۲۸؍اکتوبر ۱۹۳۰ء کو راقم الحروف علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ آرام کرسی پر تشریف فرما تھے، حقہ سامنے رکھا تھا۔ رسمی مزاج پرسی ہوئی اور اس کے بعد تبلیغِ اسلام کے عنوان پر گفتگو شروع ہوگئی۔ ’’آپ ایک کتاب لکھئے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔
’’کیسی کتاب؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’تحقیقات کرنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے قصبات اور دیہات میں ہزارہا غیر مسلم حلقہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان از خود مسلمان ہونے والوں سے ملے اور ان سے قبولِ اسلام کی وجوہ دریافت کرکے ایک کتاب میں جمع کردے تو اس سے تبلیغ اسلام کے مقصد کو بے حد تقویت حاصل ہوگی۔‘‘
’’کیا صداقت اسلام کے متعلق پہلے ناکافی دلائل ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بہت ہیں، مگر ایسا کرنے سے کئی ایسے عجیب اور جدید دلائل آپ کو ملیں گے کہ دنیا حیرت زدہ رہ جائے گی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دل اور دماغ کے کام کرنے کے طریقوں میں بہت فرق ہے۔ دماغ اکثر اوقات ہزارہا مضبوط سے مضبوط دلائل کو مسترد کردیتا ہے اور ان کی کچھ بھی پروا نہیں کرتا لیکن دل اس کے برخلاف، بعض اوقات کمزور سے کمزور چیزوں سے اس قدر متاثر ہوجاتا ہے کہ ایک ہی جھٹکے میں زندگی کا سارا نقشہ بدل جاتا ہے۔ قبولِ اسلام کا جس قدر تعلق دل سے ہے، دماغ سے نہیں۔ اصل بات جو مبلغ کو معلوم ہونی چاہیے یہ ہے کہ وہ کون کون سے نشتر ہیں جن سے دل متاثر ہوا کرتے ہیں؟ کفار اور مشرکین کے انقلاب حیات کی ہزارہا مثالیں تاریخِ اسلام میں موجود ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دل پر ایک نشتر چلتا ہے اور چشم زدن میں اس کی زندگی کی تمام گزشتہ تاریخ بدل جاتی ہے۔ صداقتِ اسلام کے عقلی دلائل تو آپ کے پاس بہت ہیں، مگر قلبی دلائل کم ہیں۔ اگر آپ نو مسلموں کے پاس جائیں تو وہ بتائیں گے کہ اسلام کی وہ کون سی بے ساختہ ادا تھی جو ان کے دل کو بھاگئی۔ اگر ان کے بیانات ایک کتاب میں جمع کردیے جائیں تو مجھے یقین ہے کہ انقلاب حیات کی ایک بالکل نئی دنیا، مبلغین اسلام کے سامنے آجائے گی اور انہیں اشاعتِ اسلام کے لیے ایسے نئے دلائل یا جدید ہتھیار مل جائیں گے کہ ان سے اسلام کا موجودہ کتب خانہ خالی ہے۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو بھی کوئی واقعہ یاد ہے؟‘‘
ڈاکٹر اقبال تھوڑی دیر چپ رہے۔
’’آپ کو تکلیف تو ضرور ہوگی مگر اسلام کی خدمت ہوجائے گی۔ آپ تکلیف کرکے ضرور ارشاد فرمائیے۔‘‘ میں نے التماس کیا۔
ڈاکٹر صاحب بتانے لگے: ’’لیڈی بارنس کا قبولِ اسلام عجیب واقعہ ہے۔ وہ ایک نومسلم انگریز فوجی کی بیوی تھیں۔ چند سال پہلے کا ذکر ہے کہ یہ دونوں میاں بیوی ایک مقدمے میں پھنس گئے اور اسی سلسلے میں میرے پاس آئے۔ چونکہ الزامات درست تھے، اس لیے تھوڑی سی پریشانی کے بعد عدالت نے ان دونوں کو باعزت بری کردیا۔ اس کے چند روز بعد لیڈی بارنس میرا شکریہ ادا کرنے کے لیے لاہور تشریف لائیں۔ میں نے سوال کیا: ’’لیڈی صاحبہ! آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے اسباب کیا ہیں؟‘‘
’’مسلمانوں کے ایمان کی پختگی، ڈاکٹر صاحب!‘‘ لیڈی بارنس نے جواب دیا۔
’’لیڈی صاحبہ! میں نہیں سمجھا، اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ڈاکٹر صاحب! میں نے دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں کوئی بھی قوم ایسی نہیں جس کا مسلمانوں کی طرح ایمان پختہ ہو۔ بس،اسی چیز نے مجھے اسلام کا حلقہ بگوش بنادیا ہے۔‘‘ لیڈی نے یہ نظریہ پیش کرکے تھوڑا سا تامل فرمایا اور کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! میں ایک ہوٹل کی مالکہ تھی۔ یہیں ایک دفعہ میجر صاحب کھانے کے لیے آئے تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ وہ مسلم ہیں، تھوڑا عرصہ ہماری گفتگوئیں جاری رہیں اوراس کے بعد میری ان سے شادی ہوگئی۔ میرے ہوٹل میں ایک ستر سالہ بوڑھا مسلمان ملازم تھا۔ اس بوڑھے کا فرزند نہایت خوبصورت نوجوان تھا۔ مہلک بیماری میں جب یہ لڑکا چل بسا تو مجھے بے حد صدمہ ہوا۔ میں بوڑھے کے پاس تعزیت کے لیے گئی۔اسے تسلی دی اور دلی رنج و غم کا اظہار کیا۔ بوڑھا نہایت غیر متاثر حالت میں میرے تعزیتی الفاظ سنتا رہا اور جب میں غم کی باتیں ختم کرچکی تو اس نے نہایت شاکرانہ انداز میں آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور کہا:’’ میم صاحب! یہ خدا کی تقدیر ہے۔ خدا کی امانت تھی، خدا لے گیا۔ اس میں غمزدہ ہونے کی کیا بات ہے؟ ہمیں تو ہر حال میں خدائے غفور کا شکر ادا کرنا ہے۔‘‘
لیڈی بارنس اتنا کہہ کر رک گئیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انھوں نے کوئی بہت بڑا معجزہ بیان کیا ہے اور اب وہ زبانِ حال سے مجھ سے یہ مطالبہ کررہی تھیں کہ میں بھی ان کے ساتھ مل کر حیرت کا اظہار کروں۔
میں نے کہا: ’’لیڈی صاحبہ! پھر؟‘‘
لیڈی نے پھر اپنا قصہ شروع کیا اور کہا:
’’ڈاکٹر صاحب! بوڑھے کا آسمان کی طرف انگلی اٹھانا ہمیشہ کے لیے میرے دل میں پیوست ہوگیا۔ میں بار بار اس کے الفاظ پر غور کرتی تھی اور حیران تھی کہ الٰہی اس دنیا میں اس قسم کے صابر، شاکر اور مطمئن دل بھی موجود ہیں۔ مجھے بڑی کاوش یہ تھی کہ بوڑھے نے ایسا پر استقامت دل کیسے پایا؟ اسی غرض سے میں نے پوچھا کیا مرحوم کے اہل و عیال بھی تھے؟ وہ کہنے لگا: ایک چھوٹا بچہ اور ایک بیوی ہے۔ بوڑھے کے اس جواب نے میری حیرت کم کردی۔‘‘
’’میں نے بوڑھے کے اطمینان قلب کی یہ تاویل کی کہ چونکہ پوتا موجود ہے، اس واسطے وہ اس کی زندگی اور محبت کا سہارا ہوگا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب! میں نے اس تاویل سے اگرچہ اپنے دماغ کو پرچا لیا مگر میرے دل کو اطمینان نہ ہوا اور میں برابر اس پڑتال میں لگی رہی کہ کسی طرح اپنے بوڑھے ملازم کی صحیح کیفیت سمجھوں۔‘‘
’’اس واقعے کے تھوڑے ہی دن بعد، یتیم بچے کی ماں بھی چل بسی۔ اس سے میرے دل کو بہت تکلیف ہوئی۔ بوڑھے کی بہو کا غم میری عقل پر چھا گیا مگر ٹھیک اسی وقت میری وہ قدیم تڑپ بھی جاگ اٹھی اور میں نے خیال کیا کہ بوڑھے کے امتحان کا اصل وقت یہی ہے۔ میرے دل پر اس کی طویل خدمت گزاریوں کا اثر تھا۔ اس کے نوجوان فرزند کی وفات کے بعد اب اس کی بہو کی موت اور اس کے پوتے کی یتیمی نے اس اثر کواور بھی زیادہ چمکادیا تھا لیکن اس فطری اور رسمی ہمدردی اور دلسوزی کے علاوہ اصل چیز جو میری دلچسپیوں کا حقیقی مرکز تھی، یہ تھی کہ میں بوڑھے کی کیفیت قلب کا صحیح اندازہ کروں؟ میں دوسرے دن بوڑھے کے گاؤں روانہ ہوئی جو بالکل قریب ہی تھا۔ اس وقت تک جذبات و تخیلات کی ایک بے تاب کائنات میرے ہمرکاب تھی۔ میں ہر قدم پر یہ خیال کرتی تھی کہ اس تازہ مصیبت نے بوڑھے کے دل کی حالت کو بدل دیا ہوگا۔ وہ کبھی اپنے ضعف اور حالِ زار پر غور کرتا ہوگا پھر اپنے یتیم پوتے کی کم سنی کو دیکھتا ہوگا اور غم میں ڈوب جاتا ہوگا۔ دوسرے ہی قدم پر یہ سوچنے لگتی تھی کہ جب اس کا معصوم، کمسن اور لاوارث پوتا ماں باپ کے فراق میں بلبلائے گا تو وہ کس طریقے سے اس کے اور اپنے دل کو تسلی دے گا؟ وہ اس کے والدین کی قبروں کو کہاں چھپائے گا؟ وہ اس کے آنسوؤں کی جوابدہی سے کیونکر عہدہ برآہوگا؟ وہ ضعیفی اور اپنے پوتے کے تاریک مستقبل پر کیا پردہ ڈالے گا؟
ان تمام سوالات نے میرے دل اور دماغ کے لیے جو فیصلہ مہیا کیا، یہ تھا کہ بوڑھے کا وہ پہلا صبر واستقامت ختم ہوچکا ہوگا۔ میں اسی فیصلے کو ساتھ لے کر بوڑھے کے گھر میں داخل ہوئی اور اس کی تازہ مصیبت پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے اپنی ہمدردی کا یقین دلایا۔ وہ نہایت ہی امن و سکون سے میری دردمندانہ باتیں سنتا رہا لیکن جب اس کے جواب کی نوبت آئی تو اس نے پھر انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا: ’’میم صاحب! خدا کی تقدیر میں کوئی شخص دم نہیں مارسکتا۔ اسی نے دیا تھا اور وہ لے گیا، ہمیں ہر حال میں اس کا شکر کرنا واجب ہے۔‘‘
لیڈ ی بارنس بوڑھے کے الفاظ نقل کرنے کے بعد پھر رکیں گویا وہ مجھ سے ان الفاظ کی داد طلب کررہی تھیں۔ انھوں نے تھوڑا تامل کیا، ایسا تامل جس میں ایک قسم کی محویت ملی ہوئی تھی، اور سلسلہ کلام پھر شروع کیا اور کہا:
’’ڈاکٹر صاحب! میں جب تک بوڑھے کے پاس بیٹھی رہی، اس کے سینے سے نہ آہ نکلی اور نہ آنکھ سے آنسو گرے اور نہ ہی زبان پر افسوس کا لفظ آیا۔ وہ اس طرح اطمینان سے باتیں کرتا رہا گویا اس نے اکلوتے بیٹے اور بہو کو زمین میں دفن نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی کا کوئی بڑا فرض پورا کیا ہے۔ تھوڑے عرصے بعد میں وہا ں سے واپس آگئی۔ میں بوڑھے کی پختگی ایمان پر بہت حیرت زدہ تھی۔ میں بار بار غور کرتی تھی اور تھک جاتی تھی مگر مجھ پر یہ معمہ حل نہیں ہوتا تھا کہ اس پریشانی میں کسی انسان کو یہ استقامت کیسے نصیب ہوسکتی ہے؟
’’چند روز بعد اس کا معصوم پوتا بھی گزرگیا۔ اس اطلاع کے بعد میں نے اپنی فکری تاویلات کو نئے سرے سے اپنے دماغ میں جمع کیا تاکہ اس کے حال کا اندا زہ کروں۔بڑی بے قراری کے عالم میں اس کے پاس گھر پہنچی۔ مجھے یقین تھا کہ اب لاوارث بوڑھا تمام دنیا کو ختم کرچکا ہوگا۔ اس کے حواس ہوش سے بیگانہ ہوں گے۔ اس کا دل و دماغ مقفل ہوگا اور یاس اس کی امید کے تمام رشتے منقطع کرچکی ہوگی۔ یہی توقعات ساتھ لے کر میں بوڑھے کے مکان میں داخل ہوئی اور نہایت دلسوزی سے اس کے مصائب پر غم کا اظہار کیا۔ مجھے یہ معلوم کرکے بے حد حیرت ہوئی کہ میرے اظہارِ افسوس کا بوڑھے کے دل پر کچھ بھی اثر نہ تھا۔ وہ بڑی بے تکلفی سے بیٹھا تھا اور نہایت ہی غیر متاثر حالت میں میری گفتگو سن رہا تھا۔ جب میری گفتگو ختم ہوگئی تو اس نے زبان کھولی، پہلے کی طرح پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا:
’’میم صاحب! یہ خدا کی حکمت کے کھیل ہیں۔ اس نے دیا تھا، اس نے واپس لے لیا۔ اس میں ہمارا کیا تھا جس پر ہم اپنے دل کو برا کریں، بندے کو ہر حال میں اپنے خدا کا شکر ادا کرنا واجب ہے۔ ہم مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں۔‘‘
اب لیڈی بارنس درد دل کی کیفیتوں سے لبریز تھیں۔ انھوں نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا اور روتی ہوئی آواز میں کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! بوڑھے کا یہ جواب، میرے لیے قتل کا پیغام تھا۔ اس کی انگلی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی اورتیر بن کر میرے دل کو کرید رہی تھی۔ اس وقت میں نے اس مردِ ضعیف کی پختگی ایمان کے سامنے ہمیشہ کے لیے اپنا سرجھکادیا۔ مجھے یقین حاصل ہوگیا کہ یہ اطمینان قلب، مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی ہے۔ میں نے کہا اے میرے بوڑھے باپ! اب تم اکیلے اس گاؤں میں رہ کر کیا کروگے؟ میرے ساتھ ہوٹل میں چلو اور آرام سے زندگی بسر کرو۔بوڑھے نے میری اس دعوت کا شکریہ ادا کیا اور بے تکلف میرے ساتھ ہوٹل میں چلا آیا۔ یہاں وہ دن بھر ہوٹل کی خدمت کرتا اور رات کو خدا کی یاد میں مصروف ہوجاتا۔
کچھ عرصے بعد اس نے کہا کہ آج قبرستان جاؤں گا۔ میرے دل میں پھر وہی امتحان لینے کی لٹک پیدا ہوئی۔ دل نے کہا یہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں اس کے صبر و تحمل پر کیا گزرتی ہے؟ بوڑھا ہوٹل سے نکل کر اس خاموش اور ویران مقام کی طرف آیا جہاں اس کے تینوں عزیز مدفون تھے۔ میں ایک طرف کھڑی ہوگئی اور وہ قبرستان پہنچتے ہی پریشان حال قبروں کو درست کرنے میں مصروف ہوگیا۔ وہ مٹی کھود کھود کر لاتا تھا اور قبروں کو درست کرتا تھا۔ اس کے بعد وہ پانی لے آیا اور ان پر چھڑکاؤ کرنے لگا۔ جب قبریں درست ہوگئیں بوڑھے نے وضو کیا، ہاتھ اٹھائے اور اہلِ قبرستان کے حق میںدعا کی اور واپس چل دیا۔ میں نے اس تمام عرصے میں نہایت احتیاط سے اس کی تمام حرکات کو دیکھا اور محسوس کیا کہ اس کے ہر کام میں اطمینان کا نور اور ایمان کی پختگی جلوہ گر ہے۔ اب میرے دل پر ایک غیبی نشتر چلا اورمجھے محسوس ہوا کہ یہ بوڑھے کی خوبی نہیں بلکہ یہ اس دین حق کی خوبی ہے جس کا یہ بوڑھا پیرو ہے۔ میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کرلیا اور ہوٹل میں پہنچ کر اس مردِ بزرگ سے کہا کہ وہ کوئی ایسی عورت بلا لائے جو مجھے اسلام کی تعلیم دے۔ وہ فی الفور اٹھا اور اپنے ملا کی لڑکی کو بلا لایا۔ اس نے خدا اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی ترغیب دی اور لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا سبق سکھایا۔
’’ڈاکٹر صاحب! اب میں اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت سے مسلمان ہوں اور وہی عظیم الشان قوتِ ایمان، جس سے کہ بوڑطے کا دل سیراب تھا، اپنے سینے میں موجود پاتی ہوں۔ مجھے اپنے خدا پر اس قدر پختہ ایمان ہے کہ خواہ کسی قدر بھی مصیبت آئے، میرے قدموں میں کبھی لغزش نہیں ہوسکتی۔‘‘ ——
دوسری قسط یہاں پڑھیں!
https://hijabislami.in/9249/