جب کسی ریاست میں ظلم و تشدد کا راج ہوجائے تو حکمرانوں کی دیکھا دیکھی ان کے خوشامدی اہلکار ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکل جاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم و ستم کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کی امیدیں سرد پڑ جاتی ہیں اور وہ سعی و محنت سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ عوام کی مایوسی اور مردہ دلی سے بازار معاش میں مندا پڑ جاتا ہے۔ بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی نوید سے حیات نو نہیں ملتی۔ ملک تباہ ہونے لگتا ہے اور اندرونی و بیرونی دشمن تخریب کاری کا مذموم عمل تیز کر دیتے ہیں۔
ماضی میں بھی ایسی صورتِ حال پیش آتی رہی ہے۔ دریں حالات المسعودی کی ایک حکایت یاد آرہی ہے جو باعث عبرت بھی ہے اور سبق آموز بھی!
قدیم ایران کا بادشاہ بہرام بڑا ظالم اور بدعنوان تھا۔ اس کے مظالم سے ملک ویران ہونے لگا اور لوگ مایوس ہوکر دوسرے ممالک کی جانب بھاگنے لگے۔ تب وقت کے ایک نباض حکیم موبذان نے بادشاہ بہرام کو اُلّو کی زبانی ایک کہانی سنائی اور اسے غفلت اور ظلم سے باز رکھنے کی کوشش کی۔
ایک دن بادشاہ بہرام اور حکیم موبذان باغ کی سیر کر رہے تھے۔ اچانک ایک اُلو کی آواز سنائی دی۔ بہرام نے حکیم موبذان سے پوچھا:
’’کچھ سمجھتے ہو کہ یہ اُلو کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
حکیم بولا:
’’جہاں پناہ! یہ ایک نَر اُلّو ہے جو کسی مادہ الو سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ مادہ الو اپنے لیے بطور مہر بیس ویران گاؤں مانگتی ہے۔ نر الو نے یہ شرط قبول کرلی ہے۔ اب وہ کہتا ہے کہ اگر بہرام شاہ کی حکومت کچھ دن اور رہ گئی تو میں تجھے بیس ویران گاؤں تو کیا ہزاروں ویران گاؤں دے دوں گا۔
یہ بات سن کر بہرام شاہ چونک پڑا۔ اس نے موبذان سے پوچھا:
’’اے دانا حکیم! یہ بات ذرا وضاحت سے بتاؤ، اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘
حکیم نے جواب دیا: ’’بادشاہ سلامت! یاد رکھیے… ملک کی ترقی اور اس کی عزت امن و امان کی بقا اور قانون کی پابندی سے وابستہ ہے۔ مال و دولت کی فراوانی ملک کی آبادی سے وابستہ ہے۔ آبادی عدل و انصاف کی اساس پر قائم رہتی ہے۔ عدل و انصاف ایک ترازو کا نام ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں قائم فرمایا ہے اور ناپ تول کے لیے بادشاہ کو مقرر کیا ہے۔
بادشاہ سلامت غور فرمائیے کہ آپ نے حق دار لوگوں سے ان کی زمینیں اور حقوق چھین کر اپنے لوگوں میں تقسیم کردیے۔ لوگ اس ظلم و ستم سے تنگ آکر دوسرے ممالک میں چلے گئے۔ محنت کرنے والے ہی چلے گئے تو یہ زمینیں کس طرح جوتی جائیں اور کہاں سے پیداوار دیں؟ ملک ویران ہوگیا۔ نوبت یہ آگئی کہ شہریوں کی آمدنی گھٹ گئی۔ فوج تتر بتر ہوگئی۔ عوام تباہ ہوگئے۔ اب پڑوسی مملکتیں ہمارے وطن عزیز پر میلی اور بھوکی پیاسی نگاہیں ڈال رہی ہیں۔‘‘
شاہ بہرام نے جب یہ دلفگار مبنی پر حقیقت باتیں سنیں تو وہ اپنے ملک کے حالات پر غور کرنے لگا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ وطن عزیز کی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس نے عزم صمیم کرلیا کہ وہ اپنے مطلب پرست، موٹی توندوں والے ابن الوقت جاگیر داروں سے زمینیں چھین لے گا۔ اس نے ایسا ہی کیا اور زرعی اراضی پرانے مالکان کو دیں۔ جب مالکان قدیم کو اپنی اپنی زمینیں واپس ملیں تو وہ پھر سے محنت کرنے اور اناج اگانے میں لگ گئے، بدحال اور نادار لوگ خوش حال ہونے لگے۔ زمین آباد ہوگئی۔ وطن سرسبز و شاداب ہوگیا۔ ملکی خزانے بھرنے لگے، فوج صاحب شوکت و جبروت بن گئی، دشمنوں کے ناپاک ارادے خاک میں مل گئے۔ یوں خود بادشاہ بھی سنور گیا اور سلطنت میں بھی استحکام، نظم و نسق اور خوش حالی پیدا ہوگئی۔