وہ اپنی آمدنی کا ۹۰ فیصد عوام پر کیوں خرچ کرتا ہے کسی بھی ملک کے سربراہ کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کے فائدے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر کام کرے۔ شاید ہمارے نصیب میں ایسے حکمران آئے ہی نہیں ہیں۔ انھیں اس بات کی قطعاً فکر نہیں کہ عوام کے پاس روزگار ہے یا اْن کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت اور دو وقت کی روٹی بھی ہے یا نہیں؟ انھیں دن رات یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اپنی جیبیں کیسے بھرنی ہیں۔
دنیا میں ایسے حکمران بھی ہیں جو اپنی زیادہ تر آمدنی غریب عوام پر خرچ کر دیتے ہیں۔ یوراگوئے کے صدر خوسے موخیکا بھی ایک ایسے ہی حکمران ہیں جو اپنی کل آمدنی کا ۹۰ فیصد عوام کی فلاح پر خرچ کر دیتے ہیں۔ صدر خوسے موخیکا نے حکومت کی جانب سے مراعات سے بھرپور رہائش گاہ کو رد کر دیا اور دارالحکومت کی ایک سڑک کے کنارے اپنی بیوی کے گھر میں رہنا پسند کیا۔
صدر موخیکا اور ان کی اہلیہ خود کھیتوں میں کام کر کے پھول اگاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے کپڑے دھونے کے لیے گھر کے باہر جگہ بنا رکھی ہے۔ پینے والا پانی وہ قریبی کنوئیں سے حاصل کرتے ہیں۔ اس کنوئیں کے اردگرد جنگلی پھول اگے ہوئے ہیں۔ یوراگوئے کے صدر خوسے موخیکا کی طرز زندگی دنیا کے دوسرے رہنمائوں سے یکسر مختلف ہے۔ ان کے گھر کے باہر صرف دو پولیس اہل کار تعینات ہیں جنھوں نے اپنے پاس تین کتے رکھے ہیں۔
صدر موخیکا اپنی تنخواہ میں سے ۱۲ ہزامریکی ڈالر غریبوں میں خیرات کر دیتے اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں سب سے غریب صدر جانے جاتے ہیں۔ اْن کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی زیادہ تر زندگی ایسے ہی گزاری ہے۔ میرے پاس جو کچھ ہے، میں اْسی کے ساتھ اچھی زندگی گزار سکتا ہوں۔ صدر موخیکا کی تنخواہ کا بڑا حصہ غریبوں اور چھوٹے تاجروں کی مدد کے لیے مختص ہونے کے بعد ان کی بقیہ تنخواہ یوراگوئے کے ایک عام آدمی کے برابر رہ جاتی ہے جو ۷سو ۷۵ ڈالر ماہانہ ہے۔
یوراگوئے میں ایک قانون کے مطابق صدر کو ہر سال اپنی سالانہ آمدنی ظاہر کرنا ہوتی ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ان کی سالانہ آمدنی ایک ہزار آٹھ سو ڈالر تھی۔ یہ رقم ان کی ۱۹۸۷ء میں خریدی گئی گاڑی کی قیمت کے برابر ہے۔ اِس برس انھوں نے اپنے ساتھ ساتھ اپنی اہلیہ کے اثاثے بھی ظاہر کیے ہیں، جن میں زمین، ٹریکٹر اور ایک گھر شامل ہے۔ ان سب چیزوں کی کل قیمت ۲لاکھ ۱۵ ہزار ڈالر کے قریب ہے۔
یوراگوئے کے محقق لگینسوز وینسر کا کہنا ہے کہ کئی لوگ صدر موخیکا سے ان کے انداز رہائش کے باعث ہمدردی کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان کی حکومت کی کاکردگی پر تنقید کم نہیں ہوتی۔ ۲۰۰۹ء کے انتخابات کے بعد صدر موخیکا کی شہرت میں ۵۰فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں برس یوراگوئے کے صدر دو متنازع اقدامات کے باعث تنقید کا نشانہ بنے۔
صدر موخیکا کو اپنی مقبولیت کم ہونے پر زیادہ پریشانی نہیں ہے کیونکہ وہ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں دوبارہ حصہ نہیں لے سکتے۔ ۷۰ سال کی عمر میں اب وہ سیاست سے ریٹائر ہونے والے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں ریاست کی جانب سے پنشن ملے گی اور اپنے محدود خرچ کے باعث کسی سابق صدور کی طرح ان کی آمدنی میں اتنی کمی نہیں ہو گی جس سے اْنھیں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