ابھی تک تو یہی سنا تھا کہ قرآن ہر انسان کے لیے ہے اور اس کی دعوت، اس کی تعلیم بھی۔ لیکن اآج دل عجب انداز میں قرآن کی طرف ہمکا تھا۔ یہ کلام تو ماؤں کے لیے بھی ایک پیمانہ ہے۔ یہ ماؤں کو بتاتا ہے کہ تربیت کے رہ نما اصول کون سے ہیں اور رکاوٹیں کیا ہیں؟ اور سکھاتا ہے دعائیں!
اس ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرنے والے نے یہ کلام اتارا تھا کہ وہ اپنے بندوں کو بھٹکنے اور ناکام ہونے سے بچائے اور ان ماؤں کو یہی تو کرنا تھا کہ اس علم کو اپنی اولاد میں یوں اتاریں کہ وہ بھٹکنے اور ناکام ہونے سے بچ جائے اور انھیں دین اور دنیا کی بہتری حاصل ہوجائے اور جہنم کی آگ سے بچایا جائے۔
بالآخر غافرہ کی الجھن تمام ہوئی…
دل و دماغ سے گرد صاف ہوئی تو سب سمجھ میں آنے لگا۔راستے سوجھنے لگے اور اب ایک سفر تھا جو اسے طے کرنا تھا۔
منزل کو پائیں گے ہم بیڑہ اٹھا چکے ہیں۔
اور پھر ایک نئی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ماں بنانے کے بعد اللہ نے اسے کس ذمہ داری کی ڈور سونپی تھی اس کا اسے احساس ہونے لگا تھا۔ اس کی پوری توجہ اب ماویہ پر تھی۔ اس نے سب سے پہلے اپنا انداز بدل دیا تھا۔
ہر وقت کی روک ٹوک اور بات بات پر نصیحت بچوں کو جہاں بغاوت پر اکسا کر انھیں اپنے ماحول سے بیزار کر دیتی ہے وہیں ان کی ذہنی نشو ونما کو بھی سست کر دیتی ہے۔
وہ اب ماویہ کے ساتھ بیٹھ کر خود سارے کارٹون دیکھتی… وہ اب سمجھ رہی تھی کہ ماویہ جو روز بروز ضدی، ہوتی جا رہی تھی اور عجب عجب طرح کے نئے الفاظ سیکھتی جا رہی تھی وہ ان کارٹونس کی دین تھی۔
مائیں یہ سمجھتی ہیں کہ بچہ اگرکارٹون دیکھ رہا ہے تو اس میں سب کچھ صحیح ہی دیکھ رہا ہے کیوں کہ کارٹون بچوں کے لیے ہی تو بنائے جاتے ہیں لیکن کسی دن بیٹھ کر اگر یہ کارٹون دیکھ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اس میں انٹرٹینمنٹ کے نام پر بچوں کے معصوم ذہنوں سے کھیلا جاتا ہے۔ کرشنا، ننھا کرشنا، ؟؟؟ او را س جیسے بے شمار کارٹون بچوں سے اخلاقیات نامی چیز کو دھیرے دھیرے چھین لیتے ہیں اور ہم سمجھ ہی نہیں پاتے۔
غافرہ نے دھیرے دھیرے ماویہ کے موبائل دیکھنے کو کٹرول کرنا شروع کر دیا تھا۔ ماوی چڑ جاتی… کبھی اتنا رونے لگتی کہ اسے سنبھالنا مشکل ہوجاتا لیکن ماں سے زیادہ اولاد کو کون بہلا سکتا ہے۔ وہ خود اس کے ساتھ مختلف کھیل کھیلنے لگتی۔ آنکھ مچولی، چھپا چھپی کیرم، رسی، پکڑا پکڑی، بال، کرکٹ، سانپ سیڑھی اتنے کھیل تھے کہ ماویہ بہل ہی جاتی۔ اور غافرہ تو اس دوران اپنے بچپن کو ایک بار پھر سے جینے لگی تھی۔
پہلے پہل تو جیسے اس کی زندگی کا توازن بگڑنے سا لگا تھا۔ ماویہ کے پیچھے مسلسل رہنے کی وجہ سے گھر کا حال بے حال ہوگیا تھا۔ کھاناوقت پر نہ پکتا، ابتسام کے کپڑے استری کرنا رہ جاتے، میل جول والے آتے تو گھر کی حالت سدھارنے میں غافرہ پریشان ہوجاتی، ابتسام بھی چڑ جاتا۔ پہلے تو غافرہ ماویہ کو موبائل دے دیا کرتی، اور خود کام نپٹنانے لگتی تھی۔ عادتیں یونہی تو نہیں بگڑا کرتی ہیں۔ اور عادتیں جب یوں بگڑ جائیں تو پھر انھیں سدھارنے کے لیے کوششیں کرنی پڑتی ہیں۔
