ایمانی تربیت کی ذمہ داری

ادارہ

جب سے بچے میں شعور اور سمجھ بوجھ پیدا ہو، اسی وقت سے اس کو ایمان کی بنیادی باتیں اور اصول سمجھانے چاہئیں اور اسے ارکانِ اسلام کا عادی بنایا جائے اور جب وہ کچھ بڑا ہوجائے تو اسے شریعتِ مطہرہ کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دی جائے۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے اہم ارشادات ہیں:
۱- کلمہ سکھانا
حاکم حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
افتحوا علی صبیانکم اول کلمۃ بلآ الٰہ الا اللّٰہ۔
’’اپنے بچوں کو سب سے پہلے کلمۂ لا الٰہ الا اللہ سکھاؤ۔‘‘
اس کا راز یہ ہے کہ بچے کے کان میں سب سے پہلے کلمۂ توحید پڑے جو شعارِ اسلام ہے۔ جیسا کہ نومولود بچے کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مستحب ہے۔
۲-حلال و حرام بتانا
ابنِ جریر اور ابنِ منذر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو اور اپنی اولاد کو اوامر پر عمل کرنے اور ممنوعات سے بچنے کا حکم کرو۔ اس لیے کہ یہ خود تمہارے لیے اور تمہاری اولاد کے لیے آگ سے بچنے کا ذریعہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بچہ جب آنکھ کھولے تو احکامِ الٰہیہ پر عمل کرنے والا ہو اور جب بچپن ہی سے شریعت کے احکام سے اس کا ربط ہوگا تو اسلام کے علاوہ کسی اور دین و مذہب کو شریعت نہ سمجھے گا اور نہ ہی اپنی زندگی کا لائحۂ عمل بنائے گا۔
۳- عبادات کا حکم دینا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مروا اولادکم بالصلوٰۃ وہم ابناء سبع سنین واضربوہم علیہا وہم ابناء عشر وفرقوا بینہم فی المضاجع۔ (ابوداؤد)
’’اپنی اولاد کو سات سال عمر ہونے پر نماز کا حکم کرو۔ اور نماز نہ پڑھنے پر ان کو سزا دو جب وہ دس سال کے ہوجائیں۔ اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔‘‘
روزے کو بھی اس پر قیاس کرنا چاہیے۔ لہٰذا جب بچہ روزہ رکھنے کے قابل ہوجائے تو روزے کی عادت ڈالنے کے لیے روزہ بھی رکھوانا چاہیے اور اسی طرح اللہ کے راستے (جہاد) میں خرچ کرنے کی بھی عادت بچوں میں پیدا کرنی چاہیے۔
نیز بستر الگ کرنے کے حکم سے معلوم ہوا کہ تمام برائیوں سے بچانے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ بچے عفت وپارسائی کی خصلت کے ساتھ جوان ہوں اور پھر اسی پر عمر بسر کریں اور اسی پر وفات پائیں۔
۴- قرآن اور رسول سے محبت
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نبی کریم ﷺ سے نقل فرماتے ہیں کہ اپنے بچوں کو تین باتیں سکھاؤ۔ (۱)اپنے نبی ﷺ سے محبت (۲) ان کے اہلِ بیت و اصحاب کرام سے محبت (۳) اور قرآن پاک کی تلاوت۔ اس لیے کہ قرآن کے حاملین اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے میں انبیاء علیہم السلام اور اصفیا کے ساتھ ہوں گے۔ جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے غزوات اور صحابہ کرامؓ کی سیرت اور مسلمانوں کے بڑے بڑے قائدین کی سوانح حیات اور ان کی شجاعت اور بہادری کے کارناموں کی بھی تعلیم دی جائے تاکہ ان میں نیک اور بڑے لوگوں کی پیروی کی خواہش پیدا ہو اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر وہ خود بھی درجاتِ عالیہ تک پہنچیں۔
چنانچہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو رسول اللہ ﷺ کے غزوات اس طرح یاد کراتے تھے، جس طرح انھیں قرآن پاک کی سورتیں یاد کراتے تھے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں یہ وصیت کی ہے کہ بچے کو قرآن کریم، احادیثِ نبویہ اور نیک لوگوں کے واقعات اور دینی احکام کی تعلیم دی جائے۔
