ایک ضرورت کی موت

خالد مجید

کون ہے…؟ میری آہٹ پر اس نے لحاف سے منھ نکالا۔

کھیں… کھانسی کے مصنوعی لہجے میں میں نے جواب دیا۔ اس نے سر تک لحاف کھینچا اور سوگئی۔

میں نے اس کے چہرے پر اطمینان کی گرماہٹ دیکھی اور کمرے سے بغیر آہٹ کیے باہر آگیا۔

میں آنگن میں کہرے، سردی اور سناٹے کے درمیان خاموش کھڑا تھا۔ وہاں میرے اور سردی کے سوا کوئی نہیں تھا۔ سرد ہوا گاؤں کے باغ میں کھڑے برگد کے پیڑ پر پڑے جھولے پر جھولا جھولتی الہڑ گوری کی طرح آنگن میں پینگیں لے رہی تھی۔ ہوا کی ایسی ہی کسی پیک دروازے سے ٹکرائی ہوگی اور میں اُٹھ بیٹھا۔

مجھے لگا کہ وہ بوڑھا مجھے آواز دے رہا ہے۔ وہ مجھے دفتر سے لوٹتے وقت ملا تھا۔ بس میں داخل ہونے کے بعد نشست تلاش کرتی میری آنکھوں نے اس بوڑھے کے پاس خالی نشست دیکھ کر دوسری سواری نہ ہونے کااطمینان کرلیا اور میں اس کے قریب بیٹھ گیا۔

اس کی خش خشی داڑھی دراز پیشانی اور سوال کرتی آنکھوں نے مجھے اس سے گفتگو کرنے پر مجبور کیا تھا۔ خیریت پوچھنے کے بعد میں ذاتی سوالات تک اتر آیا۔ گھر میں کون کون ہیں، کتنے بیٹے، بیٹیاں ہیں؟ کس کی شادی کردی ، کون کیا کررہا ہے؟ ان کا آپ کے ساتھ کیسا سلوک ہے، وقت تو بہت بدل گیا ہے، دین میں دلچسپی ہے۔ گاؤں کا منظر نامہ کیا ہے؟ لوگ اس میں کیسے رہتے ہیں؟ محبت اور خلوص کا وہی معیار ہے جو انسانیت کو مطلوب ہے یا وہ جو سیاست دانوں اور خود غرضوں کو؟ کتنے سوال تھے، جو میں نے اس بوڑھے سے کیے تھے۔ وہ بڑی دلچسپی اور خوش اسلوبی سے مجھ سے گفتگو کررہا تھا۔ لیکن سوالوں کا سلسلہ جب انسانی ہمدردی، صلہ رحمی، معاملہ فہمی اور بچوں کے بڑوں سے سلوک کی طرف مڑا تو اس کے چہرے کا درد نمایاں ہوگیا۔ اس کی آواز کھنڈرات سے واپس آتی محسوس ہوئی۔ میں لمحہ بھر کو سٹپٹا کر موجودہ وقت او رحالات کو کوستے ہوئے اس کے ساتھ گفتگو میں نرم لہجہ اور ہمدردی کو ترجیح دیتے ہوئے اس کے سفر کی صعوبتوں کی طرف مڑگیا۔

پھر جب بس میرے مقامی روڈویز پر آکر رکی تو میں نے اسے اپنے گھر کا پتا بتایا۔ اس کے حالات پر ہمدردی جتائی اور دعاؤں میں یاد رکھنے کی خواہش ظاہر کرکے اس سے اجازت طلب کی۔ میری اس کے ساتھ ایک کامیاب ملاقات تھی، میں بہت خوش تھا کہ میں کچھ دیر اس کے درد میں شریک رہا۔ وہ آگے اپنے سفرپر روانہ ہوگیا، لیکن مجھے سوچتا چھوڑ گیا۔

آنگن میں سرد ہوا کی آہٹ پر میں جاگا تھا اور میری آہٹ پر میری بیوی جاگ گئی تھی۔ اس نے جائزہ کی آواز پر حاصل جواب پر اطمینان کرلیا۔ لیکن میرا اطمینان ابھی تحقیق کی قید میں تھا۔ دوبار میں دروازے تک گیا اور اس کی کنڈی درست پاکر واپس لوٹ آیا۔ مجھے آنگن میں آئے ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا لیکن وہ دوبارہ جاگ گئی تھی۔ اور نہایت منکسرانہ اپیل کررہی تھی۔ سوجائیے بہت سردی ہے… صبح لکھئے گا… وہ جانتی ہے کہ میرے کردار مجھے راتوں کو جگادیتے ہیں اور اپنا حق وصول کیے بغیر سونے نہیں دیتے۔

ہاں میں محسوس کررہا ہوں سردی بہت ہے اور اس کے پاس صرف ایک ہلکا کمبل ہے، اتنی سرد رات میں سبزیاں خرید رہا ہوگا۔گاجر، بندگوبھی، شملہ مرچ اور سیم، اس نے بتایا منڈی رات بھر جاگتی ہے، لاکھوں روپے کی خرید و فروخت ہوجاتی ہے۔ رات میں ہی موٹر کرکے نان پارہ نکل جاؤں گا۔ سویرا مقامی منڈی میں ہوگا۔ کمیشن ایجنٹ کے سپرد مال کرکے گھر جاؤں گا سب منتظر ہوں گے۔ سب کے حصے کی خوشی میرے پاس جو ہے اور اسی خوشی میں میری خوشی ہے۔ میرے مختلف سوالوں میں ایک سوال تھا، عمر کے اس پڑاؤ پر جب آپ کو آرام کی ضرورت ہے اور آپ دور دراز کا سفر طے کرکے منڈی منڈی گھوم کر مال خریدتے ہیں آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کو ٹھہرنا چاہیے یا آرام کرنا چاہیے؟ وہ بڑے رازدارانہ انداز میں مسکرایا اور سرگوشی کے انداز میں مجھے سمجھایا اپنی ضرورت مت دیکھو، بلکہ ضرورت بن جاؤ۔ خوشی تمہاری ضرورت اور اہمیت کی تابعدار ہے۔ ضرورت بنئے خوش رہیں گے۔خوش رہنے کے لیے خوشی بانٹنی ہوگی۔ خوشی مفت بھی نہیں ملتی، خوشی خرچ کرنے سے ملتی ہے، خرچ کے لیے آمدنی چاہیے، آمدنی محنت سے حاصل ہوگی اور اسی لیے محنت کی کوئی عمر نہیں ہوتی، جیسی ضرورت ویسی محنت، اب ضرورت محنت کی محتاج ہوگی۔

چار بیٹے اور دو بیٹیاں بیاہ دیں۔ بچوں کے اپنے اپنے کام ہیں اور بچے خوش ہیں، دو سال ہوئے حج سے فارغ ہوگیا۔ اللہ اللہ اور کاروبار۔ کاروبار سے عزت ہے، چار پیسے ہیں، اللہ نے دینے والے ہاتھ دیے ہیں۔ جو کچھ بچتا ہے، سب کو بانٹتے رہتے ہیں۔ گھر میں ایک بیٹی بیوگی کی زندگی گزاررہی ہے۔ اس کے دو بچے پڑھ رہے ہیں ان کی کفالت میرے سر ہے۔ بیوہ بیٹی کبھی کبھار گھر میں کھٹ پٹ کی وجہ بن جاتی ہے۔ میری سرپرستی اس کا حق ہے، میرے مال میں سب کا حق ہے۔ اپنی کمائی میں بڑے سلیقے سے خرچ کرتا ہوں۔ گزشتہ سال بڑے بیٹے کو بڑا خسارہ ہوگیا، وہ پیاسے کنوئیں کی طرح بے چین تھا۔ مجھ سے اس کی بے چینی دیکھی نہیں جارہی تھی، وہ اپنے مال کے لیے پریشان تھا، میں اس کے چہرے پر خوشی کی واپسی کے لیے پریشان تھا۔

میں نے اپنی جمع اس کو دے دی اور موٹر سے کھونچی ٹھیلے پر آگیا۔ یہیں سے زندگی شروع کی تھی بیٹے بیٹیاں بیاہی تھیں، گھر آئے مہمان کی ضیافت کی تھی اور اللہ سے ہمیشہ دینے والا ہاتھ بنائے رکھنے کی دعا کی تھی۔ اپنا غلام بناکر رکھو میرے مولا۔ لینے والا ہاتھ دینے والے سے بڑا ہوتا ہے۔

