ایران -سعودی تعلقات کا نیا دور

شمشاد حسین فلاحی

گزشتہ دنوں مشرق وسطیٰ سے ایک خبر آئی کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کئی سیاسی و معاشی اشوز پر مصالحت ہوگئی ہے۔ اس خبر سے کچھ لوگوں کو یقینا حیرت ہوئی ہوگی کیونکہ اب تک وہ یہی سمجھتے تھے کہ ایران کیونکہ عالم عرب اور خصوصاً سعودی عرب کے لیے خطرہ ہے اس لیے ان کے درمیان عداوت کا رشتہ تو ہوسکتا ہے مگر دوستی کا نہیں۔ اس کے بعد اس ضمن کی تازہ خبر یہ تھی کہ ایران کے افسران سعودی عرب میں ایرانی سفارت خانہ کھولنے کے لیے گفت وشنید کے لیے ریاض میں ہیں اور پھر تازہ ترین بات یہ ہے کہ ریاض میں ایرانی سفارت خانہ کھل گیا ہے۔
مذکورہ بالا تفصیلات سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس پورے سلسلۂ واقعات میں چین کا کلیدی رول رہا اور اس بات کو پوری دنیا نے دیکھا اور تسلیم بھی کیا خاص طور پر اس وقت جب سعودی اور ایرانی دونوں فریقوں نے اس پر چین کا شکریہ ادا کیا۔
اس مصالحت کو ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہتر تعلقات کی استواری کی بنیاد کہا جاسکتا ہے اور دنیا بھر کے سیاسی تجزیہ نگار اسے اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں جو بعد میں تجارتی، ثقافتی اور دیگر میدانوں تک پھیلے گی۔ اس ڈیل کے دو پہلو ہمارے نزدیک اہمیت کے حامل ہیں۔
ان میں سب سے پہلا اور اہم پہلو یہ ہے کہ ایران خطہ کا اہم ملک ہونے کے باوجود عرب دنیا سے نہ صرف الگ تھلگ تھا بلکہ عرب دنیا کو ایران کے انقلاب کے بعد یہ باور کرایا گیا تھا کہ ایران عرب دنیا کے لیے خطرہ ہے اور اس کی نیوکلیر انرجی کو بھی عرب دنیا کے لیے خطرہ بناکر پیش کیا گیا اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اگر ایران نیوکلیر بم بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ عرب دنیا کے لیے خطرہ ہوگا۔ اس طرح پورے مشرق وسطیٰ میں ایران کو لے کر تشویش اور دشمنی کا سا ماحول رہا۔ جو طاقتیں ایسا باور کرانا چاہتی رہی ہیں ان کے اپنے سیاسی مفادات تھے، جن کا حصول ان کے پیش نظر تھا۔ یہ وہی طاقتیں تھیں جنھوں نے ایران اور عراق کو باہمی جنگ میں سالوں اٹکائے رکھا، جنھوںنے عراق کو کویت پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا اور پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ یہ وہی طاقتیں ہیں جنھوں نے سیریا کو ایران کے زیرِ اثر ہونے کی سزا یہ دی کہ اسے تباہ و برباد کردیا اور اس کام میں عرب دنیا سے بھی مدد لی اور اب پھر صورتِ حال یہ ہے کہ سیریا کو عرب اتحاد کا حصہ بنانے کی مثبت کوششیں ہورہی ہیں اور یہ کوششیں اگر بارآور ہوگئیں، جس کی قوی امید ہے، تو سیریا اپنے موجودہ بحران سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے گا جو پورے خطے کے لیے امن و امان اور ترقی کی ضمانت ہوگا۔
اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جسے ہم خطے میں امریکی گرفت کی کمز ور پڑتی کیفیت کے نام سے جان سکتے ہیں۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اب عرب دنیا کے حکمراں امریکی پالیسیوں کے اثر سے نکل کر بھی کچھ فیصلے لینے کے اہل ہوتے نظر آرہے ہیں۔ یہ عرب دنیا کا اہم ترین ڈیولپمنٹ ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکی گرفت کی کمزوری کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں چین کا دائرہ اثر اور اثر کی سطح ترقی پذیر ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی مصالحت کبھی بھی امریکی مفاد میں نہیں ہوسکتی تھی مگر ہوئی۔ اور اس میں عرب حکمرانوں کی جرأت و ہمت بھی شامل ہے۔ اس سلسلۂ واقعات کو ہم مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں عالم عرب و اسلام کے لیے بھی نیک فال تصور کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عالمِ عرب کے باہمی اختلافات ختم نہ بھی ہوں مگر کم ضرور ہوں گے اور یہ صورت حال دنیا میں طاقت کے توازن میں اہم رول ادا کرے گا۔ البتہ اس موقع پر ہم ایک بات ضرور محسوس کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ چین ایک نظریاتی ریاست ہے اورظاہر ہے امریکہ کے مقابلے میں وہ دنیا کے الگ الگ خطوں میں اپنے دائرہ اثر کو بڑھانے کے لیے کوشاں ہے اور یہ چین-امریکہ کے درمیان کی ’’خفیہ سرد جنگ‘‘ کا حصہ ہے۔ عالم عرب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سیاست کی دنیا میں نہ مستقل دوستی کوئی چیز ہے اور نہ یہاں دشمنی دائمی ہے۔ دوستی اور دشمنی کی بنیاد مفاد کا حصول یا اس کا تحفظ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتا چینی دائرہ اثر بھی اسی نظریے سے دیکھا جانا چاہیے اور عالم عرب اور عالم اسلام کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ وہ کہیں ایک معاشی استعمار کے چنگل سے نکل کر دوسرےمعاشی استعمال کے جال میں نہ پھنس جائیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں