ہوا میں بہار کی خوشبو تھی لیکن ادھر مغرب کی جانب سے ہوا کے جھونکے کچھ تیز ہوگئے تھے اور چھوٹے چھوٹے پتے ٹوٹ کر فضاؤں میں بکھر رہے تھے۔ باغوں، گھروں اور سڑکوں کے کنارے لگے درختوں نے ہریالی کا لبادہ اوڑھنا شروع کر دیا تھا۔ سوکھے پتے تیز ہوا کے مار سے ٹہنیوں سے ٹوتے اور تیز ہچکولے کھاتے ہوئے زمیں پر آرہتے۔ پتوں کے ساتھ نگاہیں زمین پر اتریں تو معلوم ہوا کہ کھڑکی کے راستے کچھ پتے گھروں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں کچھ کامیاب ہوجاتے ہیں اور کچھ دوسروں کی طرح ہی زمین پر گر پڑتے ہیں۔ میں نے احتیاطاً کمرے کا دروازہ بند کیا مگر دروازے کے پیچھے پتوں کا کچرا دیکھ کر غصے کی ایک لہر اٹھی اور خوش گوار موڈ کا ستیا ناس ہوگیا۔
زبیدہ جاچکی تھی اور اگلا روز چھٹی کا تھا۔ اس کا مطلب ہے حسب عادت خون کا الاؤ جلتا رہے گا اور زندگی کی یہ قیمتی ساعتیں، خوش گوار لمحات کی ٹھنڈی پھواروں سے سرشار ہونے کی بجائے غصے کی بھٹی میں بھسم ہوجائیں گی۔ ذہن میں آئے لطیف خیالات، سوکھے پتوں کی طرح بکھر گئے۔
کتنے اچھے ہوتے ہیں وہ لوگ جو جذبوں اور احساسات کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں، جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ ادھر یہ حال ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھڑک اٹھنا اور بڑی بڑی باتوں پر ایسا سکون اور ٹھہراؤ کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں۔ پر خدا کا شکر ہے کہ اس وقت مجھے کسی نے نہیں دیکھا۔ اچھا ہی ہوا، زبیدہ نہیں تھی۔ میرے غصے کا نشانہ بنتی… نشانہ کیا بنتی، اس سکون سے میری باتیں سنتی جو جلتی پر تیل کا کام کرتیں اور پھر بعد میں خواہ مخواہ شرمندگی اور احساسِ ندامت یا ہزیمت میں زبیدہ کے ردعمل سے کئی بار اٹھا چکی تھی۔ میں جب دل کی بھڑاس نکال رہی ہوتی، وہ میرا منہ تکتی رہتی… اور میرے خاموش ہوتے ہی جھاڑو اٹھاتی اور بڑی معصومیت سے کہتی… یہ لو… باجی … بس… ابھی صاف کر دیتی ہوں۔
طبیعت ٹھکانے لگی تو سوچا! کچھ لکھنے کا کام ہوجائے… کاغذ قلم اٹھایا ہی تھا کہ … آواز آئی ’’دو پہر کو کیا پکے گا؟‘‘ ابھی تو ناشتہ کیا ہے… دوپہر کے کھانے کی فکر پڑ گئی۔ پھر غصہ آنے کو تھا مگر ضبط کیا۔ یاد آیا، درزی سے کپڑے لانے تھے اور کچھ سودا سلف بھی۔ چلئے اس بہانے دھیان بٹ جائے گا۔
سڑک پر تیزی سے جاتی بڑی چھوٹی ہر نسل کی گاڑیوں کی رفتار کم ہونی شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ رک گئیں۔ ٹریفک سگنل ریڈ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لا تعداد گاڑیوں کا ہجوم ہوگیا۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے بل کہ اوپر بھی فلائی اور جو بن گئے ہیں۔ سگنل گرین ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ادھر ادھر ہونے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ دور ٹریفک کنٹرول کرنے والوں کی چوکسی اور سیٹیوں کی آوازوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وی آئی پی روٹ لگا ہوا ہے مگر یقین سے نہیں کہا جاسکتا تھا۔
