اللہ تعالیٰ نے دین کو بہت آسان اور ہر انسان کے لیے قابلِ عمل بنایا ہے، اس نے بلاشبہ ایمان کے درجات مقرر فرمائے ہیں اور ان درجات میں اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ تفاوت رکھا ہے جتنا اس دنیا میں ہم کو نظر آتا ہے یعنی ایک طرف ایسے لوگ ہیں جن کو اپنی دولت کا حساب ہی نہیں معلوم، اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں، جن کو ایک وقت کا کھانا بھی میسر نہیں، لیکن ایمان کے مراتب ان معاشی امتیازات سے بہت بلند و برتر ہیں۔ یہ نعمت ہر شخص کو نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ کھانا کپڑا تو اس اختلافِ مراتب کے باوجود سب کو دیتا ہے اور سب کی ضروریات پوری فرماتا ہے، لیکن ایمان کی دولت ہر شخص کو نہیں ملتی اور جب مل جاتی ہے تو پھر نہیں چھنتی۔
طبرانی نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک عجیب قول نقل کیا ہے، جس سے ہمیں بہت سی چیزوں کا جواب ملتا ہے اور بہت روشنی اور ہدایت حاصل ہوتی ہے:
عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، قال ان اللہ قد قسم بینکم اخلاقکم، کما قسم بینکم ارزاقکم، وان اللّٰہ یؤتی المال من یحب ومن لا یحب ولا یؤتی الایمان الا من احب فاذا احب اللّٰہ عبدا اعطاہ الایمان، فمن ضنَّ بالمال ان ینفقہ، وہاب العدو ان یجاہدہٗ، واللیل ان یکابدہ فلیکثر من قول لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، والحمدللّٰہ، وسبحان اللّٰہ۔
’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان اخلاق بھی اسی طرح تقسیم کردیے ہیں جس طرح تمہارا رزق۔ اور اللہ تعالیٰ مال تو اس کو بھی دیتا ہے جس کو پسند کرتا ہے، اور اس کو بھی جس کو ناپسند کرتا ہے، اور ایمان صرف اسی کو دیتاہے جس کو چاہتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو اس کو ایمان عطا فرماتا ہے، پس جس پر مال خرچ کرنا شاق ہو، دشمن کے مقابلہ کا دل میں ڈر ہو، اور رات کو اٹھنا ناگوار ہو وہ بکثرت لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر والحمدللہ وسبحان اللہ کا ورد کرے۔‘‘
اس قول میں کئی اہم باتیں اور حقیقتیں بیان کی گئی ہیں، پہلی حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح رزق کی تقسیم کی ہے، اسی طرح اخلاق کی بھی تقسیم کی ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مال تو اس کو بھی دیتا ہے جس کو پسند نہیں فرماتا اور اس کو بھی دیتا ہے جس کو پسند فرماتا ہے، لیکن ایمان صرف اسی کو دیتا ہے جس سے اس کو محبت ہوتی ہے۔
تیسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ حقیقت سے محروم ہونے کی تین علامتیں ہیں، ایک یہ کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنا آسان نہ ہو، دل میں دشمن کا خوف جاگزیں ہو، رات کو اٹھنا مشکل ہو، اس کا حل یہ بتایا گیا ہے کہ کثرت سے تسبیح کرے۔ لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر، الحمدللہ و سبحان اللہ کہے۔
