کسی جنگل میں ایک بھیڑیا رہتا تھا… بہت ہی خونخوار اور ظالم تھا مگر بظاہر ہمیشہ صلح جو اور امن پسند دکھائی دیتا۔ ہرن اور اس جیسے کمزور جانور بھیڑیے سے محفوظ نہیں تھے، لیکن وہ سب اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے۔ بھیڑیا تھا بھی بہت چالاک اور ہوشیار۔ گزشتہ نصف صدی سے ایک ہی جنگل میں روپ بدل بدل کر وہ رہ رہا تھا اور جنگل کے بادشاہ کی موجودگی میں اس نے ایک الگ بادشاہت قائم کررکھی تھی… بلکہ اکثر شیر، چیتے اور دوسرے خطرناک جانور اس کے دوست بن جاتے اور یوں وہ ان کی دوستی کا بھر پور فائدہ اٹھاتا۔ کمزور جانوروں کی چیر پھاڑ کرتا۔ اپنے تیز اور خون آلود دانتوں سے مجبور و بے بس جانوروں کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتا۔ جب سیر ہوجاتا تو اپنے دوستوں کی تواضع شروع کردیتا جو اکثر اس کے مارے ہوئے شکار کی آس لگائے رکھتے تھے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بھیڑیے کو کوئی شکار نہ ملتا۔ کوئی کمزور اور بزدل جانور اس کے ہاتھ نہ لگتا۔ اس صورت میں وہ اور بھی خونخوار ہوجاتا اور اپنے ہی دوستوں کے گھروں میں جاگھستا اور جو کچھ وہاں سے ملتا چٹ کرجاتا… یہاں تک کہ دوستوں کے بیوی بچے بھی اس کے دندانِ آز سے نہ بچتے۔ یوں وہ نصف صدی سے جنگل کے ہر خوبصورت جاندار کو ہڑپ کرتا چلا آرہا تھا اور کوئی بھی اس کے ظلم اور خونخواری سے محفوظ نہ تھا۔
مگر اب وہ بہت بوڑھا ہوچکا تھا اور اس کے جسم کا گوشت ڈھیلا پڑ کر لٹکنے لگا تھا۔ اس کی ٹانگوں میں وہ پہلے جیسی پھرتی نہ رہی تھی، دانتوں میں وہ کاٹ اور پنجوں میں وہ سکت باقی نہ تھی… اس کے باوجود وہ عادت سے مجبور تھا اور جب تک کسی ہرن کے خون سے اپنے دانتوں کو لذت آشنا نہیں کرلیتا تھا، اسے کسی کل چین نہیں آتا تھا اور وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے نیچ سے نیچ حرکتیں کرنے لگتا… یہاں تک کہ اگر کوئی گیدڑ دور کے کسی گاؤں سے مرغی اٹھا کر لاتا تو وہ بھی اس سے چھین لیتا۔ دراصل اسے اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کرنا پڑتا تھا۔
کرنا خدا کا ایک دن ایسا ہوا کہ اس جنگل سے ایک نوجوان چیتے کا گزر ہوا… اس نے دیکھا کہ جنگل میں تو ایک بوڑھے بھیڑیے کی حکمرانی ہے جو اب بہت کمزور ہوچکا ہے اور بادشاہت کی ذمے داری ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ چنانچہ اس نے اسی جنگل میں ڈیرا لگالیا اور اس انتظار میں بیٹھ گیا کہ آج نہیں تو کل بھیڑیے کو مرجانا ہے… پھر پورے جنگل میں اس کا راج ہوگا… بھیڑیے کو کسی طرح چیتے کی آمد کا پتہ چل گیا… بیشک وہ بوڑھا سہی لیکن اتنا بھی نہیں کہ کل کا بچہ اس کی بادشاہت ہتھیانے کے خواب دیکھنے لگے… بھیڑیے نے فوراً اپنے پرانے دوستوں اور نمک خواروں کی ایک کانفرنس بلائی اور انھیں صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ اس دوران چیتا بھی جنگل میں اپنا اثر و رسوخ خاصا بڑھا چکا تھا۔ نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے اکثر چیتے، شیر باگھ اور دوسرے جانور اس سے تعاون کررہے تھے۔ لہٰذا بھیڑیے کے لیے یہ مشکل تھا کہ چیتے کو زبردستی جنگل سے نکال دے۔ اپنے دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اس نے ایک خطرناک فیصلہ کیا۔ کہنے لگا کیوں نہ جنگل کے اس حصہ کو آگ لگادی جائے جس میں چیتا رہتا ہے۔ اس طرح چیتا بھی مرجائے گا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا… بعد میں حالات سنبھال لیں گے۔
ذرا شریف قسم کے جانوروں نے بھیڑیے کو مشورہ دیا کہ حضور والا صرف ایک چیتے کو ختم کرنے کے لیے پورے جنگل کو آگ لگانے سے فقط جنگل ہی نہیں جلے گا بلکہ اس میں رہنے والے کئی دوسرے معصوم جانور بھی جل مریں گے۔ ہرے بھرے اور سرسبز درخت بھی جل کر راکھ ہوجائیں گے۔ اور ہم جنگل کی گھنی چھاؤں سے محروم ہوجائیں گے جو ہمیں ہر وقت پناہ دیتی ہے، لہٰذا ہمیں کوئی دوسری تجویز سوچنی چاہیے۔ اس دوران وہاںایک بوڑھا شیر آگیا جسے بھیڑیے سے تو کوئی ہمدردی نہیں تھی مگر وہ بھی ایک نوجوان چیتے کی قیادت میں زندہ رہنا پسند نہ کرتا تھا، چنانچہ اس نے مشورہ دیا کہ صورت حال پر مزید غور اور کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لیے بی لومڑی سے مشورہ کرلینا زیادہ بہتر ہے۔
اس تجویز پر بھیڑیا اور اس کے سب دوست متفق ہوگئے اور طے پایا کہ لومڑی کو تلاش کرکے اس سے رائے لی جائے۔ مختلف جانوروں کو لومڑی کی تلاش میں روانہ کیا گیا جو تھوڑے ہی فاصلے پر چھپی بیٹھی یہ سارا تماشا دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنی اہمیت کے یکایک بڑھ جانے پر دل ہی دل میں خوش ہورہی تھی۔ گیدڑ کو اس کے ٹھکانے کا پتہ تھا، لہٰذا وہ فوراً اس کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ لومڑی تو پہلے ہی اس انتظار میں تھی… فوراً ہی گیدڑ کے ساتھ چل پڑی۔ راستے میں گیدڑ نے اسے تمام صورتِ حال سمجھا کر یہ وعدہ لیا کہ کوئی ایسی تجویز دینا جس سے بھیڑیے سے بھی جان چھوٹ جائے اور چیتا بھی جنگل میں نہ رہ سکے۔ اس طرح ہمارا جتھا پورے جنگل پر قبضے کرسکے گا۔
لومڑی کو گیدڑ کی بات بھلی معلوم ہوئی اور وہ بھیڑیے کے دربار میں پہنچ گئی۔ وہاں پہلے ہی دوسرے بڑے بڑے جانور اور بھیڑیے کے نمک خوار موجود تھے۔ لومڑی کے جاتے ہی سب اٹھ کھڑے ہوئے احترام سے اسے بٹھایا اور درپیش صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب تجویز مانگی… لومڑی، جسے پہلی مرتبہ ان بڑے جانوروں نے اہمیت دی تھی، دل ہی دل میں کہنے لگی کہ بیٹا! ٹھیک ہے، تم لوگوں نے ہمیشہ مجھے ایک حقیر جانور سمجھا اور کبھی اپنے پاس نہ پھٹکنے دیا۔ آج سر پر افتاد آن پڑی ہے تو میری یاد آگئی ہے۔ سبھی جانور خاموشی سے اس کی رائے اور فیصلے کو سننے کے لیے مؤدب مگر اندر سے بے چین بیٹھے تھے۔
جب لومڑی نے دیکھا کہ لوہا خوب گرم ہے تو وہ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق کہنے لگی: ’’مجھے بادشاہ سلامت (بھیڑیے) کی تجویز کے ساتھ پورا پورا اتفاق ہے یعنی جنگل کو آگ لگادی جائے۔‘‘
لومڑی کا فیصلہ سنتے ہی بھیڑیے کے لبوں پر ایک فاتحانہ مگر مکروہ مسکراہٹ دوڑ گئی کیونکہ وہ تو پہلے ہی جانتا تھا لومڑی کیا کہنے والی ہے۔ وہ تو بس دوسرے جانوروں کو مطمئن کرنا چاہتا تھا، البتہ وہاں موجود دوسرے بڑے جانوروں کو ایک دھچکا سا لگا۔ وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ دراصل وہ لومڑی سے اس قسم کے جواب کی توقع نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ وہ کوئی مناسب تجویز پیش کرے گی۔ جس سے جنگل بھی بچ جائے گا اور جنگل میں بسنے والے ہزاروں لاکھوں بے ضرر اور معصوم جانور اور سرسبز درخت بھی جلنے سے بچ رہیں گے مگر لومڑی نے کمال کردیا تھا۔ ہر کوئی لومڑی کی چال پر حیران تھا۔ قصہ کوتاہ فیصلہ یہی ہوا کہ جنگل کو آگ لگادی جائے لیکن ابھی یہ طے کرنا باقی تھا کہ آگ کب، کس وقت اور کون سی جگہ لگائی جائے تاکہ چیتا اور اس کے ساتھی کسی صورت بھی بچنے نہ پائیں۔ یہ معاملہ بھی لومڑی پر چھوڑ دیا گیا کہ جب وہ کہے گی، فیصلے پر عمل درآمد کردیا جائے گا۔
