کافی پہلے کی بات ہے میں بذریعہ ریل برمنگھم سے ایڈنبرا جا رہا تھا۔ راستے میں غسل خانہ استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ میں وہاں پہنچا تو دیکھا ایک انگریز خاتون پہلے سے انتظار میں کھڑی ہے ۔ اندازہ ہوا کہ غسل خانہ خالی نہیں چنانچہ قریبی نشست پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔
جب کچھ دیر گزر گئی تو اچانک غسل خانے کے دروازے پر میری نگاہ پڑی نصب تختی پر ویکنٹ (Vaccant) لکھا تھا یعنی غسل خانہ خالی تھا۔ اس کے باوجود وہ خاتون بدستور دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ مجھے لگا کہ شاید اسے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے۔ میں نے قریب جا کر کہا:’’غسل خانہ تو خالی ہے اگر آپ اندر جانا چاہیں توچلی جائیے۔‘‘
اس نے جواب دیا:’’در اصل غسل خانے کے اندر میں ہی تھی، لیکن جب فارغ ہوئی، تو ریل پلیٹ فارم پر رک گئی اور میں پانی نہیں بہا سکی کیونکہ جب گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہو تو پانی بہانا مناسب نہیں ۔ اب میں باہر آکر اس انتظار میں ہوں کہ گاڑی چلے، تو میں اندر جا کر پانی بہا دوں پھر اپنی نشست پر جاؤں گی۔‘‘
یہ بظاہر ایک معمولی واقعہ ہے لیکن میرے ذہن پر گہرا نقش چھوڑ گیا۔ وہ ایک انگریز خاتون تھی اور بظاہر غیر مسلم، لیکن اس نے جو طرز عمل اختیار کیا وہی دراصل اسلام کی تعلیم ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک صاحب سے یہ غلطی سرزد ہوئی کہ وہ غسل خانہ استعمال کرنے کے بعد پانی بہائے بغیر آگئے۔ میرے والد ماجد ( حضرت مولانا مفتی محمد شفیع) نے اس پر انہیں سخت تنبیہ کی اور فرمایا: ’’ایسا کرنا سخت گناہ ہے کیونکہ گندگی سے بعد میں آنے والے شخص کو تکلیف ہوگی اور کسی کو بھی تکلیف پہنچانا گناہ ہے۔‘‘
دوسری طرف جب گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہوئی، تو غسل خانے کا استعمال یا پانی بہانا ریلوے قواعد کے تحت اس لیے منع ہے کہ نتیجے میں ریلوے اسٹیشن کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ پلیٹ فارم پر کھڑے لوگوں کو پٹڑی پر پڑی گندگی سے ذہنی کوفت ہوتی ہے نیز وہ بیماریاں پھیلنے کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ اس خاتون نے بیک وقت دو باتوں کا خیال رکھا کھڑی ریل میں پانی بہانا گوارا نہ کیا اور پانی بہائے بغیر نشست پربیٹھنا بھی پسند نہیں کیا تا کہ کوئی دوسرا تکلیف نہ اٹھائے۔
ہم مسلمان ہیں اور ہماری دینی تعلیم کا آغاز ہی طہارت سے ہوتا ہے جسے آںحضرتؐ نے ایمان کا نصف حصہ قرار دیا ہے۔ آپ نے ہر اس کام سے منع فرمایا ہے جس سے کسی دوسرے کو تکلیف پہنچے، لیکن یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہمارے مشترکہ غسل خانے، خواہ ریل میں ہوں یا جہاز میں، بازار میں ہوں یا مساجد میں، درس گاہوں میں ہوں یا شفاخانوں میں ہر جگہ عموماً گندگی کے ایسے مراکز بن چکے ہیں کہ ان کے قریب سے گزرنا مشکل ہے۔ جب تک شدید ضرورت نہ ہو کسی سلیم الطبع شخص کے لیے ان کا استعمال شدید آزمائش سے کم نہیں۔ اس خرابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے معاملات زندگی میں دینی تعلیمات بالکل نظر انداز کر رکھی ہیں۔ ان مقامات پر گندگی پھیلانے کے بعد ہمیں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ ہم اذیت رسانی کے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں جس کا ہمیں جواب دینا پڑے گا۔
آنحضرتؐ کا ایک ارشاد اتنا مشہور ہے کہ بہت سے مسلمانوں کو معلوم ہے۔ آپؐ نے فرمایا:’’ ایمان کے ستر سے بھی زیادہ شعبے ہیں اور ان میں ادنیٰ ترین شعبہ یہ ہے کہ راستے سے گندگی یا تکلیف دہ شے دور کر دی جائے۔‘‘ اس ارشادِ نبویؐ کی روشنی میں مومن کا کام یہ ہے کہ اگر کسی دوسرے شخص نے کوئی گندگی پھیلا دی اور اندیشہ ہے کہ لوگوں کو اس سے تکلیف پہنچے گی تو وہ خود اسے دور کر دے نہ کہ خود گندگی پھیلاتا پھرے۔ اگر گندگی دور کرنا ایمان کا شعبہ ہے، تو گندگی پھیلانا کس چیز کا شعبہ ہوگا ؟ ظاہر ہے بے ایمانی یا کفر و فسق کا؟ لیکن ہم نے اپنے عمل سے کچھ ایسا تاثر دے رکھا ہے کہ صفائی ستھرائی در حقیقت ہمارا نہیں بلکہ غیر مسلم مغربی اقوام کا شعار ہے۔
مجھے اپنے والد ماجد کا سنایا ہوا ایک لطیفہ یاد آ گیا، انھوں نے ایک بار فرمایا کہ ہندوستان میں ایک انگریز مسلمان ہو گیا۔ وہ پانچ وقت کی نماز پڑھنے مسجد جانے لگا۔ جب بھی وضو خانے کی ضرورت پیش آتی، تو یہ دیکھ کر اس کا دل کڑھتا کہ نالیوں میں گندگی پڑی ہوتی اور کناروں پر کائی جمی رہتی ہے۔ مزید یہ کہ لوگ ان میں گندگی ڈالنے سے پر ہیز نہیںکرتے اور نہ ہی صفائی کا کوئی انتظام ہے۔
آخر ایک روز اس نے طے کیا کہ عبادت گاہ کو صاف رکھنا چونکہ بڑے ثواب کا کام ہے لہٰذا وہ خود ہی یہ خدمت انجام دے گا۔ چنانچہ وہ کہیں سے جھاڑو لا کر ہاتھ سے نالیاں صاف کرنے لگا۔ معقول مسلمانوں نے یقیناً اس عمل کی قدر کی ہوگی لیکن محلے کے ایک صاحب نے اس پر تبصرہ کرتےہوئے فرمایا:
’’یہ انگریز مسلمان ہوگیا لیکن اس کے دماغ سے انگریزیت کی خو بو نہیں گئی۔‘‘
جن صاحب نے یہ افسوس ناک تبصرہ کیا، انہوں نے صریح لفظوں میں یہ بات کہہ دی، لیکن اگر ہمارے مجموعی طرز عمل کا جائزہ لیا جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے صفائی ستھرائی کو انگریزیت کی خو بو قرار دے رکھا ہے۔ حالانکہ اسلام نے جس کے ہم نام لیوا ہیں، صفائی ستھرائی سے بھی آگے بڑھ کر طہارت کا وہ تصور پیش کیا جو ظاہری صفائی سے کہیں بلند و برتر ہے۔ وہ جسم کے ساتھ ساتھ روح کی پاکیزگی کے طریقے بھی سکھاتا ہے جن سے بیشتر غیر اسلامی اقوام محروم ہیں ۔
مغربی اقوام کا سارا زور اسی ظاہری صفائی پر ہے جو دوسرے کو نظر آئے ذاتی اور اندرونی صفائی جس کا نام طہارت ہے اس کا کوئی تصور نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلام نے ہمیں ظاہری صفائی ستھرائی (نظافت ) کے ساتھ طہارت (پاکی) کے بھی مفصل احکام دیئے ہیں، اس لیے اسلام میں صفائی کا تصور زیادہ جامع ہمہ گیر اور بلند و برتر ہے۔ رسول پاک ؐ کا ارشاد ’’پاکی و صفائی (طہارت) آدھا ایمان ہے۔‘‘ سے اس کی دینی اہمیت بھی واضح ہوجاتی ہے۔
اسلام کو طہارت مطلوب ہے اور نظافت بھی۔ طہارت کا مقصد یہ ہے کہ انسان بذات خود پاک صاف رہے اور نظافت کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی گندگی سے دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنے۔
آنحضرتؐ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی زیادہ کشادہ نہیں تھی۔ عموماً صحابہ کرام مزدور پیشہ تھے اور موٹے کپڑے پہنتے تھے۔ گرمی کے موسم میں جب پسینہ آتا تو کپڑے تر ہو جاتے ۔ نماز جمعہ کے اجتماع میں پسینے کی وجہ سے بو پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا اس لیے حضور اکرمؐ نے صحابہ کرام کو تا کید فرمائی که بروز جمعه بعد ازغسل حتی الامکان صاف کپڑے پہن اور خوشبو لگا کر مسجد آیا کریں۔
ظاہر ہے طہارت کا کم سے کم تقاضا یوں بھی پورا ہوسکتا تھا کہ لوگ وضو کر کے آجایا کریں اور ان کے کپڑے ظاہری نجاست سے پاک ہوں، لیکن آنحضورؐ نے اسی پر اکتفا کرنے کے بجائے نظافت کی اہمیت مذکورہ بالا احکام سے سمجھائی تا کہ کوئی شخص دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنے۔
اس چھوٹی سی مثال سے واضح ہے کہ طہارت کے ساتھ ساتھ نظافت بھی اسلام میں مطلوب ہے اور کوئی بھی ایسا اقدام جائز نہیں جس کی وجہ سے ماحول میں گندگی پھیلے۔ یہ ہر شخص کی ایسی ذمے داری ہے جس کی ادائی کے لیے بنیادی ضرورت توجہ کی ہے۔ یہ توجہ پیدا ہو جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے ماحول صاف ستھرا ہو جاتا ہے۔
(مرسلہ: ڈاکٹر اقبال احمد ریاض، وانم باڑی
اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ)