انگریزی کے بعض الفاظ اپنے اصلی صورت میں اتنے خوبصورت اور معنی خیز ہوتے ہیں کہ ان کا ترجمہ ان کی نوعیت و نزاکت کو قطعاً بدل دیتا ہے۔ اب اسی ایٹی کیٹ کو لے لیجیے، اس کا ترجمہ ہوا ہے ’’عوائدِ رسمیہ‘‘ یعنی رسم و رواج اور سوسائٹی کی مہر پر جو پابندیاں عائد ہوتی ہیں، ان کا اعادہ۔ یا کچھ ایسے ہی۔ بہر صورت بحیثیت مجموعی ان کا یہ نستعلیقی نام ہے۔
اب جیسے ہم ہتک کہنے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہوئے انسلٹ کا مہذب لفظ استعمال کرتے ہیں۔ سوسائٹی ہمیں دور پھینک دے، اگر بجائے انسلٹ کے ہتک کہہ دیں۔
اگر ہمیں انگریزی کی ’’شدبد‘‘ نہ ہو تو،نہ سہی لیکن بول چال میں یہ ظاہر کرنے کی انتہائی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم بڑے انگریزی داں ہیں۔ یہ سب ہماری اپنی کمزوری اور مرعوبیت ہے جس کو ہم آئے دن خود بھی محسوس کرتے ہیں مگر غیرت کا یہ عالم ہے کہ شرماتے بھی نہیں۔
یوں بھی ہمیں اپنی کون سے چیز پسند ہے؟ نہ اپنی زبان میں بات چیت کرنے کو ہم اچھا سمجھتے ہیں، نہ اپنی تہذیب، نہ اپنا تمدن، جس پر ہم کو صدیوں سے ناز تھا، نہ اپنے نام اور نہ اپنے لقب اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ غرض ہماری کل کل میں بناوٹ آگئی ہے۔ مسٹر سے ہم بہت خوش جناب یا مولانا کہنے سے منہ بن جاتا ہے۔اہلیہ نہال صاحب کہہ دیا تو پیشانی پر بل پڑگئے، مسز نہال کہا تو خوش۔ ’’کہیں لنچ پر جانا ہے‘‘ کہتے ہوئے بڑا فخر محسوس ہوتا ہے۔ ’’کہیں دوپہر کے کھانے پر بلایا ہے‘‘ یا ’’کہیں ظہرانے پر جارہے ہیں‘‘ کہہ دیں تو شرم آتی ہے۔ السلام علیکم کہنے میں سبکی سی محسوس ہوتی ہے۔ ’’ہیلو‘‘، ’’ہاؤ ڈو یو ڈو‘‘ پر جان جاتی ہے۔ خواہ بولتے وقت زبان تین چار قلابازیاں ہی کیوں نہ کھائے۔ غرض یہ اور ایسی بہت سی خرافات ہیں جن کا گنوانا بھی تضیع اوقات ہی سمجھئے۔
اب سنئے یہ ’’ایٹی کیٹ‘‘ کیا بلا ہے۔ معمولی سے باتیں ہیں لیکن محسوس کرتے ہوئے غیر معمولی اور اہم بن جاتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ ان کو زیادہ اہمیت نہ دیں، لیکن حساس دلوں کا ان کی زد میں آکر خون ہوجاتا ہے۔ کسی کی جان گئی آپ کی ادا ٹھہری۔
اب دیکھئے نا کسی کا ہینڈ بیگ یا بٹوہ کھول کر آپ بڑی بے تکلفی سے دیکھنے لگتی ہیں۔ یہ حرکت بھی ایٹی کیٹ کے خلاف ہے۔ اس قسم کے لوگوں کو مہذب سوسائٹی پسند نہیں کرتی۔ اسی طرح کسی کا خط بغیر اجازت پڑھنا وغیرہ وغیرہ کیا یہ ذرا ذرا سی باتیں بھی آپ کو سمجھانے کی ضرورت ہے؟ اگر واقعی ہے تو بڑے افسوس کی بات ہے۔
وقت کی پابندی میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ لین دین کے خوب کھرے ہیں۔ کسی کی چیز ضرورت پڑنے پر مستعار لے کر وعدہ پر واپس کرنا یہ ہمیں ابھی سو برس تک بھی نہ آئے گا۔ چندہ وصول کرنے والے کو بیسیوں ہی پھیرے کرنے ہوں گے جب کہیں بعد از خرابیٔ بسیار چندہ ملے گا۔
محفل میں غیر ضروری باتیں، کسی تیسرے کا ذکر، کسی پر فقرہ، کسی پر پھبتی، بے معنی ولا یعنی بکواس، کانا پھوسی، غیبت، اِن کے اُن کے تذکرے، علم مجلسی سے قطعاً بیگانگی، بالآخر سننے والا اکتا جائے گا اور آپ کی صحبت سے اپنی اکتاہٹ کا اظہار کرے گا۔ یہ سب ایٹی کیٹ کے خلاف ہیں مگر پتہ نہیں ان ساری بیماریوں کو لیے ہوئے ہم جی کیوں رہے ہیں؟ اور کب تک یہ مہا روگ ہمارے جان و تن کو چمٹا رہے گا۔
ہم میں بے شمار عیوب کیوں نہ ہوں اور ہماری اپنی زندگی کتنی ہی گھناؤنی کیوں نہ ہو، لیکن ہم دوسروں کی عیب جوئی ضرور کریں گے۔ بھئی ہماری تو وہی مثل ہوئی، اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا، مگر دوسرے کی آنکھ کا تنکا ضرور کھٹکے گا۔ اب کسی کو صبرِ ایوب ؑ ہی ملا ہو تو وہ ایسی صحبت سے نہ اکتائے گا۔ ایسی صحبت واقعی انسان کے صبر کی آزمائش کی بہت ہی کٹھن گھڑی ہوتی ہے۔
کیا ہمارا تمول، ہماری پوزیشن، ہمارا ٹھاٹھ باٹ، ہمارے لباس کی رنگینیاں ان سے لپٹی ہوئی خوشبو، کیا یہ ان برائیوں کو چھپالیں گے جو ہمارے اندر عام ہیں؟ یہ آپ ہی سوچئے مجھے نہیں معلوم۔
پہلے تو صرف چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا تھا، لیکن چاروں طرف نور ہوا کرتا تھا۔ اب اس برقی دور میں بجلی کے یہ مادی قمقمے نور سے خالی ہوگئے ہیں۔ بجلی کے چراغ کو دیکھ کر اکبر نے ایک مرتبہ کہا تھا :
روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے!!
اتنی ٹھنڈی شمع کہ ایک پروانہ بھی نہ جلے۔ بٹن دبانے سے سلگ اٹھنے والی روشنی، یہ مہذب دنیا کی سلگائی ہوئی روشنی، ہمارے قلوب کی تاریکیوں کو کیونکر دور کرسکتی ہے۔ مریض کا لباس اس کے گہرے زخموں کی ٹیسوں کو کیسیختم کرسکتا ہے۔
ایک فرانسیسی ناول نویس کہتا ہے: ’’اصلی بہشت وہ ہے جسے ہم کھوچکے۔‘‘
ہم اپنے گول کمرے یا ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اپنے دکھی بھائی بہنوں پر مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ چائے یا کافی کا گھونٹ پی پی کر ان کی زندگی پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں لیکن کوئی مستحق آپ کے دروازے پر آئے تو صاف انکار یا بہت زیادہ مہذب ہوئے تو معذرت کا اظہار – چلو قصہ پاک ہوا۔
اپنا کوئی غریب عزیز ہے تو محفل میں اس سے چار آنکھیں کرتے ہوئے آپ کو حجاب سا محسوس ہوگا کہ کہیں آپ کے مہذب دوست احباب آپ کو بھی اس جیسا نہ سمجھ لیں،اور آپ کے لیے یہ بات تو خلاف ایٹی کیٹ ہے کہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے کوئی عورت آپ کے قریب آکر بیٹھے کیوںکہ آپ کے جگمگ کرتے لباس اور اس سے پھیلتی ہوئی سینٹ کی خوشبو ضرور اس کی قربت سے متاثر ہوگی۔ بہتر تو یہ ہے کہ ایسے وقت کترا کر نکل جاؤ۔ جب سوال ہوگا دیکھا جائے گا۔ یہ بات بنانے کے ڈھنگ ہم کو یاد ہیں، اگر کوئی واقعی اپنی غیرت بالائے طاق رکھ کر آپ کا ایسے وقت پر پیچھا بھی کرے، تو آپ بڑی ترشروئی سے پیش آئیں گی، روکھے پن سے اس کی باتوں کا جواب دیں گی۔ اور اس پر بھی وہ نہ ٹلے تو عاجز آکر آپ وہاں سے بڑی خوبصورتی سے ٹل جائیں گی، کیونکہ وہ غریب آپ کے برابر کی نہیں رہی۔ امتدادِ زمانہ نے اس کا سکھ چین لوٹ لیا ہے، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایسوں کو منھ لگایا جائے۔ فلاں صاحب کی بیگم دیکھ لیں کہ ایسی صحبت ہے تو پھر وہ منھ بھی نہ لگائیں مجھے۔
ایٹی کیٹ کے خلاف تو اور بہت سی باتیں ہیں جو کہنے کو رہ گئیں۔ بغیر بلائے کہیں پہنچ جانا، کسی کے آرام میں خلل ڈالنا، محفل میں جہاں اتفاق سے دوچار ہی لوگ ہیں، کسی ایک مخصوص شخص سے ہی متوجہ رہنا، اور دوسروں کو نظر انداز کردینا، جہاں دو آدمی بات کررہے ہوں، بیچ میں مداخلت کرنا، بھری محفل میں اونچی آواز سے بات کرنا کہ سب لوگ ادھر دیکھنے پر مجبور ہوجائیں، یہ کوئی شان کی بات نہیں۔ اس طرح اپنی سبکی ہوتی ہے۔ بار بار اپنے خوبصورت لباس کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھنا اور جیسے ہی کسی نے پوچھ لیا کہ ’’بہن اتنی خوبصورت ساڑھی آپ نے کہاں سے خریدی؟‘‘ بس ریکارڈ کو کسی نے چلادیا۔ اس ایک سوال کے جواب میں انکساری اور عاجزی کے ساتھ ایک معقول جواب آپ دے دیں تو کوئی بات نہیں۔ آخر کسی کے سوال کو تشنہ رکھنا بھی تو ایٹی کیٹ کے خلاف ہے، لیکن اس کے یہ معنی تو نہیں ہوتے کہ آپ اس معمولی سی بات کا بتنگڑ بنالیں اور اپنی ساڑی کی شان میںایک کے بعد ایک قصیدہ پڑھنے لگ جائیں۔
یہ نصیحت نہیں ہے، بلکہ آئے دن کی روز مرہ کی باتیں ہیں اس لیے کڑوی تو نہ لگنی چاہئیں، تاہم یہ باتیں اگر آپ کو کڑوی کڑوی معلوم ہورہی ہیں تو اس کو پڑھنے کے بعد تھورا سا میٹھا کھا لیجیے شاید ذائقہ سدھر جائے۔