا ہو اور ہیومنٹیرین سچویشن اور زیادہ خراب ہوجائے۔‘‘
عالم اسلام کے کونے کونے میں اس اسرائیلی جارحیت کے خلاف، جس کو اسرائیلی ہائی کورٹ کی بھی پشت پناہی حاصل ہے، شدید احتجاج دیکھنے میں آرہا ہے۔ غزہ کے لوگوں کی اس فاقہ کشی اور زبوں حالی کی صورت حال پر گفتگو اور اس کا حل نکالنے کے لیے ایران کے مطالبہ پر تنظیم اسلامی کانفرنس (OIC) کا ہنگامی اجلاس ہوا جو مذمتی قرار داد پاس کرنے سے زیادہ کچھ نہ کرسکا۔ البتہ کانفرنس کے سکریٹری جنرل نے غزہ کے پڑوسی ممالک سے اپیل کی کہ وہ غزہ کے رہنے والوں کی اس سخت مشکل کی گھڑی میں مدد کریں۔ انھوں نے مسلم ممالک سے بھی غزہ کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ مل کر اہل غزہ کی مدد کی اپیل کی۔
ادھر سعودی عرب میں امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس نے اپنے خطبہ میں عالم عرب کے سکوت کو توڑتے ہوئے عالم اسلام کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں ہمارے بھائیوں کو ہلاکت خیز صورت حال کا سامنا ہے لہٰذا تمام مسلمان متحد ہوکر ان کی مدد کریں۔ انھوں نے انسانی حقوق کی دہائی دینے والوں پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ’’ اس وقت اللہ تعالیٰ کے بعد اگر کوئی ان مظلوم بھائیوں کی مدد کرسکتا ہے تو وہ آپ ہیں۔‘‘
امام کعبہ کی یہ تقریر یقینا بہت سے دلوں کو گرمائے گی اور فلسطینی مظلومین کے لیے کچھ کرنے کاجذبہ ان کے اندر پیدا کرے گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عالم اسلام کی حکومتیں اور امت مسلمہ کے افراد اگر فلسطینی مظلومین کے لیے کچھ کرسکتے تو فلسطینی گذشتہ نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے مظلوم نہ چلے آرہے ہوتے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی کئی درجن اسلامی مملکتیں اور ایک ارب سے زیادہ مسلمان خود بے چارے مجبور، مظلوم او رلاچار ہیں۔پھر ایک مجبور انسان خواہ وہ مملکت کا سربراہ ہو یا عام آدمی کسی کے لیے کیا کرسکتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ او آئی سی مذمتی قرار داد اور مسلمانوں سے مدد کی اپیل کے علاوہ کچھ نہ کرسکی۔ دیگر مسلم مملکتیں مذمت کی قرارداد کو دیکھ دیکھ کر ہی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ایسا اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان کے دل میں فلسطینیوں کے لیے جذبہ ہمدردی نہیں ہے اور وہ انہیں اس ظلم و ستم سے نجات دلانا نہیں چاہتے بلکہ یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ مجبور ہیں واقعی کچھ نہیں کرسکتے۔ ان کی طاقت اور ان کا جذبہ عمل ان سے رخصت ہوگیا ہے اور اب وہ خواہش کے باوجود کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب قومیں، ملتیں اور افراد شکست خوردہ اور مغلوب ہوجاتے ہیں۔ شکست خوردگی اور مغلوبیت کہاں جذبۂ عمل اور قوت فکروعمل کو باقی رہنے دیتے ہیں۔ اب آپ لاکھ مغلوب اور شکست خوردہ و پست لوگوں کے ذہنوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کریں ان میں خون زندگی دوڑنے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ایک فلسطین ہی مظلوم و مجبور نہیں کئی فلسطین ظلم و جبر کی داستان لکھنے میں لگے ہیں۔
عراق، افغانستان اور کیا کیا اور کون کون سے مقامات ہیں جہاں مسلمانوں کی داستان مجبوری و لاچاری رقم ہورہی ہے۔ اور ہم ملت اسلامیہ کے افراد حقوق انسانی، عدل و انصاف، اقوام متحدہ کے چارٹرس اور نہ جانے کون کون سے امن و قانون کی دہائی دیتے ہیں۔ اور یہ دہائی بھی ان لوگوں سے جو خود ظالم اور ستم گر ہیں اور جنھوں نے خود ہی ہمارے گلوں پر چھریاں رکھ دی ہیں۔ یہ ہماری سادگی ہے یا بے وقوفی، ہماری بزدلی ہے یا بے ایمانی کہ اہم حقیقت کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کرتے اور حقیقت اگر نظر بھی آجاتی ہے تو اس سے آنکھیں ملانے کی جرأت نہیں کرپاتے۔
اس وقت امت مسلمہ کی سب سے بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ جس پوزیشن میں ہے اور اسی لائق ہے کہ مظلوم و مجبور رہے۔ وہ غثاء وکغثاء السیل ہوگئی ہے بھلا ایسے میں وہ مظلومیت سے کیسے نکلے اور کون اسے اس دلدل سے نکالے۔
امت مسلمہ دنیا کے جس کونے میں بھی ہے اس کو مظلومیت سے نکالنے کا ایک ہی فارمولہ ہے اور وہ فارمولہ خود اس کے پاس ہے۔ اگر وہ اسے استعمال کرے تو مغلوبیت و مظلومیت سے نکل کر غلبہ و عزت کی زندگی حاصل کرسکتی ہے۔ اس کی زندگی کا ایک ہی راز ہے اور وہ ہے‘
یایہا الذین آمنوا استجیبوا للّٰہ والرسول اذا دعاکم لما یحییکم
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیںایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی عطا کرنے والی ہے۔‘‘
زندگی اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہنے میں ہے اور موت، مظلومیت اور بے چارگی و پستی اس سے دوری میں ہے۔ اور اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے بہت واضح طور پر بیان کردیا ہے:
ان اللًّٰہ یرفع بہذا الکتاب اقواما ویضع بہ آخرین۔
’’اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو غلبہ و رفعت عطا کرتا ہے اور دوسروں کو ذلت و رسوائی سے دوچار کرتا ہے۔‘‘
بھلا امت مسلمہ اس کتاب سے دور رہے، زندگی کے حقیقی پیغام سے اپنا رشتہ توڑے رہے اور مظلومیت و بے چارگی سے بھی دوچار نہ ہو ایسا کس طرح ممکن ہے؟
ہمارے خیال میں امت مسلمہ کے مظلومیت سے دوچار ہونے کا سبب خواہ وہ فلسطین ہو یا افغانستان اور عراق صرف ایک ہے وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کے پیغام سے دوری۔ اگر امت اس پیغام زندگی کو پھر سے قبول کرتی ہے توصورت حال بدل سکتی ہے، ورنہ اندیشہ ہے کہ ابھی کتنے افغانستان، عراق اور فلسطین اور بنیں گے۔
ظالموں سے انصاف کی توقع رکھنا، حملہ آوروں اور غاصبوں سے انسانی حقوق کے تحفظ کی امید رکھنا صحرا میں سراب اور بچکانہ تصور سے آگے کی چیز نہیں ہے۔ اس لیے کہ:
ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوہا وجعلوا اعزۃ اہلہا اذلۃ
’’حکمرانوں کا تو دستور رہا ہے کہ وہ جب کسی آبادی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں اور اس کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا بنادیتے ہیں۔‘‘
بس اس ذلت و رسوائی کا علاج مذمتی قرار دادیں پاس کرنے اور طاقت ور مملکتوں اور عالمی اداروں سے حق و انصاف کی طرف داری کی اپیل کرنے میں نہیں بلکہ خود طاقت و قوت حاصل کرنے میں ہے۔ یہ طاقت ایمان کی طاقت بھی ہے اور مادی طاقت بھی ۔ اللہ تعالیٰ نے صاف کہہ دیا:
واعدوا لہم مااستطعتم من قـوۃ و من رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللّٰہ و عدوکم۔
جب ایسا ہوگا تو کوئی ظالم ہماری طرف اور کوئی غاصب ہماری حدوں اور ہمارے وسائل کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گا ورنہ تو بات صاف ہے کہ ’’تم پر قومیں اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے، دستر خوان پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔‘‘ اور اس وقت یہی ہورہا ہے۔