تو آج کا دن سڑک پر گزرے گا۔ کچھ دیر گزر گئی مگر معلوم نہ ہوسکا کہ وی آئی پی روٹ لگا ہے، کوئی جلوس گزر رہا ہے یا بجلی اور پانی کی سپلائی نہ ملنے کے نتیجے میں برہم شہریوں نے سڑک بلاک کردی ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ اخبار ہی رکھ لیا ہوتا۔پر وہ بھی کتنی دیر ساتھ دیتا۔ اچانک ہی لگا… ہم ٹریفک جام میں نہیں، مارکیٹ میں ہیں۔ پھول بیچنے والیاں، غبارے، بال پوائنٹ فروخت کرنے والوں کے پیچھے پیچھے پانی بھری بوتلیں اور وائپر اٹھائے کاروں کے شیشے صاف کرنے کے لیے حملہ آور نوخیز لڑکیاں اور ایک جو کسر رہ گئی تھی وہ بھی پوری ہوگئی… سولہ سنگھار کیے، تالیاں بجاتے ہجڑے، جن کی روزی جدید طرز زندگی کی نذر ہوگئی ہے۔ سو پچاس کے نوٹ سے کم پر پیچھا نہ چھوڑنے والے… اب دو اور پانچ روپے کا سکہ بھی برا سا منہ بنا کر قبول کرلیتے ہیں۔
’’میں تو ناچ گانے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتی۔‘‘
’’ہانڈی روٹی تو کرسکتی ہو۔ اللہ نے ہاتھ پیر سلامت دیے ہیں، کوئی بھی کام کرسکتی ہو۔‘‘
کام کی بات سے چڑ کر جواب دیا: ’’بی بی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔‘‘ کیوں نہیں لوٹاتے… کوئی زبردستی ہے۔
کہہ دیا بی بی خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے ورنہ…
ورنہ کیا بد دعا دوگی۔نہ بی بی کیسی باتیں کرتی ہو…
لہجہ آہستہ آہستہ دھمکی آمیز ہوتا جاتا ہے۔
منہ ہی منہ میں بڑبڑانا شروع کر دیا ہے۔
’’ارے دے دو نا کچھ، بد دعا دے گی۔‘‘ جاؤ بھی کہ جو دیا معاف کرو، اللہ بھلا کرے گا۔
’’چل شہزادی، وقت کیوں ضائع کر رہی ہے۔‘‘
بڑی مشکل سے ٹلی ہے۔ اسٹیرنگ پر بیٹھی، بی بی نے اطمینان کا سانس لیا۔
ٹریفک جام کی طوالت سے تنگ آکر خلق خدا نے گاڑیوں کے انجن بند کردیے تھے۔ کوئی لمبا ہی جام لگا تھا۔
جانے کون سی اہم شخصیت گزر رہی تھی۔
پندرہ بیس منٹ مزید گزر گئے۔ پلٹ کر آنے والے موٹر سائیکل سواروں نے اطلاع دی کہ جام تو کہیں اور لگا ہوا ہے۔ ادھر کا ٹریفک بھی اس طرف موڑ دیا گیا ہے اور آگے چیک پوسٹ سے ایک ایک گاڑی کو گزرنے دیا جا رہا ہے۔ اس وقت پیدل جانے والے مزے میں تھے۔ موٹر سائیکل سوار بے بسی کے عالم میں تھے۔ شاید میری طرح سوچ رہے تھے کہ کاش ایکشن فلموں کی طرح ہماری گاڑی بھی اڑ سکتی۔ پھر بے بسی سے چاروں اور دیکھا۔ کتنی چوڑی سڑک بن گئی تھی۔ ادھر بھی، ادھر بھی۔ ایک جانے کی ایک آنے کی… مگر تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ گاڑیاں ہی گاڑیاں۔ چند برس قبل یہ سڑک اونچے گھنے دورویہ درختوں کے درمیان اکہری تھی، جب اس کادامن اس قدر کشادہ نہیں تھا۔ اس پر تانگے بھی رواں دواں رہتے تھے اور فاصلہ کتنی جلد طے ہو جاتا تھا۔ سکریٹریٹ لوگ منٹوں میں پہنچ جاتے تھے۔ تب اتنی گاڑیاں بھی نہیں تھیں اور ٹریفک جام کے بارے میں تو سنا ہی نہ تھا۔ وہ تو دور دراز کے مہذب ’’ملکوں‘‘ کا حصہ دکھائی پڑتا تھا۔ لو بھئی… ہم بھی، ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ ٹریفک جام کی حد تک ہی سہی۔ یاد آیا ان بھلے وقتوں میں اچھے بھلے افسر لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے تھے۔
