ایک سوال جو پورے مسلم سماج کو دعوت غوروفکر دیتا ہے

....

کیاوہ لڑکی بھی کسی اجر کی مستحق ہے جس کی شادی نہ ہوئی ہو اوروہ اپنے اہل خانہ (جن میں بھائی، بھابھیاں اور ان کے بچے یا شادی شدہ بہنیں او ر ان کے بچے ہوں) کے ساتھ رہتی ہو، ان کے دکھ درد بانٹتی ہو اور گھر والوں کے حقوق پورے کرتی ہو۔ والدین کی خدمت تو اس کی سعادت ہے، اس لیے میں نے ان کا ذکر اہل خانہ میں نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دینی تقاضے پورے کرنے کی فکر کرتی ہو اور حیا کی جو حدود اللہ اور اس کے رسولؐ نے بتائی ہیں، ان کا اہتمام کرتی ہو۔

میں آپ سے یہ اس لیے پوچھ رہی ہوں کہ بیٹی کے حقوق ادا کرنے پر سرپرستوں کو ملنے والا اجر قرآن و حدیث میں پایا، بحیثیت بیوی کے عورت کے حقوق اور نیک سیرت بیوی کو ملنے والے اجر کا بیان بھی پڑھا اور وہ بیوہ عورت جواپنے بچوں کی پرورش کے متاثر ہونے کے ڈر سے شادی نہیں کرتی اور پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزارتی ہے، اس کا اجر بھی وضاحت سے پایا، لیکن ایک غیر شادی شدہ لڑکی کو جس میں اوپر بیان کردہ صفات کسی درجے میں پائی جاتی ہوں، اس کو بھی کسی اجر کی نوید سنائی گئی ہے یا نہیں۔ کیا حضور ﷺ کے زمانے میں لڑکیوں کی یہ قسم نہیں پائی جاتی تھی؟

ایسی لڑکیاں دنیا داروں اور ’’دین داروں‘‘ کی طرف سے بھی محض اپنے خوش شکل نہ ہونے کے باعث مسلسل رد کی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے ایک کرب میں مبتلا رہتی ہیں۔ اس صبر پر ملنے والے اجر کا اگر علم ہوجائے تو شاید اس اذیت میں کچھ کمی ہوجائے۔ شادی کا ہونا یا نہ ہونا تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ لیکن اس پورے عمل میں کہ ایک لڑکی کو دیکھا جائے اور اس کی عادات و اطوار اور دینی حالت کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے محض شکل و صورت کے معیار پر پرکھ کر رد کردیا جائے۔ تو وہ شدید اذیت سے دوچار ہوتی ہے۔ کیا اس لڑکی کو اپنے صبر پر کوئی اجر ملتا ہوگا؟‘‘

جواب:قرآن پاک اور احادیث شریفہ میں کثرت سے اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایک ذرہ برابر نیکی اور ذرہ برابر برائی کو نظر انداز نہیں فرمائیں گے (الزلزال: ۶-۸)۔ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل و احسان ان کی صفت توحید کے بعد غالباً سب سے زیادہ اہم صفت کہی جاسکتی ہے۔ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی وہ اپنے بندوں کے ساتھ عدل اور احسان کا رویہ اختیار فرماتے ہیں۔ اس لیے ایسے افراد کے حوالے سے بھی جو اہل کتاب میں سے ہوں اور عمل صالح کررہے ہوں، عدل کے تقاضے کے پیش نظر یہ نہیں فرمایا گیا کہ چونکہ وہ اہل کتاب ہیں، ان کا عمل صالح یا عمل خیر ضائع ہوجائے۔ گو نجات کے لیے اسلام لانے کو شرط قرار دے دیا گیا ہے۔ (البقرہ: ۶۲)

اس بنیادی اصول کی روشنی میں اگر نیک اور پاک دامن لڑکی کسی بنا پر رشتہ ازدواج میں منسلک نہیں ہوسکی لیکن وہ اپنے والدین اور اہل خانہ کے ساتھ بھلائی، محبت، خدمت کارویہ اختیار کرتی ہے تو عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ اس کا یہ عمل خیر بجائے خود ضائع نہ ہو اور اسے اس کا مناسب اجر ملے۔ آپ نے خود بھی اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مثلاً ایک بیوہ اگر پاک دامنی برقرار رکھتے ہوئے محض اس خیال سے نکاح نہیں کرتی کہ اس کے بچوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کر پرورش صحیح طور پر نہ ہوسکے گی تو وہ اپنے اس صبر کا اجر پائے گی۔

لیکن آپ کے سوال کا دوسرا پہلو میری نگاہ میں زیادہ اہم ہے، یعنی کیا ایک غیر شادی شدہ لڑکی کو جب وہ خود شادی کرنے کے لیے آمادہ ہو لیکن اس کی شکل و صورت، مالی حالت، معاشرتی مقام یا کسی اور سبب سے شادی کے لیے پسند نہ کیا جائے، توکیا پھر بھی وہ اس حدیث کی تعریف میں آئے گی جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔

اسلام میں ہر عمل کی بنیاد دو چیزوں پر ہے، نیت اور اختیار و وسعت یا استطاعت۔ اگر ایک فرد کی نیت حج کی ہے اور دوران سفر انتقال کرجائے تو گو اس فرد نے عملاً حج نہیں کیامگر قرآن کی روشنی میں اس کا حج قبول کرلیا جائے گا۔ ایسے ہی اگر ایک شخص کو ایک کام کی طاقت، استطاعت، وسعت یا اختیار نہ ہوتو اس پر مسئولیت بھی نہیں ہوتی۔ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا۔ (البقرہ: ۲۸۶)۔ اسلامی تعلیمات کتنی سادہ، سیدھی آسان اور عملی ہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ نکاح جیسی سنت، جس کی اسلام کے نظام حیات میں مرکزی اہمیت ہے، اس سے جان بوجھ کر اپنے آپ کو روکنا اور نکاح کی خواہش کے باوجود نکاح نہ ہوپانا دو مختلف کیفیات ہیں۔ موخر الذکر صورت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے اس بات کی امید اور دعا کرنی چاہیے کہ وہ اس کا بہترین اجر اس دنیا اور آخرت میں عطا فرمائیں۔ ’’دنیا داروں‘‘ کی طرف سے محض شکل و صورت یا رنگ کی بنا پر ایک صالح لڑکی کو شادی کے لیے قبول نہ کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ’’دین دار‘‘ افراد کی جانب سے ایسا عمل سخت تکلیف کا باعث ہے۔نبی کریم ﷺ نے بلاشبہ شادی کے حوالے سے جن خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے، اس میں حسن، دولت، خاندان کا ذکر بھی ہے لیکن اس حیثیت سے نہیں کہ اس کو اولیت دی جائے بلکہ اس حیثیت سے کہ ان سب سے بڑھ کر صالحیت اور تقویٰ وہ خصوصیت ہے جو فی الاصل شادی کے لیے بنیاد ہونی چاہیے۔ اس لیے ’’دین داروں‘‘ کا حضور نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے باوجود محض شکل و صورت کی بنا پر کسی کو پسند نہ کرنا اور اسلامی شخصیت و کردار کو ثانوی حیثیت دینا سنت کی روح کے بالکل منافی ہے۔ ایسی لڑکیوں کا صبر و استقامت پر اور اپنے آپ کو پاک دامن رکھنا ایک نوعیت کا جہاد ہے جس پر اجر کی پوری امید رکھنی چاہیے۔ انشاء اللہ۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مادہ پرستی کے اس دور میں ہم نے نہ صرف قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے بلکہ ان آفاقی اسلامی اقدار کو بھی بھلا دیا ہے جو صالحیت اور کردار و عمل کو ترجیح دینا سکھاتی ہیں۔ ہمیں خود احتسابی کرتے ہوئے روح اسلام کو تازہ کرنے کے لیے سماجی جہاد کے ذریعہ ان فرسودہ روایات کی اصلاح کرنی ہوگی تاکہ ان صالح لڑکیوں کو ذہنی تکلیف سے بچایا جاسکے جو محض سماجی روایات کی بنا پر نکاح کی سنت سے محروم کردی جاتی ہیں۔ (ڈاکٹر انیس احمد)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں