ایک سو اِکیاون روپے

علی احمد صغیر

کمرے کے شمال مغربی کونے میں ابا جان کا پلنگ بچھا تھااور سرہانے کی سمت دیوار پر تیل کا نشان! وقت کی دھول سے اس کا رنگ مٹیالاہو چلا تھا۔ ابا جان اخبار اور رسائل پڑھتے ہوئے اپنا سرخ کڑھائی والا عربی رومال سر کے نیچے رکھ لیتے۔ باقاعدگی سے بالوں میں تیل لگانے کے باعث دیوار پہ سرکی پشت کا نشان پڑ گیا تھا۔ ایک دن انھوں نے پلنگ کی جگہ بدلی تو بہت نرمی اور آہستگی سے اس نشان کو چھْو کر دیکھا۔ ان کی آنکھیں نم ناک ہو گئیں۔ بیٹی قریب ہی کھڑی تھی۔ پوچھنے لگی ’’ابو! آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘

’’بیٹا… یہ دیکھو، دادا ابو کی نشانی۔ ان کا پلنگ ہمیشہ اسی کونے میں رہتا تھا۔ وہ چیزوں کی ترتیب بار بار بدلنے کے قائل نہیں تھے۔‘‘

’’ابو! آپ کو بھی دادا جان اسی طرح اچھے لگتے ہوں گے جیسے آپ ہمیں؟‘‘ بیٹی نے معصومیت سے پوچھا۔

’’جی بیٹا…!‘‘

انھوں نے پھر نشان کواسی محبت، عقیدت اور احترام سے چوما جیسے باپ کی پیشانی کو سفرِ آخرت کے وقت بوسہ دیا تھا۔ آنکھ کے کونے پر ٹھہرے آنسو شہادت کی انگلی سے سمیٹتے ہوئے بولے، ’’بیٹا! تمھارے دادا بہت عظیم تھے۔‘‘

’’ابو! آپ نے اسی لیے دادا کی جوتی، جرابیں، پرفیوم، عطر، گھڑی، کپڑے، ترکی ٹوپی اور بندوق سنبھال رکھی ہے؟‘‘

’’بیٹا! اس خزانے میں اب بندوق نہیں۔‘‘

’’کیوں ابو…؟‘‘

’’جب تمھارے دادو کو جگر کا سرطان ہوا تھا نا، اس وقت مالی مسائل کی وجہ سے اسے چودہ ہزار روپے میں بیچ دیا۔ اتنی قیمتی متاع میں نے کوڑیوں کے مول بیچ دی… صرف چودہ ہزار۔‘‘

’’ابو! وہ ہماری دادو سے زیادہ قیمتی تو نہیں تھی نا؟‘‘ بیٹی نے کہا۔

’’بیٹا! ماں باپ کی ہر چیز، باتیں، یادیں، دوست احباب، ان کی استعمال شدہ چیزیں، گھر اور قبریں تک انمول ہوتی ہیں۔‘‘

بیٹی ماں کے آواز دینے پر باہر چلی گئی۔

بیٹی پوچھ رہی تھی، ابو جب یہ کمرا پینٹ ہوگا، تو یہ نشان مٹ جائے گا؟ ’’بیٹی ٹھیک ہی تو کہتی ہے۔ یہ نشان باقی رکھنے کے لیے کمراپینٹ ہی نہ کرایا جائے۔‘‘ انھوں نے سوچا۔

ان کے والد جس عجلت سے زندگی کے مسائل نمٹاتے تھے، اسی تیزی سے انھوں نے آخرت کا سفر اختیار کر لیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ والد خوابوں میں انھیں تواتر سے ملتے رہے۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جسے خواب کہا جا سکے، سب پر حقیقت کا گماں گزرتا۔ وہی اجلا لباس، ترکی ٹوپی، واسکٹ، جوتیوں کی چمک۔ زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک کھیت پر کبھی دوسرے کھیت پر، کبھی سنبل اور شیشم کے درختوں کے درمیان، بیٹے سے سوال کرتے ہوئے ’’میرے جانے کے بعد تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں…؟‘‘ کیا ماں باپ مر جانے کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں، خبرگیری کرتے ہیں…!

