ہیلن ایک امریکی صحافی خاتون ہے۔ اس کی صحافت سے دلچسپی اور صحافتی شہرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس خاتون کا تقریباً ڈھائی سو اخبارات اور رسائل سے صحافتی تعلق ہے اس کا کوئی نہ کوئی اہم مضمون ہر روز اخبارات اور رسائل میں ضرور چھپتا ہے اور کروڑوں شائقین روزانہ عزت و احترام کے ساتھ ان مضامین کو پڑھتے ہیں۔ اس نامور خاتون کا آجکل مشغلہ ہے ۲۰ برس سے کم عمر کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی مشکلات پر غور و فکر کرنا اور ان کا حل اور علاج تلاش کرنا۔ اسی سلسلہ کے مطالعہ اور تحقیق کے لیے اس نے دنیا کے اکثر ممالک کا سفر کیا ہے اور وہاں قیام کر کے وہاں کے نوجوانوں کے حالات کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہے۔ یہ امریکن جرنلسٹ خاتون عرب ممالک بھی گئی اس نے وہاں دیکھا کہ:’’مرد و زن کا اختلاط عام نہیں ہے بلکہ پردہ اور حجاب پایا جاتا ہے۔‘‘
اس سے متاثر ہوکر اس نے وہاں کے عوام کے سامنے اپنے تاثرات پیش کیے جو حسب ذیل ہیں:
’’عرب عوام کی سوسائٹی ایک صحت مند سوسائٹی ہے۔ اس کے معاشرتی اور سماجی اصول اتنے مناسب اور معقول ہیں کہ اسے ہر نوجوان لڑکے اور لڑکی کو قبول کرلینا چاہیے۔‘‘
یہ بات امریکہ اور تمام یورپین سوسائٹی میں موجود نہیں، وہاں مرد عورت کو آزادانہ میل جول کی عام اجازت ہے۔ عورت پر کوئی پابندی نہیں ہے اسی طریقہ سے ماں باپ کا احترام بھی ناپید ہوگیا ہے، جس کے نتیجہ میں تمام اخلاقی قدریں ختم ہوگئی ہیں، اور ہر قسم کی بے حیائی عام ہوگئی ہے۔ تہذیب و تمدن کی آڑ میں معاشرہ ایک زبردست ہیجان اور انتشار کا شکار ہوگیا ہے۔ اے عرب مسلمان قوم! تمہارے یہاں عورت پر ایک حد تک پابندی ہے۔ احترام والدین ضروری ہے اور معاشرتی قوانین اتنی بہترین بنیادوں پر وضع کیے گئے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ صالح معاشرہ وجود میں آئے گا ، اخلاقی قدریں نشو و نما پائیں گی، ہر صنف کو اس کا لازمی حق اور صحیح احترام ملے گا۔
اس لیے میں تم کو نصیحت کرتی ہوں کہ اپنے مذہبی اور معاشرتی قوانین کو گلے سے لگائے رکھو، اسی پر عمل کرو۔ پردے کو نہ صرف باقی رکھو بلکہ اس کو اور رواج دو۔ عورت کی بے جا آزادی پر پابندی باقی رکھو۔ مرد و زن کا بے جا اختلاط جو امریکہ اور یورپ سے چلا ہے اپنے معاشرہ کو اس سے پاک رکھو۔ یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر اس کو چھوڑ کر یورپ کی اندھی تقلید میں اسلامی معاشرتی قوانین ختم کردوگے۔ عورت کو من مانی آزادی دے دو گے تو اخلاقی، روحانی قدریں پامال ہوجائیں گی، اور تمہارا معاشرہ بھی اسی طرح انحطاط اور انتشار سے دو چار ہوجائے گا جیسا کہ مغربی دنیا کا حال ہے۔lll