ایک حقیقت، ایک المیہ

شمشاد حسین فلاحی

پٹنہ بہار کے ایک ادارے ’’کلکاری بال بھون‘‘ نے ایک انکشاف کیا ہے۔ یہ انکشاف اس وقت ہوا جب ادارے کی انتظامیہ نے بچوں سے’کلکاری‘ کے ساتھ انکے تجربے کو جاننے کے لئے بچوں سے خط لکھنے کے لئے کہا۔ اس موقع پر بچوں نے کھل کر لکھا اور ایک ہزار بچوں میں سے آٹھ سو بچوں نے اپنے سرپرستوں کے ان کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں لکھا۔اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 90 فیصد بچوں نے اپنے والدین کے بارے میں جو کچھ لکھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’پاپا ہمیشہ ممی کے ساتھ جھگڑتے رہتے ہیں۔ مجھے گھر میں بہت ڈر لگتا ہے۔ غلطی نہ کرنے پر بھی ڈانٹ پڑتی ہے۔ ماں سے کچھ کہنے جاتے ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ تمہاری باتوں کے لئے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ رزلٹ اچھا ہوتا ہے، پھر بھی دوسرے بچوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ڈانٹا جاتا ہے۔ ممی پاپا کی ہر دن لڑائی ہوتی ہے۔‘‘ (ہندستان، ہندی 14؍جنوری)
بچوں نے مزید اپنے والدین کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ممی پاپا کے پاس ہمارے لئے وقت نہیں ہوتا۔ وہ بات بات میں روک ٹوک کرتے ہیں۔ وہ ممی پاپا سے کچھ نہ کہیں اس کے لئے موبائل دے دیتے ہیں۔ ہم کچھ کہنا چاہتے ہیں تو’’ابھی وقت نہیں ہے‘‘ کہ کر ٹال دیتے ہیں۔
’کلکاری‘ نے اپنے بچوں کو چار گروپس میں تقسیم کیاتھا اور ان بچوں سے خط لکھنے کو کہا تھا جنہیں یہاں آئے ابھی ایک ہی سال ہوا تھا۔ بچوں سے اگرچہ کلکاری کے سلسلے میں ان کی رائے جاننے کے لئے ایسا کیا گیا اور بلا خوف کھل کر لکھنے کے لئے کہا گیا تھا مگر اس موقع سے فائدہ اٹھاکر بچوں نے وہ سب بھی لکھ ڈالا جس کے بارے میں شاید کلکاری کے ذمہ داران نے سوچا بھی نہ ہو۔ واضح رہے کہ مذکورہ ادارے نے اپنے نظام امتحان میں تبدیلی کرتے ہوئے کچھ نئے اندازسے بچوں کی صلاحیت کو جانچنے کی غرض سے نئے امتحاناتی پروگرام کے تحت ایسا کیا تھا۔
’کلکاری‘ کے بچوں نےجو کچھ لکھا ہے وہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ بچوں کے پاس اپنا درد اور اپنی دلی کیفیات کو بیان کرنے کے لئے کوئی نہیں بچا۔ اپنے دل کا حال بیان کرنے کے لئے بچوں کے پاس صرف ماں اور باپ ہوتے ہیں مگر ان کے پاس اب اس کام کے لئے نہ تو وقت بچا ہے اور نہ اپنے بچوں کے دل کا حال جاننے کی خواہش۔
بچوں کی مذکورہ بالا باتیں شاید ہر آدمی کے لیے اہم اور قابل توجہ نہ ہو، مگر ان لوگوں کے لیے ضرور اہم اور قابل توجہ ہیں جو گھر، خاندان اور معاشرے کے بکھرتے تارو پود پر نظر رکھتے ہیں اور نئی نسل کے مسائل کو جاننے اور حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور خود کو اس قسم کی صورت حال سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔
بچوں نے جو کچھ لکھا ہے ظاہر ہے وہ حقیقت ہے اور اگر یہ حقیقت ہے تو بہت تکلیف دہ اس معنی میں ہے کہ وہ والدین جو اپنے بچوں کی تعلیم اور ان کے کیریر کو لے کر بڑے حساس، پرامید اور فکر مند ہوتے ہیں اور ان پر اپنی گاڑھی کمائی صرف کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، خود ان کا رویہ اپنے بچوں کے سلسلے میں کیا ہوتا جا رہا ہے۔ بچوں کے بیانات یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کے بچے اپنے والدین کی موجودگی کے باوجود اپنے گھروں میں کس قدر تنہا ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ شوہر بیوی کے درمیان روز روز کی توتکار بچوں کے ذہن و فکر پر کس قدر منفی اثر ڈالتی ہے اور بچہ اپنے گھر میں بھی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگتا ہے۔ اگر کوئی بچہ خود کو اپنے ہی گھر میں غیر محفوظ سمجھنے لگے تو وہ کس قدر ذہنی دباؤ میں رہے گا اس کا اندازہ کیجئے۔ بچوں میں بڑھتے ڈپریشن کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے اس امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔
’کلکاری‘ کا یہ تجربہ اس بات کو بھی لوگوں کے سامنے لاتا ہے کہ ہمارے سماج میں ازدواجی رشتے کس بحرانی دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ شوہر بیوی کے درمیان معمول بنتے جھگڑے ایک طرف توازدواجی زندگی کا سکون چھین رہے ہیں، دوسری طرف نئی نسل کو ذہنی بیماریوں میں مبتلا کرنے کا سبب بن کر ان کے مستقبل کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اس سے زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہ ان گھروں کا حال ہے جہاں نام نہاد تعلیم یافتہ اور سماج کی ناک سمجھے جانے والے لوگ رہتے ہیں اور یہ معاملہ بہ ہر حال جاہل، ناخواندہ اور پسماندہ خاندانوں کا تو نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں ہمارے تعلیم یافتہ ہونے کے کیا معنی رہ جاتے ہیں؟ یہ اپنے آپ میں سوچنے اور غور و فکر کرنے کا موضوع ہے۔
اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ یہ سماج کی عام صورت حال نہیں ہے، مگر اتنا تو ہر شخص دیکھ ہی رہا ہے کہ کہاں کیا کیفیت ہے اور یہ کہ سماج اب ایک ایسے مقام پر آن پہنچا ہے کہ اگر اس صورت حال کا تدارک کرنے کی کشش نہ کی گئی تو ہماری سماجی اور اخلاقی قدریں تو تباہ ہونگی ہی ، ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی کھو بیٹھیں گے۔
پٹنہ سے سامنے آنے والی تکلیف دہ معاشرتی صورت حال ہم سب کے لئے تشویش کا موضوع اس حیثیت سے ہونی چاہیے کہ ہم خود ہوشیار رہیں اور اپنے گھر اور اپنی نسل کو اس بحران کا شکار نہ ہونے دیں جس کا شکار وہ نسل ہوگئی جس نے یہ تکلیف دہ انکشاف کیا ہے۔
یہ صورت حال کیریر کی گھڑدوڑ میں دوڑتے تعلیمی نظام،تعلیمی اداروں اور طلبہ کے لئے بھی چیلنج بنے گی اور بن رہی ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ کہ اگر والدین اپنی اولاد سے چاہتے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات کو پورا کرے تو والدین کو بھی اپنی اولاد کی توقعات اور امیدوں پر پورا اترنے کو یقینی بنانا ہوگا اور اس کی کم از کم صورت یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو بھر پور محبت، تحفظ اور اپنے وقت کا ضروری حصہ انہیں دینے کو یقینی بنائیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں