’’مریم! سنا ہے سعودی عرب سے ایک شیخ آئے ہوئے ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کے لیے ایک آیا کی تلاش ہے۔ میرا خیال ہے کہ تم قسمت آزمائی کرلو۔ ویسے بھی تمہیں بیرونِ ملک ملازمت کرنے کا بہت شوق ہے۔‘‘
شوہر کی آواز سن کر مریم نے کہا: ’’ہاں! سوچتی ہوں یہ اچھا موقع ہے۔ میں قسمت آزمانا چاہتی ہوں۔‘‘ اسے معاً اپنے تین سالہ کمسن بچے راجر کا خیال آیا۔ ’’کیا میں اس کی جدائی برداشت کرسکوں گی۔‘‘ اس نے سوچا ’’مگر میں جو کچھ کرنا چاہتی ہوں، یہ سب اسی کے مستقبل کی خاطر تو ہے۔‘‘
چنانچہ مقررہ دن مریم انٹرویو دینے کے لیے عرب شیخ ابوفرید کے پاس گئی۔ وہاں اور بھی بہت سی عورتیں انٹرویو دینے کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ خوش قسمتی سے مریم منتخب کرلی گئی۔ ملازمت کا معاہدہ کم از کم دو سال کا تھا۔ ابوفرید نے مریم کو پاسپورٹ لانے اور سعودی عرب جانے کی تیاری کی ہدایت کی۔ اسے بتایا گیا کہ وہ ابوفرید کے ہمراہ جائے گی۔
مریم خوشی اور اندیشہ ہائے دور و دراز کی ملی جلی کیفیات میں کھوئی ہوئی اپنے گھر پہنچی۔ اس کے شوہر کو جب اس بات کا علم ہوا کہ مریم منتخب کرلی گئی ہے تو اسے بے حد خوشی ہوئی۔ اس نے مریم کو مبارک باد دی اور توقع ظاہر کی کہ اب یقینا کچھ عرصہ بعد ان کے دن پھر جائیں گے اور راجر کو بہتر تعلیم و تربیت دینے کے لیے ان کے پاس کافی دولت اکٹھی ہوجائے گی۔
لیکن مریم اپنی جگہ بے حد فکر مند تھی کہ اسے اپنے کمسن بچے راجر کو چھوڑنا ہوگا جس نے ابھی ابھی بولنا سیکھا تھا۔ شوہر نے تسلی دی کہ وہ راجر کے بارے میں قطعی فکر نہ کرے۔ اس کی عدم موجودگی میں وہ ننھے راجر کو اس کے حصے کا بھی پیار دے گا۔ وہ بلا خوف و تردد سعودی عرب جاکر ملازمت اختیار کرے۔
دس بارہ روز میں مریم کی روانگی کے انتظامات مکمل ہوگئے۔ گزشتہ چند راتوں سے مریم اس کشمکش میں مبتلا رہی کہ کیا وہ ننھے راجر کی جدائی برداشت کرے یا ملازمت پر جانے سے انکار کردے مگر اگلے ہی لمحے جب دگرگوں معاشی حالات کا نقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگا تو وہ اس تصور سے کانپ اٹھی۔ اس نے جانے کا اٹل فیصلہ کرلیا۔ اس نے سوچا کہ دو سال کی بات ہے، پھر ان کے گھریلو حالات سدھر جائیں گے اور پھر کسی قسم کا اندیشہ باقی نہیں رہے گا۔
روانگی سے ایک رات قبل ننھا راجر ماں کی گود میں دیر تک بیٹھا رہا۔ بالآخر وہ ماں کی گود ہی میں سوگیا۔ مریم نے اسے اپنے پاس لٹایا۔ وہ بار بار اس کو دیکھتی رہی، اسے چومتی رہی۔ ننھے راجر کو کیا خبر تھی کہ اگلی صبح اس کی ماں اسے روتا چھوڑ کر ہزاروں میل دور چلی جائے گی۔ صبح منہ اندھیرے میں مریم کو ہوائی اڈے جانا تھا۔ اس نے جاتے جاتے ننھے راجرکو ممتا بھرے کئی الوداعی بوسے دیے۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ وہ جی کڑا کرکے گھر سے رخصت ہوئی۔ ابوفرید کی گاڑی اسے لینے آئی ہوئی تھی۔ اس نے شوہر سے الوداعی کلمات کہے اور بچشمِ نم وہاں سے رخصت ہوئی۔
منیلا سے ظہران تک تمام راستے اسے ننھے راجر کی فکر ستاتی رہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں روتی رہی۔ چند گھنٹوں کے سفر کے بعد وہ الخوبر شہر میں واقع ابوفرید کے گھر میں موجود تھی۔ ابوفرید کی مشفق بیوی نے اسے خوش آمدید کہا اور اسے اشاروں کی زبان کے علاوہ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں دم دلاسے دیے۔
اگلی صبح جب ننھا راجر نیند سے بیدار ہوا تو باپ نے پہلے سے اس کے لیے رنگ برنگی ٹافیوں اور خوبصورت کھلونوں کے ڈھیر لاکر اس کے سرہانے رکھ دیے تھے۔ بچہ ماں کو موجود نہ پاکر پہلے تو پریشان سا ہوا۔ باپ نے اسے کھلونوں سے بہلایا مگر ننھے راجر کو چین نہیں آیا۔ وہ بار بار اپنے باپ سے توتلی زبان میں پوچھنے لگا: ’’ممی کہاں ہے؟‘‘
باپ سارا کام چھوڑ کر بچے کو بہلانے لگا۔ اسے پارک لے گیا۔ وہاں اسے جھولے میں بٹھایا۔ اسے اپنے مختلف دوستوں کے ہاں لے گیا اور اس کی توجہ بٹاتا رہا یہاں تک کہ شام ہوگئی۔ ننھے راجر کو نیند آنے لگی۔ باپ اسے گھر لے آیا اور بستر پر لٹایا۔
اگلی صبح جب راجر اٹھا تو اس نے رونا شروع کیا۔ وہ ماں کو پکارنے لگا: ’’ممی! تم کہاں ہو؟‘‘ اس وقت باپ ناشتے کی تیاری میں مصروف تھا۔ وہ راجر کے پاس آیا اور اسے بہلانے لگا مگر بچے نے ضد جاری رکھی۔ وہ برابر پوچھتا رہا: ’’ممی کہاں ہے پاپا؟‘‘
باپ نے زچ ہوکر کہا: ’’تمہاری ممی مرگئی ہے۔‘‘
یہ سن کر ننھا راجر یکلخت چپ ہوگیا۔ پھر اس نے پوچھا: ’’ممی مرگئی ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ باپ نے اس کے سر کو سہلاتے ہوئے جواب دیا: ’’بیٹا! تمہاری ممی مرگئی ہے۔‘‘
ننھا راجر خاموشی سے باپ کا منہ تکتا رہا۔ وہ کچھ نہ بولا۔ اسے اپنی مری ہوئی پھوپھی یاد آگئی جو چند روز ہوئے مری تھی۔ ننھے راجر نے کفن میں لپٹی ہوئی اس کی لا ش دیکھی تھی جسے اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا تھا۔ راجر کے معصوم ذہن میں یہ بات سماگئی کہ میری ممی بھی زمین میں گاڑدی گئی ہے۔ یہ سوچ کر وہ خوف کے مارے خاموش ہوگیا۔ راجر ذہین بچہ تھا۔ باپ کو اطمینان ہوگیا کہ اب وہ ماں کو یاد نہیں کرے گا اور اسے نہیں ستائے گا۔
اتفاق سے اگلے روز اس کے ہاں راجر کا ایک انکل آیا۔ اس کے ہمراہ اس کا کمسن بچہ جیک بھی تھا جو راجر کا ہم عمر تھا۔ جیک کے آجانے سے راجر کا دل بہل گیا۔ رفتہ رفتہ وہ ماں کو یکسر بھول گیا۔
دن گزرتے گئے۔ ننھا راجر خاموش خاموش رہنے لگا۔ بظاہر اس نے ماں کو بھلا دیا تھا مگر حقیقتاً جب بھی گھر میں اس کے ہاتھ ماں کا جوتا یا موزہ لگتا اسے بے اختیار ماں کی یاد ستانے لگتی۔ وہ باپ سے کہتا: ’’دیکھو پاپا! ممی کا یہ جوتا کتنا خوبصورت ہے! ہے نا؟‘‘
معصوم بیٹے کی باتیں سن کر باپ کا دل شدت جذبات سے چٹخ جاتا۔
اب الخوبر میں مریم کا حال سنیے۔ وہ ماں تھی۔ اپنے بچے کی یاد میں تڑپ رہی تھی۔ اس پر معاہدے کے دو سال کا ایک ایک دن بھاری گزر رہا تھا، مگر مجبور تھی۔ دو سال بعد ہی وہ دوماہ کی چھٹی مع تنخواہ اور جہاز کے ٹکٹ کی حقدار بن سکتی تھی اور ابھی تو ایک سال کا عرصہ گزرا تھا۔
ابوفرید کی بیوی نے مریم سے اداسی کی وجہ پوچھی۔ مریم نے بلا کم وکاست ساری بات بتادی۔ تب ابوفرید اور اس کی بیوی نے آپس میں مشورہ کیاکہ مریم کو معاہدے کی میعاد پوری ہونے سے پہلے دو ہفتے کی چھٹی پر وطن بھیج دیا جائے تاکہ وہ اپنے کمسن بچے سے ملاقات کرسکے۔ چنانچہ انھوں نے مریم کو وطن چھٹی پر جانے کی خوشخبری سنادی۔
مریم سراپا شکر گزار ہوگئی۔ وہ جلد اپنے بچے راجر سے ملنے کے لیے بے چین تھی، چنانچہ ہنسی خوشی اپنے وطن کے لیے روانہ ہوگئی۔ روانگی سے پہلے اس نے اپنے شوہر کو اطلاع دے دی۔
خوشی کے ساتھ ساتھ انتظار کے لمحات کاٹنا بہت کٹھن کام ہوتا ہے۔ جب جہاز نے منیلا کے ہوائی اڈے پر لینڈ کیا تو مریم کا دل انجانی خوشی سے بے تحاشا دھڑکنے لگا۔ اس کا بس چلتا تو وہ رن وے سے اپنے گھر تک سیدھی پرواز کرجاتی۔ ہوائی اڈے پر ننھا راجر اپنے باپ کی گود میں بیٹھا اپنی ماں کا انتظار کررہا تھا۔ اسے باپ نے بتادیا کہ اس نے جھوٹ بولا تھا کہ اس کی ممی مرچکی ہے۔ ’’وہ زندہ ہے اور ابھی تھوڑی دیر میں آنے والی ہے۔‘‘ باپ نے کہا۔
ننھا راجر گومگو کی حالت میں کبھی باپ کے چہرے کی طرف اور کبھی رن وے پر دوڑتے ہوئے جہاز کی طرف تکتا۔ رفتہ رفتہ اس کے ذہن کے پردے پر اس کی ماں کی دھندلی سی تصویر ابھرنے لگی۔ وہ خوشی کے جذبات سے مغلوب ہوکر باپ کے گلے سے لپٹ گیا اور اس نے بے اختیار باپ کو چوما۔ باپ کے سینے سے لگ کر وہ ماں کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ راجر کے دل کی دھڑکن کو باپ بخوبی سن سکتا تھا۔
آخر کار انتظار کی گھڑیاں بیت گئیں۔ مریم لاؤنچ سے برآمد ہوئی۔ اس کی پہلی نظر اپنے شوہر اور اس کی گود میں بیٹھے راجر پر پڑی۔ وہ دیوانہ وار دوڑی اور بیک وقت شوہر اور بچے سے لپٹ گئی۔ راجر کو گود میں لیا۔ اس نے راجر کو عالم وارفتگی میں بار بار چوما اور بار بار سینے سے لگایا۔ خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہاں اس کے اور بھی رشتے دار کھڑے تھے، ان سے ملاقات کی۔ وہاں سے فارغ ہوکر وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ایک گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ننھا راجر اس کی گود میں تھا وہ بار بار ماں کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ زندہ سلامت ماں کی گود میں بیٹھا ہے۔ کوئی اس کی خوشیوں کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ اسے بے پناہ خوشی ہورہی تھی۔ اتنی زیادہ خوشی جو اس کی قوتِ برداشت سے باہر ہورہی تھی۔ وہ ٹکٹکی باندھے ماں کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے ماں کے گلے میں اپنے بازو حمائل کیے اور اسے چومنے لگا۔ وہ چومتا رہا، چومتا رہا۔ اور پھر یکلخت اس کے چومنے کا عمل رک گیا… ماں نے گھبرا کر راجر کی طرف دیکھا اور بدحواس ہوکر چیخ اٹھی ’’راجر!‘‘
بے پناہ خوشی کے جذبات سے پیالہ چھلک پڑا تھا۔
راجر کے لب نیم وا تھے۔ اس کی آنکھیں نیم وا مگر ساکت تھیں۔ اس کا جسم بے روح تھا… اور…
گاڑی کی پچھلی نشست پر مریم اپنے بچے سے لپٹی بے ہوش پڑی تھی۔