اس وقت یہ افسر نہ سواری تھی۔ فراٹے بھرتی تانگوں، ریڑھیوں اور رکشوں سے کیسے دامن بچا کر نکل جاتی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں سرکاری ٹرانسپورٹ کو نگل گئی۔ اب تانگہ نہ ریڑھا، سڑک بھی چوگنی کشادہ، دو دو فلائی اوور… اور انڈر پاس، مگر ٹریفک چلنے کا نام نہیں لیتی۔
’’خبردار! شیشے کو ہاتھ نہ لگانا ابھی… واش کرا کے گاڑی لایا ہوں۔‘‘
ایک وائپر بردار کو کار والے نے دھتکارا تو وہ دوسری جانب لپکی، وہاں سے بھی ناکامی ہوئی تو تیسری کی راہ لی تاہم گاڑیاں اتنی زیادہ تھیں کہ کئی گاڑیوں کے شیشے صاف ہو رہے تھے، میں نے بھی صاف کرالیے تھے غبارے…، پھول بھی خرید لیے۔ ڈیش بورڈ میں پڑی ساری ریز گاری ختم ہوچکی تھی۔ اس صبر آزما گھڑی نے بڑے بڑے بے صبروں کو شانت رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ صبح میں جو زبیدہ کی ذرا سی لاپروائی پر تلملا رہی تھی، اب صبر کیے بیٹھی تھی۔
گاڑیوں کے ریڈیو اور کیسٹ پلیئرز آن تھے۔ ’’منی بدنام ہوئی‘‘ اور ’’نہ جانے کن کن گانوں کی دھنیں‘‘ آپس میں گڈمڈ ہو رہی تھیں۔ میں نے اسٹیریو آن کر دیا اب FMچل رہا تھا۔ جانے پہلے خیال کیوں نہ آیا۔ ’’ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اسے زبان و بیان کی قیود سے مبرا ہوکرکسی بھی لمحے کہیں بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔‘‘ یہ جملہ مسلسل بولا جا رہا ہے۔ نہ تو اس کی تازگی پر اثر ہوتا ہے نہ جھٹلایا جاسکتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ نازک دور کب گزرے گا۔ ریڈیو پر کوئی گفتگو کر رہا تھا۔ میں نے چینل بدل دیا۔ نفرتوں کے سائے میں زیست بتائی ہم نے آؤ۔۔۔ چلو تھوڑی محبت بانٹیں۔۔۔ اناؤنسر نے شعر پڑھا۔
محبت کیسے بانٹتے ہیں ہم۔۔۔شاید بھول گئے ہیں۔ محبت بانٹنی آتی تو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے مگر ہم تو عجیب لوگ ہیں۔ ہر وہ سہولت جو عام لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرتی ہے، ہم سے چھین لی جاتی ہے۔۔۔ اور ہم ہیں کہ کسی سہولت سے اپنی ہر آسانی چھننے دیتے ہیں۔
میں بھی کن سوچوں میں پڑ گئی تھی۔ ٹریفک نے حرکت شروع کردی تھی۔ اگلی صبح زبیدہ نے دروازے کے پیچھے کوڑا دیکھا، جو وہ اٹھانا بھول گئی تھی اور ٹھٹک گئی۔ چور نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میری طرف سے کوئی ردعمل نہ پاکر حیران ہوئی مگر خاموش رہی اور جھاڑو اٹھا کر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ بس اتنی سی بات… صبح صبح موڈ خراب کیے بغیر میں نے اخبار پر نظریں جمادیں۔lll