ابن سینا نے ’’کتاب السیاسۃ‘‘ میں یہ نصیحت لکھی ہے کہ جیسے ہی بچہ جسمانی اور عقلی اعتبارسے تعلیم و تعلّم کے لائق ہوجائے تو اس کی تعلیم کی ابتداء قرآن کریم سے کرنی چاہیے، تاکہ اصل لغت اس کی گھٹی میں پڑے اور ایمان اور اس کی صفات اس کے نفس میں راسخ ہوجائیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ تربیت کرنے والے حضرات ان بنیادی ہدایات کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کریں تاکہ بچوں کے عقائد درست خطوط پر قائم ہوں اور ان کا کردار خیروخوبی کا مرقع بن سکے۔
یہ ایمانی تربیت ہے جسے ہم نے بیان کیا اور اس پر کسی قدر روشنی ڈالی۔ یہ وہ تربیت ہے جس کے لیے مغرب کے علمائے تربیت واخلاق بھی نہایت شدت سے اصرار کرتے ہیں۔ تاکہ اپنے معاشرہ کو بے دینی، جرائم اور گندے اخلاق اور بے حیائی کے کاموں سے نجات دلاسکیں۔
چنانچہ روس کے سب سے بڑے قصہ نویس دستوفسکی نے اپنی کہانیوں میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے کہ انسان جب اللہ تعالیٰ کو چھوڑ بیٹھتا ہے تو پھر وہ کسی نہ کسی طرح سے شیطان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔
فلسفی کانٹ نے اپنے افکار میں بیان کیا ہیکہ تین قسم کے اعتقاد پیدا کیے بغیر اخلاق وجود میں نہیں آسکتے: (۱) خدا کے وجود کا اعتقاد (۲) روح کے ہمیشہ ہمیشہ رہنے کا اعتقاد (۳) مرنے کے بعد حساب و کتاب کا اعتقاد۔
مذکورہ بالا تصریحات کے بعد خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ بچے کی اصلاح اور اس کی اخلاقی و نفسیاتی تربیت کی بنیاد اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا ہے۔ لہٰذا باپ اور مربی کو چاہیے کہ بچے کو ہر لمحہ ایسے براہین اور دلائل سے آشنا کرائے جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور وحدانیت پر دلالت کرتے ہوں اور اس کی ایسی رہنمائی کرے جو اس کے ایمان کو مضبوط کرے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک روز نبی کریم ﷺ کے پیچھے سواری پر سوار تھا کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’صاحبزادے! میں تمہیں چند باتیں بتلاتا ہوں یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے حقوق کی حفاظت کرو، اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا۔ تم حقوق اللہ کا خیال رکھو، اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے پاؤگے۔ اور جب مانگو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مانگو اور جب مدد طلب کرو تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرو۔ اور اس بات کو جان لو کہ اگر تمام مخلوق بھی تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہے تو تمھیں صرف وہی فائدہ پہنچاسکتی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سب مل کر بھی تمھیں کچھ نقصانا پہنچانا چاہیں تو تمھیں اتنا ہی نقصان پہنچاسکتے ہیں، جتنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ بس جو کچھ تیرے لیے لکھا گیا ہے اس کے بعد قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔‘‘(ترمذی)
ایک اور روایت میں آیا ہے:
’’اللہ تعالیٰ کے حقوق کا خیال رکھو اس کو اپنے سامنے پاؤگے۔ خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو، اللہ تعالیٰ تمھیں تنگی اور پریشانی میں یاد رکھے گا۔ اور تم یہ یادر کھو کہ جو چیز تم تک نہیں پہنچی وہ ہرگز تم تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اور جو چیز تمھیں پہنچ گئی تم اس سے قطعاً بچ نہیں سکتے تھے۔ اور تم جان لو کہ کامیابی صبر کے ساتھ ہوتی ہے اور فراخی و کشادگی تکلیف و کرب کے بعد ہوتی ہے اور تنگی کے ساتھ آسانی ہوا کرتی ہے۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146