ایک روگ ایک علاج

شاہد ملک

بحیثیت قوم بھی اور بہ حیثیت ملت بھی ہم حقائق سے آنکھیں چرانے کی عادی ہوگئے ہیں لیکن بعض حقائق ایسے ہوتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔انہی تلخ حقائق میں سے ایک جہیز اور سماج پر پڑتے اس کے خطرناک اثرات ہیں۔
ہم نے بہت سی خرافات کو بطورِ رواج اپنی زندگی میں شامل کرلیا ہے، اور اپنے اجتماعی مزاج کے زیرِ اثر سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان کے مضمرات سے چشم پوشی کررہے ہیں۔
کچھ لوگ اسلام میں جہیز کو جواز فراہم کرنے کے لیے حضرت فاطمہؓ کے نکاح کے موقع پر ان کو دیے گئے سامان کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ کئی باتیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ سیدنا علیؓ بچپن ہی سے نبی کریم ﷺ کے زیرِ کفالت تھے، پھر مدینہ میں مواخات کے موقع پر آپؐ نے انہیں اپنا بھائی بنایا تھا۔ اس لحاظ سے سیدہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی شادی کے موقع پر آپؐ دولہا دلہن دونوں کے ولی امر تھے۔ جو سامان نبی کریم ﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو شادی کے موقع پر دیا وہ حضرت علیؓ کی زرہ کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدا گیا تھا۔ چنانچہ وہ ضروریات زندگی جو حضرت علیؓ نے اپنی خانہ آبادی کے لیے مہیا کیں انہیں سیدہ کے جہیز سے تعبیر کرنا قطعی درست نہیں۔ نبی کریم ﷺ مساوات انسانی کے سب سے بڑے علمبردار تھے، چنانچہ اس ناتے سے اگر آپؐ نے سیدہ فاطمہؓ کو کوئی جہیز دیا ہوتا تو پھر باقی بیٹیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے جبکہ سیرتِ طیبہ میں ہمیں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا۔
اب آئیے آج کے حالات کی طرف، ذرا اپنے گردو پیش کا کھلی آنکھوںسے جائزہ لیجیے، آپ دیکھیں گے کہ کتنے ہی والدین اولاد کا گھر بسانے کی تمنا سینے میں سموئے بیٹھے ہیں۔ ذرا غور کیجیے ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے بیٹی کے جہیز اور برات کے شایانِ شان استقبال کے لیے وسائل کی عدم دستیابی اور بیٹے کے لیے صاحب ثروت بہو کی تلاش رکاوٹ ہے۔
اگر دفاتر میں کام کرنے والی عفت مآب بیٹیوں سے پوچھا جائے کہ وہ نوکری کیوں کررہی ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ گھر میں بیٹھی بور ہوجاتی تھیں، اس لیے انھوں نے نوکری کرلی تاکہ وقت اچھا گزر جائے، جبکہ یہ حقیقت کے خلاف ہے، وہ بے چاری اپنی مشرقیت، حیا، خودداری اور سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے اصل بات نوک زبان پر نہیں لاتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ورکنگ گرلز کی ایک بڑی اکثریت صرف اس وجہ سے نوکری کرتی ہے کہ انہیں علم ہے کہ ان کے والدین انہیں ٹھیک ٹھاک جہیز دینے کے متحمل نہیں ہوسکتے، چنانچہ وہ اپنے جہیز کی تیاری میں والدین کا ہاتھ بٹاتی ہیں تاکہ انہیں لینے آنے والے شہزادے کی قیمت ادا کرنے میں ان کے والدین کو دشواری نہ ہو۔ اور وہ سسرال جاکر جہیز کی کمی کے طعنوں سے بچنے کی خاطر ایسا کرتی ہیں۔ اس دوران انہیں کن کن صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اس سے ملازمت کا تجربہ رکھنے والے خواتین وحضرات بخوبی واقف ہیں۔
ورکنگ گرلز کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کے والدین زندگی کی گاڑی بمشکل کھینچتے ہیں اور وہ انہیں دینے کے لیے جہیز کے متعلق سوچ کر خون کے آنسو پینے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے۔ جب ایسے گھروں کے دروازوں پر دستک دینے کوئی نہیں آتا تو ان گھروں کی بیٹیاں حالات سے مجبور ہوکر اپنے شہزادے کو تلاش کرنے خود نکل کھڑی ہوتی ہیں اور اس مقصد کے لیے نوکری کا سہارا لیتی ہیں۔
دونوں صورتوں میں کامیابی کے امکانات مختلف ہوتے ہیں۔ پہلی صورت میں کئی والدین جو زندگی کی گاڑی کھینچ کھینچ کر تھک جاتے ہیں، ان کے لیے بیٹی کی تنخواہ ایسا سہارا بن جاتی ہے، جس کے چھوٹنے کے خوف ہی سے وہ لرز جاتے ہیں، چنانچہ وہ بادلِ ناخواستہ بیٹی کی شادی میں تاخیر کرتے رہتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں روز مرہ کی زندگی میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
موجودہ حالات میں ملازمت کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں، چنانچہ کامیابی، ملازمت کی غرض سے نکلنے والی ہر لڑکی کا مقدر نہیں بنتی اور کئی عفت مآب بیٹیاں اس تگ و دو میں زیور عصمت سے محروم ہو جاتی ہیں۔ یہ کس قدر اندوہناک سانحہ ہے کہ حالات کے ہاتھوں مجبور معاشرے کی وہ بیٹیاں جنہیں عدم دستیابی جہیز کی بنا پر کوئی قبول نہیں کرتا، اپنی باقی بہنوں کا جہیز بنانے کے لیے زیور عصمت سے دستبردار ہو جاتی ہیں کیونکہ ان کے والدین کی آمدنی سے تو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا ہی مشکل ہے، جہیز اور براتوں کا شایانِ شان استقبال تو بہت دور کی بات ہے۔ ان حالات میں اگر انہیں چند ٹکوں کی نوکری بھی نہ ملے نہ معاشرہ جہیز کے بغیرقبول کرے تو وہ اور کیاکریں؟
اب اس شخص کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے جو لذیذ اور رنگ برنگ کھانے گدھوں کے سامنے ڈال کر خود غلاظت کے ڈھیر سے کھانے کے لیے کچھ ڈھونڈتا پھرے؟ آپ کی یہی رائے ہوگی کہ ایسا شخص بلا خوف تردید گھٹیا اور قابلِ نفرت ہے۔ معاشرہ میں مرد وخواتین کا تناسب تقریباً برابر ہے۔ جو بیٹوں والا ہے وہ بیٹیوں والا بھی ہے۔ اب منطقی طور پر اگر کوئی شخص بیٹیوں کے جہیز سے دامادوں کا گھر بھرنے کے بعد بہوؤں کے جہیز سے اپنا گھر بھرنا چاہے تو اندازہ کیجیے کہ اس کا خالص منافع کیا بنتاہے۔ اگرچہ بعض گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں بیٹے، بیٹیوں سے زیادہ ہیں لیکن ایسے گھرانوں کی بیٹیوں کو بھی یہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ اتنے بھائیوں کی بہن جہیز کیا لائی ہے! چنانچہ بات پھر وہیں پہنچتی ہے کہ کچھ دینے اور کچھ لینے کے بعد خاص منافع تقریباً صفر رہتا ہے۔
کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ سامان جس سے ہم دامادوں کا گھر بھرتے ہیں، اسے بیٹوں کا گھر بھرنے کے لیے استعمال کریں اور بہو کے جس جہیز سے ہم بیٹوں کا گھر بھرتے ہیں، اسے بہو کے بھائیوں کے لیے چھوڑ دیں۔ اس طرح کم جہیز لانے پر چولہا پھٹنے کے واقعات ہوں نہ شادی کے انتظار میں بیٹیوں کے سرچاندی سے بھریں۔