جہاں تک دوسری حقیقت کا تعلق ہے اس سلسلہ میں صرف یہ کہنا ہے کہ کشائش رزق اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش اور راضی ہے۔ اگر ان کی سخت کوتاہیوں اور نافرمانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ان کو مال و دولت عطا کرتا ہے تو ان کو اس کے عفو و کرم اور نوازشِ پیہم کے سامنے خجالت نہیں ہوتی کہ ہم اس کے اتنے نافرمان اور اس سے اس درجہ غافل اور وہ ہم پر اس قدر مہربان و شفیق اور ستار و غفار، ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ تو وہ چیز ہے جس میں مومن و کافر صالح و فاجر اور عالم و جاہل سب برابر ہیں، ہاں اگر ایمان کے ساتھ یہ دولت ہمیں ملتی ہے تو ہماری خوش نصیبی ہے، لیکن یہ ایمان یا حقیقت ایمان، اللہ تعالیٰ اسی کو عنایت فرماتا ہے جس کو وہ پسند فرماتا ہے۔
آخری کام کی بات یہ ہے کہ اس نے ایمان کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں تین باتیں بتادی ہیں ان سے ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی کو ناپ سکتا ہے، نہ اس کو اس میں کسی بڑے تجزیے کی ضرورت ہے نہ بہت غوروخوض کی۔
ایک یہ کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنا طبیعت پر شاق ہو۔ دوسرے یہ کہ دشمن کے مقابلے سے ڈر ہو۔ تیسرے یہ کہ رات پر قابو نہ پاسکتا ہو۔ (یعنی تہجد اور شب بیداری و سحر خیزی اس پر بہت بار ہو)
یہ تین بڑی آسان علامتیں بیان کردی گئی ہیں اور اسی کے ساتھ اس کا حل بھی تجویز کردیا گیا ہے۔ یہ سب دل کے امراض ہیں، جو زیادہ مال کی کثرت، معاصی کی کثرت اور خدا کے ذکر اور تذکرہ سے غفلت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں، اس کے لیے سب سے زیادہ اور پہلی ضرورت یہ ہے کہ دل کا زنگ دور ہو، اس میں کسی درجہ میں لطافت اور قبولیت کی استعداد وصلاحیت پیدا ہو، جب یہ چیز حاصل ہوجائے گی تو باقی ساری چیزیں ہمارے لیے خود بخود آسان ہوجائیں گی۔ اس لیے کہ جب تک دل میں قبولیت و صفائی نہ ہو، کثافت اور مادیت کا غلبہ ہو اس وقت اس پر کسی اچھی بات کا اثر کرنا مشکل ہے، دل کی صفائی اور استعداد کے بعد بعض وقت ایک آیت، ایک حدیث، ایک واقعہ ایک شعر، اور ایک اشارہ سے وہ کام ہوجاتا ہے جو اکثر بڑے بڑے دینی جلسوں، کتابوں اور تقریروں سے بھی نہیں ہوتا، یہ وہ سوئچ بورڈ ہے جس کو حرکت دیتے ہی ہماری بہت سی مخفی صلاحیتیں جو مختلف ظلمتوں میں گھری رہتی ہیں، دیکھتے دیکھتے بروئے کار آجائیں گی۔ اس وقت ہمارے اندر اتنی صلاحیت پیدا ہوجائے گی کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے کی ترغیب سن کر ہمارا دل ہماری سماعت کا ساتھ دے گا۔ دشمنوں کا وہ موہوم خوف ہمارے دل سے نکل جائے گا جو بہت سی حق اور ضروری باتوں سے روکتا تھا، اور جس نے ہمارے دل کو کمزور اور مادیت کی تیز لہروں کے سامنے بالکل بے دست و پا کردیا تھا، رات کو اٹھنا، خدا سے مانگنا اس کے سامنے خوف و امید اور بندگی و عبودیت و دل شکستگی کے ساتھ سرجھکانا بھی ہمارے لیے آسان ہوجائے گا۔ ان تمام نعمتوں اور سرفرازیوں کا مختصر راستہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا کا کثرت سے ذکر کرو اور اس کی تسبیح میں اپنی زبان اور دل کو مشغول رکھو۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوچار تسبیح پڑھ کر اور اپنا وظیفہ پورا کرکے ہم ہر ذمہ داری سے فارغ ہوسکتے ہیں۔ یہ تینوں علامتیں اسی لیے بیان کی گئی ہیں کہ ہم محسوس کریں کہ ذکر کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ ہم کو حقیقت ایمان تک پہنچائے۔ یقین تک پہنچائے، یہ ایمان و یقین کیا ہے؟ اس کی موٹی موٹی باتیں اس قول میں بیان کردی گئی ہیں۔
اگر ہماری نیت درست ہے تو ہم ہر وقت اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ہمارا ذکر اور ہماری تسبیح ہمیں کیا دے رہی ہے؟ ہمارے دل کی حالت کیا ہے؟ اس میں اثر پذیری کی صلاحیت کس درجہ پیدا ہوچکی ہے؟
اگر ہم صرف ان ہی تین چیزوں میں متوقع تبدیلیوں کا جائزہ لیتے رہیں جو ذکر کے بعد پیدا ہونی چاہئیں تب بھی ہمیں بہت کچھ اندازہ ہوجائے گا کہ۔
اس کے ساتھ منتظر ہوکر بیٹھنے کی نہیں بلکہ عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ذکر صرف تسہیل کے لیے، راستہ کھولنے کے لیے، صلاحیت و قبولیت پیدا کرنے کے لیے ہے۔ اگر ذکر کے ساتھ عمل شروع کردیا جائے تو یہ ذکر اس عمل کے لیے شہپر کا کام کرے گا۔ اس میں سہولت بھی پیدا ہوگی۔ قوت بھی، اور برکت بھی اور اس کے ساتھ ساتھ لغزشوں سے حفاظت بھی۔
یہ ذکر و تسبیح ہر وقت چلتے پھرتے لیٹتے بیٹھتے ہوسکتی ہے، زیادہ مناسب یہ ہے کہ نمازوں کے بعد ہو اور پھر حتی الامکان ہر وقت ہو، اس لیے کہ حدیث شریف میں ذکر کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تمہاری زبان اللہ کے ذکر اور اللہ کی یاد سے ہمیشہ تر رہے۔
یہ وہ راستہ ہے جس سے دین کے کاموں میں نصرت و توفیق اور برکت و قوت حاصل ہوگی اور دنیا کے کاموں اور خالص معاشی اور مادی مشاغل میں رہتے ہوئے قلب کی وہ صفائی حاصل ہوگی اور اس میں اس درجہ استعداد اور طلب پیدا ہوجائے گی جو حقیقتِ ایمان تک پہنچانے کے لیے ضروری ہے۔ یہ راستہ دین دار اور دنیا دار سب کے لیے یکساں مفید اور مدرسہ و بازار ہر جگہ کارآمد ہے، اس میں سب کا فائدہ ہے کسی کا نقصان نہیں۔
جو لوگ ملتِ اسلامی کی رہنمائی و اصلاح اور دعوت و تبلیغ کا کام انجام دے رہے ہیں، اس سے ان کے کاموں میں ترقی ہوگی، حفاظت ہوگی اور قوت آئے گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غلط رخ پر پڑجانے اور اپنے اصل مقصد سے غافل ہوجانے کا اندیشہ ہم سے کم ہوجائے گا۔
جو لوگ کم کوش و عافیت طلب ہیں، ان کی ہمت افزائی ہوگی، ان کے کاموں میں تیزی پیدا ہوگی، ان کی غلطیوں کی اصلاح ہوگی۔ صفائی قلب کی وجہ سے بہت سی نئی حقیقتیں ان کے سامنے آئیں گی، خود ان کی حقیقت ان پر منکشف ہوگی اور معلوم ہوگا کہ ہم کہاں تھے۔ اور کہاں جارہے ہیں؟
جو لوگ دنیا میں منہمک ہیں اور دینی باتوں سے زیادہ سروکار نہیں رکھتے، اسلام اور مسلمانوں کے مسئلہ سے زیادہ دلچسپی نہیں لیتے، اس سے ان کے دل میں ایمان کا وہ روزن کھل جائے گا، جس سے ان کے اندر دین کے تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوگی، اچھی باتوں کا ان کے دل پر اثر ہوگا، اگر ہم سب اپنے سامنے اسی کے ساتھ وہ پیمانہ بھی رکھیں گے جو اوپر گزرا ہے، تو ہمیں اپنی اصلاح اور پیش رفت کا اندازہ بھی ہوتا رہے گا اور سمت بھی درست رہے گی۔لیکن ارادہ کی سچائی اور نیت کی درستی شرط ہے۔ ورنہ کچھ حاصل نہ ہوگا اور اگر حاصل ہو بھی جائے تب بھی لاحاصل ہے۔
——