اب وہ رات میں دیر گئے ہی سو پاتی تھی۔ ماویہ کے سوتے ہی وہ ابتسام کے کپڑے استری کردیتی، جوتے پالش کردیتی، صبح ناشتے کی تیاری کر کے رکھ دیتی… اگلے دن فجر کی نماز کے بعد ہی ناشتہ ابتسام کا ٹفن اور کھانا تیا رکرلیتی۔ دھیرے دھیرے وہ خود بھی سگھڑ اور سلیقہ مند ہو رہی تھی۔
ماویہ کے لیے وہ بہت سارے رنگوں کے ڈبے، رنگین تصاویر کے ساتھ والی اسٹوری بکس، بلاکس اور نہ جانے کون کون سے کھلونے خرید لائی تھی، اس میں اسے مصروف کر کے وہ اپنے کام کرلیا کرتی۔
شروعات میں ابتسام کو غصہ آجاتا جب وہ ماویہ کو موبائل کے لیے روتے دھوتے اور ضد کرتے دیکھتا لیکن غافرہ اس کے غصہ کو خاموشی سے برداشت کرلیتی۔ وہ اگر اسے سمجھانے بیٹھتی تو اس کی سمجھ میں نہ آتا۔ اسے لگتا کہ وہ ایک بہت غلط attitude رکھ رہی ہے۔ ایک مرتبہ تو وہ بہت غصہ میں آگیا تھا۔
’’تم اسے ٹیکنالوجی سے دور کر رہی ہو۔ اسے خود کی طرح ۱۹۶۰ کی مت بنا کر رکھو۔‘‘
’’اس تین چار سال کی بچی کو ٹیکنا لوجی کی نہیں ماں باپ کے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ غافرہ نے اس سے کہا۔
’’تم ہم وقت دیتے ہی ہیں نا اسے! تم بھی تو سارا دن گھر ہی پر ہوتی ہو کوئی کام تو نہیں ہوتا تمہیں۔ اسے وقت دیا کرو اور اسے اس کے زمانے ہی کی رہنے دو۔ پرانا وقت گیا جب لڑکیوں کو کنویں کا مینڈک رکھا جاتا تھا۔‘‘ ابتسام نے چڑ کر جواب دیا تو غافرہ خاموش رہ گئی اور اسی خاموشی سے آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے ڈھکیلا۔ اس کا دل دکھ سا گیا لیکن وہ خاموش ہی رہی۔ مرد کا یہ جملہ عورت کا دل بری طرح دکھا جاتا ہے کہ وہ سارا دن گھر پر کرتی کیا ہے! اور جب کچھ نہیں کرتی تو کم از کم بچے کو ہی دیکھ لیا کرے۔ مطلب یہ کہ وہ بچوں کو بھی نہیں دیکھتی۔ ہا … ہا… کیسی حیرت کی بات ہے نا! اور اگر کسی دن بیوی کچھ بھی نہ کرے تو شاید انھیں سمجھ آئے۔‘‘
غافرہ نے طے کیا تھا کہ اس قسم کی بحثوں میں وہ صبر کرے گی بحث نہیں۔ کیوں کہ اگر وہ زبانی اسے یہ سمجھاتی کہ موبائل کس طرح معصوم بچپن کو تباہ کرتا ہے تو وہ اس کی بات کو ویسا ہی ہلکے میں لیتا جیسے کہ عموماً اس موضوع کے تحت آنے والے دیگر مضامین اور رپورٹس کو لیتے ہیں۔ اس نے بس اپنا کام جاری رکھا اور اللہ سے دعا مانگتی رہی کہ و یسرلی امری (میرے لیے آسان کر میرا کام)۔
اور پھر صرف چند ماہ میں ہی ماویہ میں بڑی مثبت تبدیلیاں نظر آنے لگیں۔ وہ اس کا بات بے بات رونا، ضد کرنا، بدتمیزی کرنا اور اس کا وہ چڑچڑا پن بھی بہت کم ہوگیا تھا۔ ابتسام نے خود بھی یہ تبدیلیاں محسوس کیں لیکن وہ اس کا کریڈیٹ غافرہ کو نہ دے سکا۔ بھلا ایک موبائل کا کم سے کم استعمال یہ سب کیسے کر سکتا ہے۔ وہ اس بات کا قائل کبھی نہ ہوتا اگر اس دن ڈاکٹر آفتاب وہ کمنٹ نہ کرتے جو انھوں نے اس وقت کیا جب وہ ماویہ کو ہوسپٹل لے کر گئے۔ سردی زکام کی ہوا چل رہی تھی سو ماویہ بھی اس کا شکار ہوگئی۔ وہی بتانے وہ اسے چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر آفتاب کے پاس لے گئے وہی ماویہ کے ڈاکٹر تھے۔
’’بس تھوڑا فلو ہوگیا ہے یہ چند دوائیں لے لیجیے، بھاپ دیجیے، گرم رکھا کریں اسے دو تین دن میں ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘ انھوں نے ماویہ کے گالوں پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا۔
’’ویسے ماویہ کی ہیلتھ پہلے کے مقابلے بہت بہتر لگ رہی ہے، پہلے سے زیادہ شارپ اور الرٹ … اور Well behaivedبھی۔‘‘ کچھ منٹوں میں ہی انھوں نے Observe کرلیا تھا۔
’’لگتا ہے کہ اب موبائل اور ماویہ میں کافی دوری ہوگئی ہے۔‘‘ انھوںنے ہنستے ہوئے ماویہ کو دیکھا جو ان کے کلینک میں رکھے بچوں کے کھلونوں کو بڑے شوق سے دیکھ رہی تھی۔ ان کی اس بات پر دونوں ہی چونک گئے بالخصوص ابتسام۔
’’ہاں… لیکن آپ نے کیسے اندازہ لگایا؟‘‘ غافرہ نے اپنی حیرت چھپاتے ہوئے پوچھا تو ڈاکٹر آفتاب نے ایک گہری سانس لی۔
’’میڈم، ہم دن بھر میں تقریباً پچیس سے تیس بچوں کو دیکھتے ہیں۔ کبھی کم کبھی زیادہ۔ اکثر بچے تو یہاں Seatپر بیٹھ کر بھی موبائل میں لگے ہوتے ہیں۔ مسلسل موبائل میں مگن رہنے سے ان کی الرٹنس کم ہونے لگتی ہے۔ ریسرچ ورک نے بتایا ہے کہ موبائل، لیپ ٹاپ وغیرہ کا حد سے زیادہ استعمال بچوں میں ارتکاز کی کمی کا سبب بنتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر آفتاب نے ایک فولڈر انھیں دیا جس میں ایک معصوم سی بچی کے ہاتھ میں بڑا سا ٹیپ تھا جسے وہ بہت غور سے دیکھ رہی تھی اس تصوiر کے ساتھ لکھا تھا کہ
Too much Gadget use
can damage your child
it can cause…..
speech delay
attention deficits
leaming problems
Anxiety
childhood depression
دیر سے بات کرنا، الرٹنس میں کمی، نئی چیزیں سیکھنے میںمشکل تھکان، مایوسی، ڈپریشن…‘‘
ابتسام تو دنگ رہ گیا اور دل سے اب وہ اس بات کا قائل ہوگیا تھا۔ واپسی میں جب اس نے غافرہ سے اس کا ذکر کیا تو غافرہ کے جواب نے اسے مزید حیران کر دیا۔
’’مجھے یہ سب تو پتہ ہی نہ تھا ابتسام! میں تو بس یہ کوشش کر رہی ہوں کہ اپنی بیٹی کو اعتدال سکھاؤں۔ اسے زیادہ Productive کاموں کی ترغیب دوں۔ میں اس کے اندر صحیح اور غلط کی کسوٹی ابھی سے فٹ کرنا چاہتی ہوں۔ اسے ایک مثبت شخصیت بنانا چاہتی ہوں۔ باقی سائنس اور ریسرچ کا مجھے کچھ خاص پتہ نہیں۔‘‘ غافرہ نے بڑی سادگی سے بات ختم کی۔ اگلے دنوں میں غافرہ کے مزید کچھ Plans اس کے سامنے آئے تو وہ سب بھول کر اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
’’یہ سب کیا ہے غافرہ…؟‘‘ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔ اور غافرہ کا جواب اسے بھی ایک روشن راہ دکھا گیا تھا۔lll