عجیب سوچ ہے پہلے تو ہم اپنے گھر سے سب کچھ اٹھاکر دوسروں کو دے دیتے ہیں اور پھر کسی دوسرے کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ہمارا گھر بھرے۔جہیز کے بارے میں بات کرتے وقت ہمارے ذہن و دماغ حرص اور لالچ سے بھرے ہوتے ہیں۔ بیٹی کی شادی کے وقت بھی اور بیٹے کی شادی کے وقت بھی۔ اس لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہم اپنے ذہن و دماغ کو پاک کرلیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام نے ماں باپ کی جائدادمیں بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کا حصہ رکھا ہے جبکہ ہم نے اس میراث سے بیٹیوں کا حصہ غصب کرلیا ہے اورمحض جہیز کے نام پر کچھ دے دلاکر انہیں ماں باپ کی میراث سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ نہ صرف اسلام کے صریح خلاف ہے بلکہ سماجی اور معاشرتی مسائل کو بھی جنم دیتا ہے۔ اور ان میں سرِ فہرست وہ جہیز ہے جو ہر سال ہزاروں لڑکیوں کی جان لے لیتا ہے اور لاکھوں دلہنوں کی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔
نہ جانے کیوں ہم حلال کو حرام کرکے کھانے پر تلے ہوئے ہیںاور جانتے بوجھتے ذلت و پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے پر بضد ہیں۔
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور قیامت کے روز اس سے اپنی رعایا کے متعلق باز پرس ہوگی، صاحبِ خانہ مرد سے اپنے گھر والوں کے متعلق باز پرس ہوگی۔ عورت سے، جو اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی و محافظ ہے، ان کے بارے میں باز پرس ہوگی اور خدمت گار سے جو اپنے مالک کے مالک کا راعی ہے، اس مال کے بارے میں باز پرس ہوگی۔‘‘ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کا تو ہر وقت رونا روتے رہتے ہیں لیکن اپنے رویوں کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ حکمرانوں کے اختیار میں تو بہت کچھ ہوتا ہے جس کی آخرت میں اللہ تعالیٰ اور اس دنیا میں اپوزیشن خبر لے گی جبکہ ایک عام آدمی کے اختیار میں صرف اپنے بیٹے کی قیمت لگانا ہوتا ہے جو وہ جہیز کی صورت میں زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اب یہ فیصلہ آپ خود کرلیجیے کہ اگر ہمیں بھی حکمرانوں جتنے اختیارات مل جائیں تو ہم کیا گل کھلائیں۔ اس کی تائید اس ارشاد نبوی ﷺ سے ہوتی ہے کہ ’’تمہارے اعمال ہی تمہارے حکمران ہیں۔‘‘ اس لیے جب تک ہم جہیز کی لعنت سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلیتے تب تک غاصب حکمرانوں سے نجات ممکن نہیں کیونکہ جن کا اپنا دامن داغدار ہو وہ دوسروں پر انگلی اٹھانے کا حق نہیں رکھتے۔
اگر ہم ایک صحت مند اور لوٹ کھسوٹ سے پاک معاشرے کے متمنی ہیں تو ہم سب کو آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بطورِ خاص قوم کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اس جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا کیونکہ ان خرافات کو دوام بخشنے میں انہی نے اہم کردار ادا کیا ہے اور زیادہ تر وہی ان مکروہ رسموں کی بھینٹ چڑھتی ہیں۔ انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ جہیز جیسی خرافات کے ساتھ طعن و تشنیع سے بھرپور زندگی گزارنا چاہتی ہیں یا ان لغویات سے پاک، مسرتوں اور خوشیوں سے مزین زندگی ان کی منزل ہے۔ یقینا وہ خرافات سے پاک اور خوشیوں سے بھرپور زندگی کے حق میں فیصلہ دیں گی۔ اگر ایسا ہے تو پھر آئیے ان تمام لغویات سے کنارہ کشی اختیار کریں اور ایک روشن مستقبل کی طرف متحد ہوکر قدم بڑھائیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146