اعجاز صاحب کا تعلق سفید پوش اور متوسط گھرانے سے تھا۔ والد کی طرح سادگی کا بے مثال نمونہ تھے۔ گھر میں تہبند باندھتے، کرتہ اور سر پر سرخ کڑھائی والا رومال لپیٹ لیتے۔ ۰۲ ایکڑ زمین تھی۔ گھر میں خوش حالی تو نہ تھی لیکن عسرت نے بھی ڈیرے نہیں ڈالے۔ صبح موٹر سائیکل پر قریبی شہر اپنے کاموں سے نکلتے تو اجلے کپڑے پہن کر، سر پرترکی ٹوپی لیتے اور چشمہ لگاتے۔ مزاج انتہائی نفیس۔ صحت قابل رشک تھی۔ عمر کے پچاسویں سال بھی جوان نظر آتے۔ زندگی میں نہ کبھی کسی کے سامنے مسائل کا رونا رویا اور نہ ہی ہاتھ پھیلایا۔ قناعت کے بہت اونچے منصب پر فائز تھے جو کم ہی کسی کے نصیب میں آتا ہے۔ ماں یا بیوی کھانے کے دوران جو بھی سامنے لا کر رکھ دیتی، چپکے سے کھا لیتے۔ کبھی مین میخ نہیں نکالی۔ زندگی میں ایک بھی دن ایسا نہیں تھا جب انھوں نے کھانے پر اعتراض کیا۔ معترض ہونا ان کی فطرت میں تھا ہی نہیں۔ لگتا تھا، ان کا خمیر قناعت اور صبر کی مٹی سے گندھا ہے۔ سالن میں اگر مرچ نمک ذرا تیز ہوتی یا ذائقہ ان کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتا، تو بیگم کو آواز دے کربس اتنا کہتے، ’’ بی بی! دودھ کا گلاس لا دو۔‘‘

گرمیوں میں باقاعدگی سے صبح ناشتے میں آم نچوڑ لیتے۔ اس میں چینی اور دیسی گھی ملاتے اور اسی سے ناشتا کرتے۔ یہ ان کا معمول تھا۔ گرمیوں کی دوپہر لسی اور مکھن ضرور لیتے۔ کبھی کبھی مکھن میں شکر ملا لیتے۔ سردیوں میں بچوں کے لیے میوہ جات باقاعدگی سے لاتے۔ انھوں نے ٹریکٹر خریدا تو وہ عہد تھا جب علاقے میں کسی کے پاس یہ سہولت موجود نہ تھی۔ لوگ دور دور سے ٹریکٹر دیکھنے آئے۔ پہلا سائیکل اور موٹر سائیکل خریدنا بھی علاقے میں ان ہی کا مقدر ٹھہرا۔ ٹریکٹر کے آ جانے سے گھر میں خوش حالی آ گئی۔ زمین کی بیجائی میں بھی آسانی ہوئی۔ بیوی رقم پس انداز کر کے بیٹیوں کے جہیز کے لیے چیزیں جوڑ جوڑ رکھنے لگی۔ ابو کے لباس، انداز اور طرزِ زندگی میں سرِموفرق نہ آیا۔ لوگ چہ مگوئیاں کرنے لگے کہ ٹریکٹر آنے سے ان کے گھر ہْن برسنے لگا ہے۔ غلے کے ڈھیر دیکھ کر حاسد حسد کی آگ میں جلتے۔ انھوں نے تعویذ گنڈے کا سہارا لے کر اس گھر کو برباد کرنے کی اپنی سی کوشش کر دیکھی۔ لیکن اللہ حفاظت کرے تو سانچ کو آنچ نہیں۔

ایک دن بیوی نے پوچھا ’’ٹریکٹر آنے سے بہت زیادہ آمدنی ہونے لگی ہے؟‘‘

’’نہیں بی بی، لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرا کرو۔ اللہ نے دال روٹی دے رکھی ہے۔ صبر شکر کیا کرو، سفید پوشی کا بھرم قائم ہے۔‘‘

سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے ہی بیٹیوں کی شادی پر پندرہ ایکڑ زمین بک گئی تاکہ وہ اپنے سسرال میں آسودہ رہیں۔ بہترین فرنیچر بنوایا۔ جس نے دیکھا، انگشت بدنداں رہ گیا۔ بیٹیوں کی رخصتی آن بان اور شان سے ہوئی۔

ان کی کل کائنات لکڑی کی ایک الماری اور چمڑے کا خاکستری رنگت والا صندوق تھاجس میں کبھی چار سے پانچ جوڑے کپڑے نہ ہوئے۔ واسکٹ کی تعداد ہمیشہ دو ہی رہی۔ بوسکی کا ایک کرتہ، تین چار عدد بنیان جن میں جیب لگے تھے، جن کووہ ’’پھتوئی‘‘ کہا کرتے اور دو رومال۔

