قَالَ النَّبِیُّ ﷺ لَایَجِدُ اَحَدٌ حَـلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ حَتیّٰ یُحِبُّ الْمَرْئَ، لَایُحِبُّہٗ اِلَّا لِلّٰہِ وَحَتیّٰ اَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ اَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ اَنْ یَّرْجِعَ اِلَی الْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْقَذَہُ اللّٰہُ وَحَتیّٰ یَکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ اَحَبُّ اِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا۔ (بخاری عن انس کتاب الادب باب الحب فی اللّٰہ)
’’نبی ﷺ نے فرمایا کوئی شخص ایمان کی شیرینی کو حاصل نہیں کرسکتا، یہاں تک کہ اس میں یہ تین صفات پائی جائیں۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے۔ اور دوسری صفت یہ ہے کہ کفر کی طرف لوٹنے سے وہ آگ میں پھینکے جانے کو زیادہ پسند کرے بعد اس کے کہ اللہ نے اسے کفر سے نجات دی ہے۔ اور تیسری صفت یہ ہے کہ اسے سب سے زیادہ محبت اللہ اور اس کے رسول سے ہو۔‘‘
وہ مسلمان بھائی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذاتی اغراض کی بنا پر دوستی کا قائل نہ ہو بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لیے ہر اس شخص سے محبت کرے جو اللہ کی بندگی اور اطاعت میں مخلص ہو، اللہ کے احکام کی پیروی کرتا ہو، اس کا باغی اور نافرمان نہ ہو، وہ خدا کے دین کو اختیار کرچکا ہو اور اسے دنیا میں غالب کرنے کی کوشش کررہا ہو۔
دوسری صفت کا مفہوم یہ ہے کہ اسے کفر (بغاوت اور نافرمانی) سے سخت نفرت ہوتی ہے، اگر اس سے کہا جائے کہ کفر اختیا رکرو، ورنہ دہکتی ہوئی آگ میں پھینک دیے جاؤ گے تو وہ شرحِ صدر سے یہ فیصلہ کرے کہ کفر کے طریقے پر چلنے سے تو میں آگ میں جانے کو ترجیح دیتا ہوں۔
تیسری صفت یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسولﷺ کے حکم، فیصلے اور قانون پر ہر حال میں عمل کرے، چاہے اس کے نتیجے میں اسے کسی بھی قسم کا نقصان اور خسارہ برداشت کرنا پڑے۔
جس شخص میں یہ تین صفات پائی جائیں، اس کا دل اور روح ایمان کی لذت سے سرشارہوجائیں گے اور اللہ کی راہ میں آنے والی سختیوں اور مصیبتوں کو برداشت کرنے سے اس کی طبیعت کو نشاط حاصل ہوگا ۔