ایک بچے کی کیس اسٹڈی

ڈاکٹر مس اقبال ڈار

حمید کی عمر آٹھ سال ہے اور اسکول میں فرسٹ گریڈ میں پڑھتا ہے۔ اس کی استانی کہتی ہے کہ وہ بے چین رہتا ہے اور اسکول کے کام میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا۔ سارے مضامین میں کمزور ہے اور اپنا بیشتر وقت دوسروں کو تنگ کرنے میں گزارتا ہے۔ جب میں آ جاؤں تو بڑا مسکین بن جاتا ہے لیکن جونہی تنہا ہولڑ نے جھگڑ نے پرتل جا تا ہے ۔‘‘
’’حمید کھیلنے کودنے کو پسند کرتا ہے ۔ وہ ہمیشہ کھیلوں میں پیش پیش رہنا چاہتا ہے۔ وہ دوسروں پر غلبہ چاہتا ہے اور جو اس کی بات نہ مانے ان کو پیٹتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہے اور ان میں ہر دل عزیزنہیں ہے۔‘‘
اس پر میں نے ہیڈمسٹرس سے حمید کے متعلق کئی سوالات پوچھے :
’’فرسٹ گریڈ کے دوسرے بچوں کے مقابلے میں اس کی عمر کتنی ہے؟ اس کی گھریلوزندگی کے بارے میں آپ کو کتنا علم ہے؟ اگر وہ کسی بات کو سیکھنا چاہتا ہے تو وہ کیا ہے؟ کیا آپ نے اس کی عام صحت کے متعلق کسی ڈاکٹر سے مشورہ کیا ہے؟‘‘
چونکہ ہیڈ مسٹرس صاحبہ حمید کے عام رویے کے متعلق کچھ نہ بتاسکیں اس لئے کلینک کے ایک سوشل ورکر کے ذمے یہ کام لگا دیا گیا کہ وہ اس کے سکول اور گھر سے اس کے متعلق مزید معلومات حاصل کرے۔ اس کے والد سے ملاقات کے بعد اس آدمی نے بچے کی گھر یلوزندگی کے متعلق جو رپورٹ دی وہ حسب ذیل ہے:
’’حمید کے والد صاحب ایک پڑھے لکھے آدمی ہیں اور نفسیات سے کچھ واقف ہیں ۔ وہ ایک متوسط درجے کے رہائشی رقبے میں رہائش پذیر ہیں اور لڑ کے کی بیشتر ضروریات کو پورا کرنے کامقدور رکھتے ہیں ۔ حمید چارلڑ کیوں میں واحد لڑ کا ہے ۔ وہ والدین کا دوسرا بچہ ہے ۔ اس کا والد اسے مناسب اہمیت دیتا۔حمید اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ وہ سارے خاندان میں واحد لڑ کا ہے۔ وہ اپنی بہنوں تک سے یہ کہتا ہے کہ میری مناسب عزت کرو اور ان سب کو پیٹتا ہے ۔ عام طور پر سچ بولتا ہے۔ اگر وہ کسی کو پیٹے تو بے تکلف اس کا اعتراف کر لیتا ہے ۔ لیکن وہ اپنے سکول کے کام کے متعلق جھوٹ بولتا ہے۔اس کا دادا از حد لاڈ پیار کر کے اسے بگاڑ تا ہے اور عام طور پر اسے تحائف خرید کر دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ حمید نت نئے تقاضے کرنے والاننھا مطلق العنان بن رہا ہے ۔ جونہی کسی دوست کے پاس یا کسی دوکان پر وہ کوئی نیا کھلوناد یکھتا ہے تو اس کے لینے پر اصرار کرتا ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک اسے حاصل نہ کر لے۔ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی چاہتا ہے کہ اس کے جملہ مطالبات پورے کئے جائیں۔ وہ اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اس کی کسی بات سے انکار کیا جائے یا اسے پورا کر نے میں دیر کی جائے ۔
’’حمید کے والد کو شکایت ہے کہ سکول میں بچے پر بہت زیادہ بوجھ ڈالا جا تا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ لڑکے سے بہت زیادہ مضامین پڑھنے کا مطالبہ کیا جا تا ہے۔ جو اسے الجھن میں ڈال دیتے ہیں ۔اس نے سوشل ورکر سے سکول کے بھاری نصاب تعلیم کے متعلق رائے طلب کی۔ ورکر نے اسکول کے پروگرام پر رائے زنی کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اس سے پوری طرح واقف نہ تھا۔‘‘
ور کر نے پھر حمید کی استانی سے ملاقات کی۔ اس نے مندرجہ ذیل رپورٹ کی :
’’بچہ بہت لا پرواہ ہے۔ وہ اپنا گھر کا کام نہیں کرتا ۔ ذمہ داری سے گریز کرتا ہے، اس کے والدین کو اس کے سکول کے کام میں زیادہ دلچسپی لینی چاہئے۔‘‘
حمیداپنے اسکول کے امتحانات میں دو کے سواتمام مضامین میں فیل ہو گیا۔ اس نے دستی کام اور حساب میں قابلیت دکھائی ۔ وہ بیرونی کھیلوں سے محظوظ ہوتا رہالیکن دوسرے بچوں کا ساتھ نہ دے سکا۔ جب سوشل ورکر نے حمید کی صحت کے ریکارڈ کی نسبت دریافت کیا تو استانی کہنے لگی کہ سکول کے ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا تھا اوراسے جسمانی طور پر تندرست پایا تھا۔
سوشل ورکر کی فراہم کردہ معلومات اس کیس کی تفتیش کے سلسلے میں از حد مفید ہیں لیکن یہ مشکلات کے منبع کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے کافی نہیں ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ معلوم کر نے کے لئے کہ بچے کس طرح سوچتے ہیں اور اپنے متعلق اور دوسروں کے متعلق کیا محسوس کرتے ہیں ٹیسٹ لئے جائیں۔ان امتحانات سے ہر بچے کی ان خصوصیات کو سمجھنے میں مددملتی ہے کہ مختلف حالات میں اس کا رد عمل کیا ہوتا ہے اور مدد ملنے سے وہ کس طرح فائدہ حاصل کرتا ہے۔ سائیکومیٹرسٹ (Psychometrist) واحد شخص ہے جو ایسی سائنٹفک معلومات بہم پہنچا سکتا ہے جوایک بچے کے مسائل کی موزوں تفتیش کے لئے ضروری ہیں ۔
چونکہ کلینک میں کوئی تربیت یافتہ سائیکومیٹرسٹ (Psychometrist) موجود نہیں ہے اس لئے میں نے حمید کے چند ٹیسٹ لینے کا انتظام کیا، سب سے پہلے اس کا’ورلڈ ٹیسٹ‘‘لیا گیا۔ اس ٹیسٹ میں ایک نیا بیکس شامل ہے جس میں ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی اشیاء موجود ہوتی ہیں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں ۔ میں نے یہ بکس حمید کے سامنے رکھا اور چھوٹی چھوٹی اشیاء کواٹھا کر حمید سے کہا: ’’دیکھو یہ ایک ہاتھی ہے، اور یہ ایک موٹر ہے ۔ وہ ایک مکان ہے اور یہ ایک درخت۔ یہ دیکھو دریا ہے اور مگرمچھ بھی ہے ۔‘‘
حمید رنگ برنگے کھلونوں سے مسحور ہو گیا اور انہیں بکس میں سے نکالنے لگا۔ تب میں نے اسے کہا کہ وہ اپنی ایک چھوٹی سی دنیا آ راستہ کر ے ۔آدھ گھنٹے کے بعد اس نے اپنی ساری دنیا سجا کر رکھ دی۔ حیوانات کو ایک طرف کھڑا کیا گیا تھا، اور مکانات ،سڑکیں اور موٹر دوسری طرف۔ اس سے پوچھا گیا ’’یہ تم نے کیا بنایا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’انسانوں اور حیوانوں میں جنگ ہونے والی ہے ۔ وحشی حیوان سڑکوں پر دیوانہ وار دوڑ یں گے اور لوگوں کو مار ڈالیں گے ۔‘‘
’’ورلڈٹیسٹ‘‘ ایک سادہ انعکاسی تکنیک ہے جن میں اس حقیقت کوملحو ظ رکھا جا تا ہے کہ لوگ چیزیں بنانے کا شوق رکھتے ہیں اور ان کی بنائی ہوئی چیزیں ان کی شخصیت کا اظہار کرتی ہیں ۔ یہ ٹیسٹ، گوامر یکی بچوں کے لئے تیار کیا گیا ہے لیکن آسانی سے ہمارے اپنے بچوں کے لئے اختیار کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ ثقافتی تعصب سے تقریبا پاک ہے ۔اشیاء کی ترتیب کے دیکھنے اور حمید کے جواب سے مجھے اس کا مسئلہ سلجھانے کے لئے بصیرت مل گئی۔
اس کے بعد میں نے اس کاPre-primary California Test of Mental Maturity لیا، گو یہ بھی ایک امریکی ٹیسٹ ہے، اسے اپنی ضرورت کے مطابق اپنالیا گیا ہے۔ اس کا اردو میں ترجمہ کر دیا گیا ہے اور اس ٹیسٹ کے لئے نئے نمونے بنائے گئے ہیں۔ ان نئے نمونوں کے مطابق حمید کا نتیجہ خراب نکلا ۔ اس کا I.Q goodenough Man Drawing Test میں بھی اس کی رفتار اوسط سے کم تھی The goodenough Intelligence Scale قابلیت کی پیمائش کا ایک آسان آلہ ہے۔ اس میں بچہ ایک آدمی کی تصویر بنا تا ہے جس کو تیزی اور آسانی سے بنایا جا تا ہے ۔اس کے بعد دوسرا قدم یہ اٹھایا گیا کہ اس مسئلہ پر سوشل ورکر اور ماہر نفسیات کی معلومات کی روشنی میں غور کیا جائے۔ ہم نے مسئلہ کی تفتیش کرنے ،ضروری تدبیر تجویز کرنے اور مئوثر علاج دریافت کرنے کے لئے آپس میں مشورہ کیا۔ مسئلہ کے گہرے مطالعے کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ مسئلے کو مزید سمجھنے اور مشکل کے حل کے لئے حمید کوکلینک میں Play Therapy( کھیل کود کے ذریعے علاج) کے لئے ضرور آ نا چاہئے ۔
Play Therapy میں بچے کو شدت ، نا کامی ، بغاوت ، عدم تحفظ اور پریشانی کے جذبات کے اظہار کا ایک موقعہ دیا جا تا ہے ۔ان جذبات کے اظہار سے وہ انہیں عام سطح پر لے آ تا ہے، ان کا مقابلہ کرتا ہے، ان پر قابو پانا سیکھتا ہے یا انہیں ترک کر دیتا ہے ۔کھیل کے سیشن میں وہ ایک فرد ہونے کا حق رکھتا ہے ۔ وہ کھلونوں سے جس طرح چاہے کھیل سکتا ہے اور وہ اس میں مطلق العنان ہوتا ہے۔
حمید کے والد نے کلینک کے ساتھ پورا تعاون کیا اور اپنے بیٹے کو کھیل کے سیشن میں بھیجنے پر رضامند ہو گیا۔ وہ خودحمید کو پہلے سیشن میں لایا۔ میں نے حمید کو سنبھال لیا اور اسے کھیل کے کمرے میں لے گئی جہاں اس نے ایک سپرنگ منتخب کیا۔ اس نے اسے کھینچا اور پھر اسے اس کی اصلی حالت میں آنے کے لئے چھوڑ دیا۔ اس نے یہ عمل کئی بار دہرایا۔ پھر اس نے مٹی سے کھیلنا چاہا میں نے اس سے کہا کہ اپنے مطلب کے رنگ کی مٹی چن لے اور اس نے مختلف رنگوں کی مٹی کے ٹکڑے منتخب کئے، اس نے اپنی پوری قوت سے ٹکڑوں کو پیس ڈالا اور مٹی کو بھونڈی گیندوں کی شکل میں ڈھال دیا۔ یکا یک وہ اپنی نشست سے اٹھا، کمرے میں ایک ننھی سی لڑکی کے پاس پہنچا اوراس کے بنائے ہوئے تمام ننھے منے کھلونے توڑ ڈالے۔
سیشن کے اختتام پر میں نے اس سے باتیں کیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں نے ایک گیند اپنے والد کے لئے بنائی تھی اور دوسری اپنی والدہ کے لئے ۔ اس نے کہا کہ میں نے لڑکی کے کھلونے اس لئے توڑے ہیں کہ چیزوں کو تو ڑ نا پھوڑ نا مجھے پسند ہے۔
کھیل کے دوسرے سیشن میں اس نے ایک ٹرک چنا اور اس سے کھیلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ میرے لئے ایک اور ٹرک لایا۔ اس کے اور میرے ٹرک میں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ ظاہر ہے اس کا ٹرک میرے ٹرک سے آگے نکل گیا۔ پھر اس کے ٹرک کی میرے ٹرک کے ساتھ ٹکر ہوگئی۔ یکے بعد دیگرے کئی حادثات ہوئے ۔ ٹرک میں بیٹھے ہوئے سپاہی زخمی ہو گئے ۔ ایک کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور دوسرے کا بازو۔ اس نے تمام سپاہیوں کو اٹھایا اور جنگ کا ایک منظر ترتیب دیا جس میں ان میں سے کئی مارے گئے۔معاً اس نے مجھ سے پوچھا:’’ کیا آپ کے پاس پستول ہے؟‘‘ میں نے کہا:’’نہیں‘‘— اس نے فخریہ اعلان کیا:’’میرے ابا کے پاس ہے ۔ایک دفعہ میں نے اسے سیکھنے کے لئے اٹھایا اور دولڑکوں کو نشانہ بنادیا۔‘‘
جب وہ تیسرے سیشن کے لئے آیا تو مجھے بڑے تپاک سے ملا اور معموں سے کھیلنے کی خواہش کی۔ وہ تصاویر کے کئی ٹکڑوں کوفریموں میں لگانے لگا۔ اس نے اکثر ٹکڑوں کو غلط خانوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی۔ وہ بہت جلد معموں سے کھیلنے سے اکتا گیا۔ پھر اس نے ربڑ کی ایک گیند اٹھائی اورا سے زور زور سے ککس مارنے لگا۔ کلینک کے ایک لڑکے نے حمید سے کہا:’’ایسا نہ ہو کہ کھڑکی کے شیشے ٹوٹ جائیں۔‘‘ حمید پھر بھی ویسا ہی کرتا ر ہالیکن بعد میں جلد ہی باز آ گیا۔
کچھ عرصے کے لئے حمید کلینک میں اپنی ساری سرگرمیوں میں بغاوت کا اظہار کرتا رہا۔ اس نے دوسرے بچوں کو تنگ کیا اور ان کے کھلونے توڑ پھوڑ دیئے ۔اس نے فائر کرنے ، جان سے مار دینے اور نشانہ لگانے کی باتیں کیں، آئندہ سیشن میں وہ پرسکون ہو گیا۔ اس نے بتدریج کھیل کے معالج سے یارا نہ گانٹھا اور رنگ دارمٹی ، سٹرنگ پینٹنگ ،فنگرپینٹنگ اور پتنگ اڑانے میں دلچسپی لینے لگا۔ وہ بڑی ذمہ داری سے گروپ سیشنوں میں دوسرے بچوں کوایزل ، برش ، رنگوں کے ڈبے اور کاغذ پکڑانے لگا۔ اس نے تصویریں صاف کیں ، برش دھوئے اور ہر شے کو قرینے سےرکھا۔
کیس کے ایک مکمل مطالعے کے بعد کلینک کا سارا عملہ اس قابل ہو گیا کہ حمید کے معاملے کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کرے۔ ماہر نفسیات ، سوشل ورکر کھیل کے معالج نے حمید کے والد اور سکول سے مندرجہ ذیل سفارشات کیں:
حمید کا اصل مسئلہ دو ہرا ہے۔ وہ گھر پر بہت زیادہ محفوظ ہے اور اس سے بہت لاڈ پیار کیا جاتا ہے۔ اس سے کسی ذمہ داری کی توقع نہیں کی جاتی ۔ چونکہ گھر میں وہ واحد لڑ کا ہے اس لئے مطلق العنان بن گیا ہے اور اپنی بہنوں کو تنگ کرتا ہے ۔اس کے برعکس سکول میں اس سے بہت کچھ مطالبہ کیا جا تا ہے ۔حمید کی ذہنی قابلیت محدود ہے اور درسی تعلیم کی طرف اس کا بہت کم میلان ہے،لیکن پھر بھی اس سے کئی درسی مضامین پڑھنے کا تقاضا کیا جا تا ہے۔ گھر پر اس کی بالکل مزاحمت نہیں کی جاتی اور اسکول میں حد سے زیادہ بوجھ نے اسے پریشان کر دیا ہے۔اس صورتِ حال سے نپٹنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنے رویے میں باغی ہو گیا ہے۔
استانی کیا کرے؟ استانی کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حمید کو ایک تعلیمی نمونے میں زبردستی ڈھالنا بے کار ہے۔ اسے اس کے بے چین اور پریشان رویے کے لئے سزا نہ دینی چاہئے ۔ استانی کو چاہئے کہ حمید کوعملی کام میں دلچسپی لینے پر ابھارے۔ وہ ایک چست چالاک لڑکا ہے اور اگر اسے اپنی عملی لیاقت کے اظہار کا موقعہ دیا جائے تو وہ ایک اچھی کارگزاری دکھائے گا۔
اُس کے والدین کو سمجھ لینا چاہئے کہ آٹھ سال کے تمام لڑکوں کو گھر کی کوئی نہ کوئی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ حمید چونکہ آٹھ سال کا ہے اس لئے اسے گھر کے کام میں مدددینی چاہئے ۔اگر وہ گھر پر کام کرنا سیکھ لے تو وہ اسکول کے مطالبات پورے کرنے کے قابل بن جائے گا۔اگر اس کے موجودہ طور طریقے جاری رہے تو وہ ایک جابر بن سکتا ہے ۔ لہٰذا والدین کو چاہئے کہ اپنی بہنوں کے ساتھ کھلونوں اور شفقت میں ان کا شریک بننے میں اس کی مددکریں۔
حمید ا پنی مشکل میں ایک دن ، ایک ہفتے یا ایک سال میں مبتلا نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح کلینک کے ماہرین خصوصی ایک دن ، ایک ہفتے یا ایک سال میں اسے اس کی مشکل سے نجات نہ دلا سکے۔ کچھ عرصے تک اسے کام کر نے اور اپنی گتھی سلجھانے کے سلسلے میں مدد دی گئی۔ بہر کیف میں محسوس کرتی ہوں کہ حمید کے کلینک میں آنے کے دن سے لے کر آج تک بہت کی باتیں پایہ تکمیل کو پہنچ گئی ہیں ۔
اُس کی استانی کو یقین ہو گیا ہے کہ وہ اسکول میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے، وہ اپنے رویے پر ذمہ داری محسوس کرنے لگا ہے اور پڑھنے لکھنے میں تھوڑی سی ترقی کرنے لگا ہے ۔اس کے والد ین محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ گھر پر ایک معاون ثابت ہونے لگا ہے اور اپنی بہنوں سے محبت کرناسیکھ رہا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146