اچانک مجھے کچھ رقم کی ضرورت پڑ گئی۔ دو تین اے ٹی ایم تلاش کیے مگر وہاں پہلے سے ہی بھیڑ تھی ایک جگہ اے ٹی ایم روم میں مجھے ایک شخص نظر آیا میں بھی اے ٹی ایم میں داخل ہوگیا اور انتظار کرنے لگا کہ وہ فارغ ہو تو میں اپنا کارڈ استعمال کروں۔ اس شخص کے فارغ ہوتے ہی میں جب اے ٹی ایم مشین کی طرف بڑھا توایک آدمی داخل ہوا اور بولا ’’پلیز مجھے ذرا جلدی ہے کوئی مریض داخل ہے۔‘‘
میں پیچھے ہٹ گیا اس نے اے ٹی ایم سے روپے نکالے اور پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر کارڈ کو مشین میں ڈال دیا۔ اتنے میں اس شخص کا فون آگیا اور وہ اے ٹی ایم سے باہر جاکر فون سننے لگا۔ جب میں اے ٹی ایم سے باہر آیا تو وہ شخص اپنی موٹر سائیکل کے پاس کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کہاں تو وہ اتنی جلدی میں تھا اب وہ آرام سے کھڑا باتیں کر رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ اچھے مزاج کی نشانی یہ ہے کہ وہ برے مزاج کو برداشت کرتا ہے مگر جب ہمارے مزاجوں میں ہی تیزی آنے لگے… تو؟ یہ ایک سچائی ہے کہ اس دوڑتی بھاگتی زندگی نے ہمارے مزاج اور رفتار میں تیزی پیدا کردی ہے۔ جہاں بھی جاؤ گلیوں اور بازاروں میں ہر طرف ایسا لگتا ہے کہ ہرشخص کو جلدی ہے۔ ہر آدمی ایک دوسرے سے جلدی کہیں پہنچنا چاہتا ہے۔ موٹر سائیکل والا کار سے اور سائیکل والا موٹر سائیکل سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ ہر سوار راستہ کاٹ کر دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے۔ ٹھہراؤ یا تحمل کی صفت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ بازار ہو یا سڑک ہو ہر جگہ بھاگم بھاگ ہے۔ ٹریفک میں ذرا سی رکاوٹ آجائے تو لوگ انتظار کرنے کی بجائے تو لوگ ادھر ادھر سے اپنی سواریاں نکالنے لگتے ہیں۔ نتیجہ سب کا راستہ رک جاتا ہے۔
کسی دکان چلے جائیے اگر ذرا سی بھی دیر سودا سلف دینے میں ہوجائے تو گراہک اگلی دکان کی طرف پہنچنے میں جلدی کرتا ہے۔ میں ایک گھڑیوں کی دکان میں کھڑا گھڑی مرمت کروا رہا تھا۔ اتنے میں ایک آدمی آیا اور بولا ’’ذرا میری گھڑی کی بیٹری تو بدلنا‘‘ مرمت کر رہے مستری نے کہا: ’’بس چند منٹ رکیے میں اسے ٹھیک کردوں‘‘ وہ شخص بولا ’’جلدی کرو‘‘ مستری نے سر جھکا کر گھڑی کی مرت کی اور مجھے دے دی۔ اب جو اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی شخص دوسری دکان پر کھڑا نظر آیا۔ اس شخص سے انتظار نہ ہوسکا اور جلدی سے آگے چلا گیا۔
تیز مزاجی اور تیز رفتاری ہمارے معاشرے کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ نوجوانوں کو تیز رفتاری سے ڈرائیو کر کے مزا آتا ہے۔ چاہے اس کی وجہ سے حادثات ہوتے رہیں ہڈی اپنی ٹوٹے یا کسی دوسرے کی، ٹانگ پر پلستر کا انتظار کریں وجہ تیز رفتاری ہی ہے۔
قرآن نے بھی انسان کی اس فطرت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’انسان جلد باز مخلوق ہے۔‘‘
بجلی کے بل بھرنے کی لمبی لائن میں کھڑے لوگ بے چین ہو رہے تھے ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بیچ میں سے پھلانگ کر کھڑ کی سے ہوتے ہوئے بل بھر دیں۔ ایک صاحب میرے پیچھے کھڑے بار بار اوپر چڑھے جا رہے تھے۔ کبھی دائیں ہوتے کبھی بائیں ہوتے۔ میں نے آخر ٹوک ہی دیا ’’بھائی صاحب آرام سے کھڑے ہوں باری آنے پر ہی بل بھرا جائے گا‘‘ وہ صاحب کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ بولے ’’وہ اصل میں مجھے جلدی تھی پتا نہیں کتنی دیر لگے گی۔ اب پتا نہیں ان کے ادھر ادھر ڈولنے سے وقت جلدی گزرتا ہے یا وہ اپنے دل کو تسلی دے رہے ہیں۔ ایک دو افراد نے آگے قطار میں کھڑے افراد میں ایک دو سے واقفیت نکالی اور اپنے بل بھی ان کو پکڑا کر چلتے بنے۔ دوسرے افراد نے جو پہلے ہی اکتائے ہوئے تھے، اس پر اعتراض کیا۔ پہلے دبی زبان میں باتین ہوئیں اور پھر اونچی آواز میں آپس میں تو تو میں میں ہوگئی۔ ہنگامہ اتنا بڑھا کہ بل بھرنے والے کلرک نے کھڑی بند کر کے ایس ڈی او کو بلوا کر معاملہ رفع دفع کروایا مگر اسی چکرمیں مزید ایک گھنٹہ برباد ہوا۔
غرض یہ کہ آج کی تیز رفتار زندگی نے انسانی مزاج پر بھی اثر ڈالا ہے۔ آپسی رشتے طے ہوتے ہیں اور پھر ایک دو ماہ بعد توڑ دیے جاتے ہیں۔ معاملات طے کرنے میں جلد بازی سے کام لیا جاتا ہے۔ ٹھہراؤ اور سنجیدگی کا کہیں نام و نشان نہیں ہے اس لیے انسانی معاشرہ بھی پریشان ہے۔ دفتر سے گھر گھر سے دفتر اسی لگی بندھی روٹین نے دوسری باتوں کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ایک دوسرے کے حال سے کم ہی باخبر ہیں، ملکی حالات معاشرتی رخ، سیاسی رجحانات یہاں تک کہ ہمارے اپنے بچے کس سمت کا سفر طے کر رہے ہیں خود ہمیں خبر بھی نہیں۔ یہ تیز رفتار زندگی کے اثرات ہیں کہ اس نے ہر انسان کو دوسروں سے غافل بنا دیا ہے یہاں تک کہ انسان کو اپنی زندگی سے بھی غافل بنا دیا۔lll