آنگن میں کھڑے دیر ہوگئی تھی، سردی کاندھوں پر پڑی لوئی سے نیچے اترنے لگی تھی، میں تھکے ہوئے مسافر کی طرح بھاری قدموں سے کمرے میں داخل ہوا اور ٹھٹھرتا ہوا لحاف میں دبک گیا۔ لحاف کی گرماہٹ نے میرے ذہن کو پھر اس منڈی کی طرف منتقل کردیا، جہاں اس نے سبزیاں خریدنے کا ذکر کیا تھا۔ لیکن وہ منڈی میں کہیں نہیں تھا۔ میرے تحت الشعور میں ایک مسجد تھی، جو اس منڈی کے خاص چوراہے سے داہنی طرف تھی۔ مسجد کا بلند دروازہ ایک وسیع صحن میں کھلتا تھا۔ جہاں جالی دار کھڑکیاں ایک عظیم الشان برآمدے کی رونق تھیں۔ چاندنی ان کھڑکیوں سے ہوکر برآمدے کے فرش پر کھڑکیوں کی محرابوں اور جالیوں کا عکس اتار رہی تھی۔ برآمدے کے ایک کونے میں بڑے میاں ایک ہلکے سے کمبل میں لیٹے تھے۔ چاندنی اور کہر آلود سرد ہوا کی گدگداہٹ انہیں بیدار کیے ہوئے تھی، میں محسوس کررہا تھا کہ سرد ہوا اور چاندنی ان کے لیے گلی کے آوارہ بچے ہیں، جو کسی کو بھی مجنوں سمجھ کر کنکریاں مارتے اور قہقہے لگاکر ہنستے ہیں۔ چاندنی اور سرد ہوا انہیں اس طرح اٹکھیلیاں کرتی بیدار کیے تھی۔

کیا ٹھنڈ لگ رہی ہے؟ بیوی نے کروٹ بدل کر پوچھا۔

نہیں مجھے ٹھنڈ نہیں لگ رہی ہے… ٹھنڈ تو اس بوڑھے کو لگ رہی ہے، جو اس سرد رات میں ٹھنڈے فرش پر لیٹا ہے… میں نے بڑی آہستگی سے لحاف سے سرنکال کر کہا۔ مجھے اس وقت اہلیہ کا دخل مخل محسوس ہورہا تھا۔ میرے ذہن میں تو وہ بوڑھا تھا جو مسجد کے صحن میں جاڑے کی وجہ سے بیدار تھا اور سونے کی کوشش کررہا تھا۔

بتی بجھ جانے کے بعد بھی کمرے میں معمولی روشنی تھی۔ دراصل چاندنی کی ایک کرن اوپر روشن دان سے کمرے میں داخل ہوگئی تھی اور اندھیرے سے جنگ میں مصروف عمل تھی۔ اندھیرا اسے ڈھک لینے کی ناکام کوشش کررہا تھا، لیکن چاندنی اندھیرے کو کسی کونے کھدرے میں ڈھکیلنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مجھے چاندنی کا یہ عمل بہت پیارا لگ رہا تھا۔ میں نے مزید منھ کھول کر چاندنی کی مشقت پر خوشی کا اظہار کیا۔ لیکن اچانک وہ بوڑھا میرے سامنے آگیا۔ اسی طرح کروٹیں بدلتا، سکڑتا، سمٹتا ،ٹھٹھرتا۔ دیوار کی طرف منھ کیے سر تک کمبل اوڑھے چاندنی (روشنی) سے جی چراتا۔ اندھیرے اور گرماہٹ کی ضرورت تھی۔

بستر کی گرمی اور بوڑھے سبزی فروش کو تھکن کے خیالی احساس میں گم مجھے کب نیند نے اُچک لیا، پتا نہ چلا۔ جب مؤذن کی بلند آواز نے ٹھٹھرتی ہوئی شب کو روشنی کا پیغام سنایا تو میں نے جانا کہ میں سویا بھی تھا۔ میں وضو سے فارغ ہوکر مسجد کی طرف روانہ ہوگیا۔ میرا ذہن پھر ایک بار منڈی میں واقع مسجد میں پہنچ گیا۔ بوڑھا سبزی فروش دوزانو بیٹھا تسبیح پڑھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مال نہ ملنے کا ملال اور رات بھر سو نہ سکنے کا کرب موجود نہ تھا۔

مجھے اپنی فکر نہیں ہے، اب پوری طرح سے فارغ ہوں، لیکن بیوہ بیٹی اور اس کے دو بچے جن کی کفالت میرے ذمہ ہے، جو میری کمزوری ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں میرے جیتے جی میرے بچے حرص و ہوا کا شکار ہورہے ہیں۔ جب کہ میں کسی کے معاملے میں ہاتھ تنگ نہیں کرتا۔ میرے مولیٰ تو نے انسان کو اتنا خودغرض کیوں بنایا۔ تیری اس حسین کائنات کی مٹی، پانی، ہوا، خوشبو، رنگ، ندیاں، پہاڑ، جنگل اور روشنی سب انسانوں کی خدمت میں بے لوث حاضر ہیں، لیکن خود غرضوں نے ان پر اپنا حق جتایا اور مالک بن گئے۔ خود سیراب ہیں اور دنیا کو پیاسا اور بھوکا ننگا، دیکھنے میں خوش ہیں اس کے الفاظ میرے ذہن میں موجود تھے۔

بوڑھا سبزی فروش میرے ساتھ مسجد تک تھا۔ مسجد گلی کے موڑ پر کہرہ آلود موسم میں سر اٹھائے تنہا کھڑی تھی اس کے وسیع و عریض گنبد انسان کے بونے ہونے اور اللہ کے سر بلند ہونے کی گواہی دے رہے تھے اور ایسا لگتا تھا وہ خاموشی سے ہدایت دہرارہے ہیں کہ تم ہی وہ سربلند امت ہو جو برائی سے روکتے اور حق کی تلقین کرتے ہو۔

مسجد کے بلند گنبد و مینار جن کے سربلند ہونے کااعلان کررہے تھے۔ مسجد میں پھیلاسناٹا ان کو ہدایات کی یاددہانی کرارہا تھا، جنھیں ترک کرکے ہم مطعون ہیں مسجد کے اندرونی ہال میں جعفر چچا دوزانو بیٹھے تھے۔ پہلے مجھے لگا کہ بوڑھا سبزی فروش ہے۔

امیدیں جاگتی ہیں، زندگی میں رنگ بھرتی ہیں۔ آز مائشیں ساتھ رہتی ہیں کہیں زندگی جیتی ہے، کہیں آزمائش حاوی ہوجاتی ہے، آزمائشوں کے نقوش چہرے پر چھوٹتے جاتے ہیں۔ انسانی جسم آزمائشوں اور انعامات کے حصول کا اکھاڑا اور دنگل بنا رہتا ہے۔

بوڑھا سبزی فروش آج بھی آزمائش کی گہری کھائی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کررہا ہے، لیکن ہر بار اور گہرائی میں ڈوب رہا ہے۔ وقت جاگ رہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ بوڑھا ایک ضرورت بن کر زندہ ہے یہ کہانی یہیں آکر ٹھہر گئی۔ میں نے بڑی خاموشی اور سکون سے اگلا دن بطور چھٹی گزارا۔ رات بھی آئی اور گزرگئی وہ بوڑھا میرے ساتھ نہیں رہا اور رات بھی اتنی سرد نہیں تھی۔

صبح معمول کے مطابق دفترکے لیے تیار ہوا۔ مختصر سے انتظار کے بعد بس مل گئی۔ مختصر ہی سا سفر ہوپایا تھا کہ بس رک گئی بس کے مسافروں کی بے چینی اور مایوسی سے یہ معلوم ہوا کہ سڑک پر تصادم ہوا ہے، اور بھاری گاڑیوں کا لمبا سلسلہ راستہ کھلنے کا منتظر ہے۔ ایک سبزیاں بھری ڈی سی ایم ایک بڑے ٹرک سے ٹکرا گئی ہے لوگو ںکے مطابق دو ہلاکتیں ہوئی تھیں، انسانی ہمدردی کا ایک نمونہ یہ ہے کہ لوگ موت کے منظر کو دیکھنے دوڑ پڑتے ہیں۔ اپنی بس کو لائن میں لگا چھوڑ کر میں بھی لوگوں کے ساتھ ہولیا۔ ڈرائیور اور ایک بزرگ اب بھی ڈی سی ایم کے اگلے حصے میں پھنسے ہیں۔ سبزی بھری ڈی سی ایم کے خیال نے میرے ذہن جھنجھوڑ دیا۔ باقی ماندہ کسر بزرگ سبزی فروش کی لاش دیکھ کر پوری ہوگئی۔ میں حیران ہوکر اس لاش کو دیکھ رہا تھا، جس کا سیدھا ہاتھ اوپر اٹھا ہوا تھا اور مٹھی بند تھی، گویا وہ کوئی چیز کسی کو دے رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کی مسافت میرے ذہن میں موجو دتھی۔ اور وہ جملہ بھی کہ ’دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بڑا ہوتا ہے۔‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146