ادھر چیتا بھی ہوشیار نکلا اور اسے بھیڑیے کے برے ارادوں کا کسی طرح پتہ چل گیا، لہٰذااس نے اپنے سب ساتھیوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے بھیڑیے اور لومڑی کے خطرناک منصوبوں کی تفصیل بیان کردی۔ سبھی نہایت حیران ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ لومڑی جیسا چالاک اور ہوشیار جانور بھیڑیے کی چالوں میں نہیں آئے گا، مگر اب معاملہ لومڑی کی چال کو سمجھنے کا نہیں بلکہ اپنی جانیں بچانے کا تھا، چنانچہ چیتے اور اس کے سب ساتھیوں نے راتوں رات اپنے ٹھکانے بدل لیے اور خاموشی سے اس جانب چلے گئے جدھر بھیڑیے کی لگائی ہوئی آگ پہنچنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ایک بوڑھا اور کمزور بھیڑیا زندگی کے آخری حصے میں اس قدر ظالم اور سفاک ہو نہیں سکتا، لہٰذا انھوں نے آخری کوشش کے طور پر ایک وفد بھیڑیے کے پاس بھیجا کہ وہ جنگل کو آگ لگانے سے باز آجائے، مگر بھیڑیے کے نادان دوست اور لومڑی اسے اتنا غصہ اور طیش دلا چکے تھے کہ وہ کسی بات پر رضا مند نہ ہوا اور چیتے کے ساتھیوں کی مفاہمانہ کوشش ناکام ہوگئی…
ارکانِ وفد کو واپسی پر دور جنگل کے دوسرے سرے سے آگ کے شعلے بلند ہوتے دکھائی دیے۔ بھیڑیے نے اپنے فیصلے پر عمل درآمد شروع کردیا تھا۔ اس کام کے لیے گیدڑ کو استعمال کیا گیا تھا جو دونوں جانب یکساں ہمدردی ظاہر کرتا تھا، چنانچہ وہ جنگل کو آگ لگانے کے بعد سیدھا چیتے کے پاس پہنچ گیا اور لگا بھیڑیے کی برائیاں کرنے… چیتا اگرچہ خود بھی کچھ کم خونخوار نہیں تھا، مگر وہ جنگل میں راج کرنا چاہتا تھا… وہ ایک شان سے رہنے اور اپنے جیسے دوسرے جانوروں کی حفاظت کا خواہاں تھا۔ وہ گیدڑ کی بک بک سنتا رہا اور اسے کوئی جواب نہ دیا۔
جنگل میں آگ تیزی سے پھیل رہی تھی۔ معصوم اور بے گناہ جاندار جل رہے تھے۔ کچھ جانور بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ اس اثنا میں چیتے کو موقع مل گیا کہ وہ جلنے سے بچ جانے والے تمام جانوروں کی ہمدردیاں حاصل کرلے اور پھر بھیڑیے کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑے۔
لومڑی،جو جنگل کے سرے پر ایک درخت کے نیچے بیٹھی یہ پورا منظر دیکھ رہی تھی، دل ہی دل میں خوش تھی کہ اس نے ایک ہی وار میں دو بڑے دشمنوں کو ختم کرڈالا ہے۔ چیتا اور اس کے ساتھی جل کر مرجائیں گے جبکہ بھیڑیا جو بہت بوڑھا ہوچکا ہے، تھوڑی سی اور حکمرانی کرکے وہ بھی مرجائے گا۔ مگر جب اسے خبر ملی کہ چیتا تو آگ لگنے سے پہلے ہی اپنے ساتھیوں سمیت محفوظ مقام پر چلا گیا تھا تو وہ بہت سٹپٹائی… اس کا وار خالی گیا تھا۔ لیکن وہ تھی بہت ہوشیار… فوراً سنبھل گئی اور افسوس ظاہر کرنے سیدھی چیتے کے پاس پہنچی۔
چیتا لومڑی کی چالبازیوں سے باخبر تھا اور اس پر کسی طور پر بھی اعتماد کرنے کو تیار نہ تھا۔ مگر بھیڑیے کو شکست دینے اور جنگل کو آگ سے بچانے کے لیے ضروری تھا کہ لومڑی کی مکاری اور ہوشیاری سے بچا جائے بلکہ ہوسکے تو اس کی چالاکی سے کام لے کر بھیڑیے کو ٹھکانے لگایا جائے… چنانچہ ساری باتیں جاننے کے باوجود چیتے نے لومڑی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اس کی ہر بات پر یقین کرلیا اور یوں ظاہر کیا جیسے وہ لومڑی کی ساری سابقہ غلطیاں بھول چکا ہے۔ ادھر لومڑی شاید اب اپنے کیے پر تھوڑی سی پریشان تھی، کیونکہ بھیڑیے نے جنگل کو آگ لگاتے وقت اس سے جو وعدے کیے تھے، آگ لگنے کے بعد وہ ان سے پھر گیا تھا، چنانچہ اب لومڑی بھی بھیڑیے کو ٹھکانے لگانے کی حامی بن گئی۔
مگر بھیڑیا آخر بھیڑیا تھا۔ اس نے جنگل پر پچاس برس تک راج کیا تھا۔ وہ آسانی سے کیونکر شکست مان لیتا۔ جب اس نے دیکھا کہ لومڑی تو اب چیتے کے ساتھ مل گئی ہے تو اس نے جنگل کے ان حصوں کو بھی آگ لگوادی جو چیتے کا ٹھکانہ تو نہ تھے لیکن یہ خدشہ تھا کہ خطرے کے وقت چیتا یہاں پناہ لے سکتا ہے۔ بیچارہ چیتا پہلی آگ بھی نہ بجھا پایا تھا کہ جنگل کے دوسرے حصوں سے آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔ گیدڑ جو ہمیشہ ہی آگ لگانے میں پیش پیش رہتا تھا، جب اس کے اپنے بچے جلنے لگے تو انھیں ساتھ لے کر بھاگ کھڑا ہوا اور دور ایک گھاٹی میں جا چھپا جہاں آگ کی تپش پہنچنے کا امکان نہ تھا۔
بوڑھا بھیڑیا اپنے کچھار میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ اسے چیتے کی پریشانی کا علم تھا وہ یہی تو چاہتا تھا کہ چیتا اتنا پریشان ہو… اس قدر تنگ ہوجائے کہ خود ہی جنگل چھوڑ کر چلا جائے، مگر چیتا یوں ہار ماننے والوں میں نہ تھا۔ وہ پہلے ہی بھیڑیے کو ٹھکانے لگانے کی ٹھان چکا تھا اور اب تو اس کو لومڑی کی حمایت بھی حاصل ہوگئی تھی۔ لہٰذا وہ بچے کھچے جنگل کو آگ سے بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرنے لگا۔ جانوروں کی اکثریت اب اس کی طرفدار ہوچکی تھی۔ وہ سب مل کر آگ بجھانا چاہتے تھے مگر بھیڑیا ان کی ہر کوشش رائیگاں بنادیتا تھا۔ وہ ایک جگہ سے آگ بجھاتے تو دوسری جانب آگ بھڑک اٹھتی… لگتا تھا پورا جنگل ہی جل کر راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔ سبھی پرندے، جانور اور دوسرے جاندار جل جائیں گے۔ بچاؤ کی سب کوششیں رائیگاں جائیں گی!
یکایک آسمان پر گھنے سیاہ بادل نمودار ہوئے۔ پہلے بجلی چمکی اور پھر زور زور سے بارش برسنے لگی اتنی بارش برسی کہ جنگل جل تھل ہوگیا۔ ہر طرف پانی ہی پانی۔ آگ جو بجھنے کا نام نہ لیتی تھی، بارش کی تیز بوچھاڑ کے آگے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی۔
بارش اب تھم چکی تھی۔ جنگل میں ہر طرف نکھار سا آگیا تھا۔ چیتا اور لومڑی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جنگل میں ان جگہوں کا معائنہ کررہے تھے جہاں جہاں آگ لگی تھی۔ بارش کا تیز پانی راکھ کو ساتھ بہا لے گیا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے کبھی آگ لگی ہی نہ ہو۔ ہر طرف گھاس اور پتوں پر بارش کے قطرے موتیوں کی طرح چمکنے لگے تھے۔
اتنے میں گیدڑ دوڑتا ہوا آیا اور اس نے یہ خبر سنائی کہ آسمانی بجلی گرنے سے بھیڑیے کا سارا گھر جل گیا ہے اور ساتھ ہی بھیڑیا بھی… چیتے نے مسکرا کر لومڑی کی طرف دیکھا اور دونوں خراماں خراما چل پڑے۔
——