کسی چیز کی ایجاد یا دریافت میں علم، ارادے اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ درختوں سے پھل ٹپکا ہی کرتے ہیں، ہم روز پھلوں کو زمین پر گرتا دیکھتے ہیں۔ کبھی اس طرف دھیان بھی نہیں جاتا مگر بعض عجیب و غریب باتیں اس طرح اچانک دریافت ہوجاتی ہیں جن کا پہلے سے گمان بھی نہیں ہوتا، لیکن ان کو سمجھنا اور ان سے کام لینا اور ان کے ذریعہ سے لوگوں کو فائدہ پہنچانا علم، عقل اور تجربے کے بغیر ممکن نہیں۔
انگلستان کا ایک سائنس داں سر آئزک نیوٹن اپنے باغیچے میں بیٹھا تھا کہ درخت سے ایک سیب ٹوٹ کر زمین پر آگرا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر یہ سیب درخت سے ٹوٹ کر زمین پر کیوں گرا، آسمان یا ادھر یا ادھر کیوں نہ چلا گیا؟‘‘
ضرور زمین میں کوئی ایسی طاقت ہے جو ہر چیز کو اپنی طر ف کھینچ لیتی ہے۔ سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ زمین میں تمام چیزوں کو اپنی طرف کھینچنے کی طاقت ہے جسے سائنس میں کشش ثقل کہتے ہیں۔ زمین کے علاوہ چاند، سورج اور ستارے سب اسی آپس کی کشش کی وجہ سے اپنا اپنا کام کررہے ہیں۔ جس دن یہ کھنچنے کی طاقت ختم ہوگئی، اس دن یہ ساری دنیا تباہ و برباد ہوجائے گی۔
ایک اور سائنس داں جارج اسٹیفن سن ایک رات اکیلا اپنے کمرے میں بیٹھا چائے کے لیے پانی گرم کررہا تھا۔ اتفاقاً پانی ضرورت سے زیادہ کھول گیا اور کیتلی کا ڈھکن بھاپ کی زور سے اچھل کر اوپر ہوا میں ناچنے لگا۔ پہلے تو وہ گھبرا گیا، لیکن پھر یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی کہ یہ بھاپ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔
پھر کیا تھا اس نے بھاپ کو اپنے قبضے میں کرلیا۔ اس بھاپ نے ایک طرف پانی پر دخانی جہاز اور دوسری طرف خشکی پر ریلیں چلادیں۔ ۱۸۱۵ء میں اس نے نہ صرف ریلوے انجن بنادیا بلکہ ۱۸۲۵ء میں میلوں تک ریل بھی دوڑا دی۔
امریکہ کے تھامس ایڈیسن نے بجلی اور بجلی سے بہت سی چیزیں ایجاد کی تھیں۔ بجلی کے دیو کو قابو کرنے کا خیال بھی اسے کے ذہن میں اتفاقاً پیدا ہوا تھا۔ ساؤنڈ بکس اور گراموفون کی ایجاد کا خیال بھی اسی بیدار مغز شخص کو آیا۔