ایک دن بیوی نے پوچھا ’’بیٹیاں تو اپنے گھر کو سدھاریں، بیٹے کے لیے کچھ پس انداز کیا ہے؟‘‘

’’تربیت اور تعلیم کے لیے جو مجھ سے بن پڑا، میں نے کمی نہیں کی۔ آگے اللہ مالک ہے۔‘‘

’’آپ اپنی آمدنی مجھ سے چھپا کر رکھتے ہیں؟‘‘

’’نہیں بی بی، میں نے کبھی کچھ نہیں چھپایا۔ پہلے بھی کہا تھا، لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرا کرو۔ اب اب تو ہاتھ تنگ ہونے لگا ہے۔‘‘

’’ایک دوست کے ساتھ آپ نے اسّی ہزار روپے کی رقم کاروبار میں لگا رکھی تھی، وہ کیوں نکلوا رہے ہیں؟‘‘

’’قرض بہت چڑھ گیا ہے۔‘‘

’’قرض اور آپ پر…؟‘‘

’’بی بی… تم نے دیکھا نہیں، ٹریکٹر بکا، ٹرالی، ہل، بلیڈ، تھریشر بھی بک چکے۔‘‘

’رقم کہاں گئی…؟‘‘

’’تمھاری ضد کی بھینٹ چڑھ گئی۔ تمھارا اصرار تھا کہ بیٹیوں کا جہیز کسی پہلو سے کم نہ ہو۔‘‘

مگربیگم کو یقین تھا کہ تمام مسائل کے باوجود یقینا کچھ نہ کچھ تو پس انداز کیا ہو گا۔ آخر لوگوں کی باتوں میں کچھ نہ کچھ تو صداقت ہو گی۔ گھرمیںبھی کسی چیز کی کمی نہیں۔ بیوی نے سوچا ’’یہ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔‘‘ اچانک ایک صبح قیامت گزر گئی۔ خون پیتی شاہراہوں پر وہ حادثے میں اپنی جان ہار گئے۔ پھر وہی مسائل کا سلسلہ… معاشی تنگی… قرض… تفکرات… الجھنیں… سوچیں…!

گھر میں بچوں کی طرح ان کی چوبی الماری اور چمڑے کا خاکستری صندوق بھی تنہا رہ گئے۔ وہی صندوق جس میں کبھی چار سے پانچ جوڑے نہ ہوئے۔

ان کی الماری ہمیشہ مقفل رہتی تھی۔ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا اس میں کیا ہے…؟موت کا پروانہ (ڈیتھ سرٹیفکیٹ )بنوانے کے لیے شناختی کارڈکی ضرورت پڑی، تو بیوہ نے پہلی بار مقفل الماری کھولی۔

اس میں کیا تھا…؟ حساب کتاب کی ڈائری، زمینوں کے بہی کھاتے، عطر، پالش، برش، ٹریکٹر کی مرمت کے اوزار، پلاس، رینچ، چابیاں، پانے، ٹریکٹر کی بیٹری چارج کرنے والا آلہ، جوارشِ جالینوس، ترکی ٹوپی، خاندانی خطوط، تصاویر اور کبھی مایوسی در آنے پر ڈائری میں لکھے چند اشعار… سٹیمپ پیڈ، مہر اور … تین بینکوں کی کیش بکس…

شناختی کارڈ اٹھا کر الماری پھر مقفل کر دی۔ کئی دن گزر گئے۔ گھر میںمالی مسائل ابھرنے لگے۔ ماں نے بیٹے کی پریشانیاں دیکھ کر ایک دن اسے اپنے پاس بلایا، پیار کیا، سمجھایا اور کہا ’’بیٹا! تمھارے ابو بہت زیرک اور دانا انسان تھے۔ ایک نہیں تین بینکوں میں ان کا اکائونٹ ہے۔ یہ لو اکائونٹ نمبراور جا کر بیلنس معلوم کر آئو۔‘‘

بیٹے نے ماں کی تسلی آمیز گفتگو اور چیک بکس دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا اور بینک کی راہ لی۔تینوں بینکوں کی بیلنس شیٹ لیے واپس وہ گھر پہنچا۔ ماں منتظر تھی۔ ’’بیٹا! کتنی رقم ہے بینکوں میں…؟‘‘اس نے پوچھا

’’ماں! ایک سو اکیاون روپے۔۔۔!‘‘ بیٹے نے رکھائی سے جواب دیا اور اپنے کمرے کی سمت چل پڑا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں