ایک خط ایک کہانی

صغیرہ بانو شیریں

میرے سامنے کتنے ہی خط پڑے ہیں۔
میں اس معصوم بچی کو جانتی نہیں، پہچانتی نہیں۔ کوئی رشتہ ناطہ نہیں۔ پھر بھی نہ معلوم کیوں میرا دل اس بچی کے لیے بے چین ہورہا ہے۔ خوبصورت پڑھی لکھی معزز خاندان کی لڑکی آج اس سمے کتنی مجبور ہے۔ کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی۔ شرم و حیا نے اس کے لب سی دیے ہیں۔ اندر ہی اندر وہ سسک سسک کر آگ کا ایک الاؤ دہکا چکی ہے، آگ کی چنگاریاں اڑتی ہیں تو اس کی سمجھ میںنہیں آتا کیا کرے کس سے اپنا دکھ بانٹے۔ لے دے کر ایک رستہ رہ جاتا ہے، وہ چپ چاپ اپنی زندگی ختم کرلے۔
جب اس نے مجھے لکھا کہ ’’زہر منگا کر سرہانے رکھ لیا ہے۔ بس مجھے آپ کے خط کا انتظار ہے۔‘‘ تو میں ایک لمحے کے لیے کانپ گئی۔ سارے کام چھوڑ کر اسے جواب لکھا اور سمجھایا کہ خود کشی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ غفور ورحیم ہے۔ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ تم اس کے سامنے صدق دل سے جھک جاؤ اور توبہ کرکے معافی مانگو۔ اس سے تمہیں سکون ملے گا۔ تمہارے حالات بدل جائیں گے۔
اس کی کہانی یوں لکھ رہی ہوں کہ شاید اس طرح کچھ لوگ آنے والے خطروں سے محفوظ رہ سکیں، خصوصاً نوجوان بچیاں اپنی حفاظت کرسکیں۔ والدین اپنی بچیوں کو ایسے لوگوں سے بچا کے رکھیں۔
اس بچی کو میں گڑیا کہوں گی۔ گڑیا بہت خوبصورت ذہین فطین بچی تھی۔ سات آٹھ سال کی تھی جب اس کے ابا نے اپنا اوپر والا گھر کسی ملنے والے کو کرائے پر دے دیا۔ کرائے دار کی بچیاں گڑیا کی ہم عمر تھیں۔ وہ جلد ہی سب میں گھل مل کر رہنے لگی۔ کرائے دار اس کے باپ کے ہم عمر تھے۔ وہ جب اپنی بچیوں کے لیے کوئی چیز لاتے تو اس میں گڑیا کا حصہ بھی ہوتا۔ عید بقرعید پر اس کے لیے کپڑے بھی بنواتے۔ انھوں نے گڑیا کو پیار سے اپنے بہت قریب کرلیا۔ اس کی پڑھائی میں دلچسپی لینے لگے۔ پڑھائی کے بہانے وہ اسے اپنی گود میں بٹھا لیتے، اسے خوب پیا رکرتے۔ آہستہ آہستہ ان کی دست درازیاں بڑھتی گئیں۔ گڑیا اب تیرہ سال کی ہوچکی تھی۔ سب کے سامنے تو وہ اسے پیار نہ کرتے، مگر جیسے ہی تنہائی دیکھتے، دن ہو یا رات، وہ اسے اپنے قریب کرلیتے۔ گڑیا معصوم بچی تھی۔ جب کبھی اسکول میں فرسٹ آتی تو سب سے پہلے بھاگ کر انکل کو بتاتی، ان سے لپٹ جاتی۔
ایک بار ایسا اتفاق ہوا۔ کسی کی شادی میں ایک ہفتے کے لیے سب لوگ چلے گئے۔ انکل اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر واپس آگئے۔ اوپر نیچے ہر وقت آنا جانا تھا۔ دوپہر کو جب وہ اپنے دفتر سے واپس آئے تو گڑیا کی والدہ نے کھانا نکال کر دیا اور کہنے لگیں: ’’جاؤ اپنے انکل کو کھانا دے کر جلدی سے آجاؤ۔‘‘ گڑیا کھانے کی ٹرے لے کر اوپر گئی تو دیکھا انکل بستر پر لیٹے ہیں۔ کپڑے بھی نہیں بدلے۔ وہ کہنے لگے: ’’میری طبیعت ٹھیک نہیں تم کھانا باورچی خانے میں رکھ دو۔ میں ٹھہر کر کھاؤں گا۔ تمہاری امی سوجائیں تو چپکے سے آکر تم مجھے چائے بناکر دینا۔ امی سے نہ کہنا وہ خواہ مخواہ پریشان ہوں گی۔‘‘
گڑیا کھانا رکھ کر چلی گئی۔ گھنٹہ بھر بعد آئی۔ باورچی خانے میں جاکر اس نے چائے بنائی۔ اتنے میں نام نہاد انکل نے اوپر کے سارے دروازے بند کرلیے تھے۔ گڑیا کی منت سماجت کے باوجود انھوں نے معصوم بچی کو نہیں چھوڑا۔ بعد میں وہ چاقو لے کر کھڑے ہوگئے۔ گڑیا سے کہا تم نے کسی سے بھی اس بات کا ذکر کیا تو میں تمہارے ٹکڑے کرکے چپ چاپ نہر میں پھینک آؤں گا۔ گڑیا ڈر گئی۔ نیچے آئی تو خوف اور ڈر سے اسے بخار چڑھ گیا۔ وہ کئی دن اوپر نہ جاسکی، مگر انکل روزانہ دفتر سے آنے کے بعد اس کی طبیعت پوچھنے آتے۔ اس کے لیے پھل اور تحائف لاتے۔ گڑیا نے دسویں کرکے کالج میں داخلہ لیا تو انکل کی موج ہوگئی۔ اسے کالج سے لے کر کسی دوست کے ہاں چلے جاتے۔ اب انھوں نے ایک اور طریقہ نکالا۔ گڑیا سے کہا میں تمہارے باپ کو ساری بات بتادوں گا ورنہ تم مجھے ان کی الماری سے بیس ہز ار روپیہ نکال کر لادو، مجھے سخت ضرورت ہے۔
گڑیا نے روتے دھوتے باپ کے پیسے بھی نکال کر شیطان صفت آدمی کو پکڑا دیے۔ آہستہ آہستہ اس نے زیور بھی الماری سے نکلوالیا۔ گڑیا سخت پریشان ہوچکی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیںآتا تھا۔ وہ اس آدمی سے کس طرح نجات حاصل کرے۔ اس کی صحت گری جارہی تھی۔ ایسے میں اس پر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا۔ اس شخص کو کسی باہر کے ملک میں نوکری مل گئی۔ اور اسے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ باہر جانا پڑا۔ جاتے وقت اس نے گڑیا سے کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں زندگی میں کبھی کسی کو کچھ نہ بتاؤں گا۔ تم بھی خاموش رہنا اور شادی کرلینا۔
گڑیا بی اے کرچکی تو اس کے رشتے آنے شروع ہوئے، مگر وہ ہر بار انکار کردیتی۔ اسی طرح پانچ سال گزرگئے۔ پھر ایسا ہوا کہ اس کے والد بیمار ہوگئے۔ ماں پہلے ہی بیمار تھیں۔ خاندان میںسے ایک رشتہ آیا اور والدین نے قبول کرلیا۔
گڑیا اب سخت پریشان تھی۔ شادی سے انکار بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اس کے دل میں یہ خوف بیٹھ گیا تھا کہ شادی کے بعد اس کے شوہر نے اگر یہ کہہ دیا کہ تم باکردار با عصمت نہیں ہو تو وہ کیا کرے گی۔ اسی خوف میں اس نے خود کشی کرنے کا سوچا۔ خوف وہراس کی ایک تلوار اب ہر لمحے اس کے سر پر ٹنگی رہتی تھی۔ ایسے میں اس نے مجھے خط لکھا۔ میں نے اسے حوصلہ دیا۔ اب اس نے نماز شروع کردی تھی اور رو رو کر تنہائی میں اپنے رب کے آگے سربسجود ہوکر توبہ کرتی اور دعا مانگتی کہ اللہ اس کا معاملہ صحیح کردے اور وہ شرمسار نہ ہو۔ ایک خط میں اس نے مجھے لکھا کاش! میرے والدین مجھ پر سختی کرتے۔ کالج آنے جانے پر نظر رکھتے تو یہ معاملہ اتنا نہ بڑھتا۔ میں تو بچی تھی جب اس خبیث آدمی کے ہتھے چڑھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں تھی۔ عقل اور شعور نہیں تھا۔ اس نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت میری آبرو خراب کی۔ میرے والدین کے حق حلال کے کمائے ہوئے روپے بھی چوری کرائے۔ جس وقت میں یہ روپے نکال رہی تھی، میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور میں دعا کررہی تھی کہ اس آدمی کو خدا تعالیٰ غارت کردے جو مجھ سے یہ ناجائز کام کرارہا ہے۔
پھر اس نے خط لکھا: ’’لڑکیاں شادی کرتی ہیں تو کتنی خوش ہوتی ہیں۔ ان کے چہرے پھول کی طرح شاداب ہوتے ہیں۔ اور میرا یہ حال ہے کہ پیلاہٹ میرے چہرے پر بڑھتی جارہی ہے۔ آنکھوں کے نیچے حلقے پڑے ہیں۔ جیسے جیسے شادی کے دن قریب آرہے ہیں۔ میری بے قراری، آہ و زاری بڑھتی جارہی ہے۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کررہا ہے۔ میں کیسے اپنے ہونے والے شوہر کا سامنا کروں گی۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں سہاگ کی سیج پر نہیں موت کی سیج پر بیٹھی ہوں۔ اس نے کس طرح مجھے برباد کیا۔ اللہ تعالیٰ ہی میرا بدلہ لینے والا ہے۔ اب اس کی بچیاں بھی جوان ہوچکی ہیں۔ ہر سال وہ آتا ہے۔ تحائف اور روپوں سے لدا پھندا۔ اس کے ضمیر پر کوئی بوجھ ہے نہ اسے اس بات کا احساس ہے۔ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں میرا جسم ریزہ ریزہ ہوچکا ہے۔ مجھے اپنے وجود سے خود گھن آتی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے یہ جسم میرا اپنا نہیں بلکہ کسی اور کا ہے جسے میں برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
گڑیا کے بے شمار خط میرے سامنے پڑے ہیں۔ اس بے چاری کا کیا قصور ہے۔ اب اس ماہ اس کی شادی ہونے والی ہے۔ گڑیا کو معلوم نہیں اس کے لیے کتنی دعائیں کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے معاملات صحیح کردے اور وہ اپنے گھر میں خوش و خرم آباد رہے۔ اس کا دکھ اپنا دکھ معلوم ہوتا ہے۔ جس اذیت اور کرب کی صلیب پر وہ لٹکی ہے، وہ ہم محسوس کرسکتے ہیں۔ اس کی شدت کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ یہ بہت بڑی سزا ہے جو اس نے بھگتی ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146