بیسویں صدی کو بجا طور پر اسلامی بیداری کی صدی کہا جاتا ہے۔ مغربی افکار و تہذیب کا وہ طلسم جو اٹھارہویںاور انیسویں صدی میں بتدریج چھاتا جارہا تھا، اس صدی میں اس کا خاتمہ ہوا۔ اکثر زعمائے اسلام نے مغرب اور مغربی فلسفوں کو اپنی تحقیقات کا موضوع بنایا اور تہذیب مغرب کے عیوب و نقائص اجاگر کرنے کے ساتھ اسلام، اسلامی تمدن اور اسلامی ضابطہ حیات کی برتری ثابت کی۔
مغرب کے اس ہمہ گیر تسلط کو توڑنے کے لیے جو نوآبادیاتی دور میں عالم اسلام پر طاری تھا، مفکرین اسلام کو بجا طور پر مغرب کے خلاف بڑا سخت گیر رویہ اختیار کرنا پڑا۔ اسلام اور مغرب کے درمیان نظریاتی کشمکش کا ایک اہم محاذ خواتین کا محاذ تھا۔ جن مسائل و معاملات پر اسلام اور اہل مغرب کے نقاطِ نظر میں بنیادی اور جوہری فرق ہے، ان میں ایک مسئلہ نسواں بھی ہے۔ عورت سے متعلق مغرب کے افکار بھی اکثر اسلامی مصنفین کے نقد و تبصرہ کا مرکز بنے رہے۔ اور زعمائے اسلام نے بڑی خوبی کے ساتھ اس استحصالی رویہ کو اجاگر کیا جو مغرب نے عورت کے ساتھ ، اسکی آزادی اور حقوق کے نام پر، روا رکھا ہے۔
لیکن اس ساری بحث اور مغرب کے سحرکو توڑنے کے جوش نے ہمیں اپنے آپ سے غافل کردیا۔ مغربی عورت کا اسلام کے آئیڈیلز سے موازنہ کرتے ہوئے بہت کم ہمیں یہ موقع ملا کہ ہم اسلام کے انہی آئیڈیلز کا موازنہ مسلم عورت کی عملی صورتحال سے کرسکیں۔ اس صورتحال نے بحث کو بڑی ہی عجیب و غریب صورتحال سے دوچار کردیا۔ اہل مغرب مسلمان عورت کی عملی صورتحال پر تبصرہ کرتے رہے اور ہم اسلام کے آئیڈیلز کو پیش کرتے رہے۔ ان کے تقابل کا موضوع ’’مسلمان عورت کی عملی صورتحال بمقابلہ مغربی عورت‘‘ رہا، جب کہ ہم زیادہ تر ’’مغربی عورت بمقابلہ اسلام‘‘ کے آئیڈیلز تقابل کرتے رہے۔
عورت کو ’’مغربی تہذیب کی گود میں جانے‘‘ سے بچانے کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ ہم یہ ثابت کردیں کہ اسلام نے چودہ سو سال قبل عورت کو فلاں فلاں حقوق دئیے تھے اور حدیث کی کتابوں اور قرآن کی تعلیمات میں ان حقوق کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ یقین پیدا کریں کہ اسلامی تحریکیں اور اسلام پسند حلقے عورت کو اس کے جائز اسلامی حقوق دلانے کے پابند ہیں۔ وہ مسلمان سوسائٹی کی جانب سے ان حقوق کی پامالی پر اتنے ہی حساس ہیں جتنے مغربی سوسائٹی کی جانب سے عورت کے استحصال پر۔ ان کا مقصود اسلام کے آئیڈیلز کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ ان آئیڈیلز کی راہ میں اگر مغربی تصورات رکاوٹ بنتے ہیں تو وہ ان کا سد باب کریں گے اور اگر خود مسلم سوسائٹی کی فرسودہ روایات رکاوٹ بنتی ہیں تو وہ بھی ان کی شدید تنقید کا مرکز بنیں گی۔
شائد تمام قارئین کو اس سے اتفاق نہ ہو۔ بحالت موجودہ یہ یقین پیدا کرنے میں ہم کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ مغرب زدگی کا مسئلہ اپنی کمیت کے اعتبار سے مسلم سوسائٹی میں بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک طبقاتی مسئلہ ہے اور خوشحال طبقہ کی ایک بڑی معمولی اقلیت تک محدود ہے۔ لیکن جائز حقوق کے چھینے جانے کا مسئلہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور سوسائٹی کی بڑی اکثریت اس سے متاثر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہماری علمی و عملی کاوشوں میں اس دوسرے مسئلہ کو نسبتاً بہت کم اہمیت حاصل ہے۔
ہندوستان کی مسلم سوسائٹی کے عناصر ترکیبی میں اسلام کے ساتھ ساتھ بعض غیر اسلامی عناصر بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر مقامی ہندووانہ روایات کا کئی معاملات میں واضح اثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ عورتوں کے معاملے میں ہماری سوسائٹی کا رویہ مکمل طور پر اسلامی نہیں ہے۔ اس پر ہندوانہ اثرات بھی ہیں اور ان مختلف قبائل کی روایتوں کے بھی اثرات ہیں جنھوں نے عہد وسطیٰ میں اس ملک میں مسلم سماج کی تشکیل کی تھی۔ بدقسمتی سے ان میں سے بہت سی روایتوں کو ’’تقدس کا درجہ‘‘ حاصل ہوگیا ہے۔ اور انھیں اسلام کا حصہ سمجھا جانے لگا ہے۔
مغرب کے مقابلہ میں اسلام کے آئیڈیلز کو پیش کرتے ہوئے تمام ہی اسلامی مصنفین نے واضح کیا ہے کہ اسلام نے عورت کو ہر طرح کے حقوق عطا کیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حقوق ہندوستان کی اسلامی سوسائٹی میں عملاً عورت کو حاصل ہیں؟ عام گھرانوں کو چھوڑئیے، پڑھے لکھے دیندار گھرانوں میں کتنے گھرانے ایسے ہیں جہاں عورت کو مالی حقوق حاصل ہیں؟ وہ اپنی مرضی سے آزادانہ اپنا مال کماسکتی ہے اور آزادانہ طور پر خرچ کرسکتی ہے؟ یا ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ کی طرح اپنا مال تجارت میں لگا سکتی ہے اور آزادانہ تجارتی فیصلے کرسکتی ہے؟ کتنے گھرانے ہیں جہاں عورت کو وراثت میں اس کا حصہ ملتا ہے؟ اور کتنے گھر ہیں جہاں شادی سے قبل اس کی رائے معلوم کی جاتی ہے؟
ہندوستان کی مسلم سوسائٹی میں آج بھی اکثریت ایسے گھرانوں کی ہے جہاں عورت محض اپنے شوہر کا ضمیمہ سمجھی جاتی ہے۔ اپنی شخصیت کے ارتقاء اور اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کے لیے اسے مواقع حاصل نہیں ہیں۔ اعلیٰ تعلیم ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہے۔ عملی زندگی اور سماجی کاموں میں شرکت کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور اس سے مشاورت ضروری نہیں سمجھی جاتی۔
لاکھوں مسلم گھرانے ایسے ہیں، جہاں عورت کے لیے اس کا گھر جہنم ہے۔ وہ دن بھر برتن مانجھ کر، اور لوگوں کے گھروں میں کام کرکے پیسہ کماتی ہے اور اس کا شوہر شراب کے لیے نہ صرف اس کی کمائی چھین لیتا ہے بلکہ اسے بری طرح زدوکوب بھی کرتا ہے۔ عورتوں کے زندہ جلائے جانے کے واقعات اب نہ صرف یہ کہ مسلم سوسائٹی میں بھی عام ہوتے جارہے ہیں بلکہ پڑھے لکھے اور متوسط طبقہ کے گھرانوں میں بھی اب یہ واقعات پیش آنے لگے ہیں۔ جہیز آج بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا اور آج بھی مسلم سوسائٹی میں جہیز اور گھوڑے جوڑے کا مطالبہ کرنے والوں کو وہ ناپسندیدگی اور رسوائی نہیں ملی ہے جو چور اچکوں اور اٹھائی گیروں کو حاصل ہے۔
اکثر اسلامی ملکوں میں عورت کو رائے دہی کا حق حاصل نہیں ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثر جماعتوں اور پارٹیوں میں عورتوں کی نمائندگی نہایت درجہ کم ہے اور فیصلہ سازی و پالیسی سازی کے عمل میں تو ان کا رول بالکل ہی نہیں ہے۔ جن مسلمان عورتوں کے ساتھ سماجی خدمات کا کوئی ریکارڈ وابستہ ہے، وہ سب کی سب وہ ہیں جنھوں نے اسلامی اقدار سے بغاوت کرکے یہ کام کیے ہیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ شاید ابھی تک ایسی مسلم خواتین کے تذکروں سے خالی ہے جنھوں نے اسلامی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ملک و سماج کی گراں قدر خدمات انجام دی ہوں۔ جب کہ مغرب کے مقابلہ میں اسلام کی برتری کو ثابت کرتے ہوئے ہم قرون اولیٰ کی ان اولوالعزم خواتین کے تذکرے سے نہیں تھکتے جن کے کارناموں سے تاریخ مزین ہے۔
اس صورتحال کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں اور خاص طور پر عورتوں کے درمیان ان سب فضولیات کے خلاف بغاوت کی کوئی مضبوط تحریک نہیں اٹھتی؟ جو عورتیں اپنے حقوق کے سلسلہ میں حساس ہیں انھیں اس بات کا اطمینان ہونا ضروری ہے کہ جو حقوق اسلام نے انھیں دئے ہیں وہ صرف کتابوں میں لکھے ہوئے نہیں ہیں بلکہ عملاً بھی دئے جارہے ہیں۔ اور اگر نہیں دئے جارہے ، تو انھیں دلانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ان کے جائز حقوق کے لیے صرف مغرب زدہ نام نہاد نسوانی تحریکیں ہی کوشاں نہیں ہیں بلکہ ان سے زیادہ اخلاص کے ساتھ اسلام پسند حلقے کوشاں ہیں۔ عورتوں کو ’’مغرب کی گود میں جانے‘‘ سے بچانے کے لیے اس یقین کا پیدا کیا جانا اولین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں میں عمومی اسلامی بیداری کے لیے ہورہی کوششوں کے ساتھ، اسلام پسند خواتین ایک عملی اسلامی نسائی تحریک چلانے کی کوشش کریں۔ ایک ایسی تحریک جس کے ذریعہ عورتوں کو ان کے جائز حقوق مل سکیں اور ان حقوق کے حصول کے لیے انھیں کھڑا کیا جاسکے۔
دنیا کے کئی علاقوں میں اس کام کی شروعات ہوچکی ہے۔ نائیجیریا میں عائشہ لیمو اور ان کی سرکردگی میں ’’فووان‘‘ فیڈریشن آف ویمنس ایسوسی ایشن آف نائیجیریا (FOWAN) نامی فیڈریشن کا قیام، سوڈان میں ڈاکٹر ترابی اور ان کی زوجہ محترمہ کی قیادت میں خواتین کی تحریک، امریکہ میں محترمہ لیما الفاروقی کی سرکردگی میں چلنے والی خواتین کی انجمنیں وغیرہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ گرچہ مصر، ایران، جنوبی افریقہ، پاکستان وغیرہ ممالک میں اسلام کے نام پر نسوانی تحریکوں کے ذریعہ مغربی افکار کی اشاعت کا کام بھی ہورہا ہے لیکن نائیجیریا، سوڈان اور امریکہ کی متذکرہ مثالوں میں یہ کام اسلامی اصولوں کی پاسداری اور تمام ضروری احتیاطوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ کام ہندوستان میں بھی ہوسکتا ہے۔
ہندوستان میں اس نسائی تحریک کے کئی اہداف ہوسکتے ہیں۔ خواتین میں تعلیم کافروغ، صحیح دینی بیداری، صحت و صفائی سے متعلق بیداری، اس کے چند اہم اہداف ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس تحریک کو عورتوں کو ان کے شوہروں کے مظالم سے بچانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ ہندوستان میں کئی کرسچین مشنریاں اس مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اسلامی تنظیمیں بھی آسانی سے اور زیادہ کامیابی کے ساتھ یہ کام اپنے ذمہ لے سکتی ہیں۔
چند ماہ قبل ممبئی میں ایک سوئس جوڑے سے ملاقات ہوئی جو ۳۲ سال قبل سوئٹزرلینڈ سے ہندوستان آیا تھا۔ اور گذشتہ ۳۲ سالوں سے دونوں میاں بیوی گھریلوں خادماؤں کی بہبود کے لیے کام کررہے ہیں۔ انھوں نے ساری زندگی اس کام کے لیے لگادی ہے اور آج ان کی انجمن سے تقریباً ۲۸ لاکھ گھریلو خادمائیں وابستہ ہیں اور انھیں اپنا مسیحا سمجھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی مثالیں اسلام پسند حلقوں میں کیوں نہیں ملتیں؟
گذشتہ دنوں دلی کی ایک لڑکی نے اپنے جہیز کے لالچی سسرالی رشتہ داروں کے خلاف عین شادی کے دن پولس بلاکر بڑا ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ اگر مسلم لڑکیوں میںیہ بیداری آجائے اور دوچار ایسے واقعات چند مسلم گھرانوں میں پیش آجائیں تو یہ ہزاروں تقریروں اور لاکھوں مضامین سے زیادہ تیز اور تیر بہدف نسخہ ہوگا۔ مجوزہ نسائی تحریک یہ بغاوت پیدا کرسکتی ہے۔
مجوزہ تحریک اس مقصد کے لیے کام کرسکتی ہے کہ عورتیں لازماً وراثت میں اپنا حصہ وصول کریں۔ اگر ضرورت مند نہ ہوں تب بھی اور اگر وہ چاہیں تو اپنے بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں کو بعد میں اپنا حصہ ہبہ کردیں۔ لیکن تقسیم کے وقت بہر صورت انھیں اپنا حصہ ملے۔
مجوزہ تحریک روایتی مسلم سوسائٹی میں عورتوں کو مالی و تعلیمی حقوق دلانے کے لیے کوشش کرسکتی ہے۔ فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی شمولیت بڑھانے کے لیے جدوجہد کرسکتی ہے۔ اس بات کے لیے کوشش کرسکتی ہے کہ خواتین اپنی بنیادی گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی لیاقتوں و صلاحیتوں کو ملک و قوم کے اہم تر معاملات کے لیے بھی استعمال کریں۔
مجوزہ تحریک طلاق کے صحیح طریقوں کے نفاذ کے لیے کوشش کرسکتی ہے۔ اور عورتوں کو اس پریشانی سے بچاسکتی ہے جو طلاق کے غلط طریقوں کی وجہ سے انھیں درپیش ہوتی ہے۔
مجوزہ تحریک توہمات کے خلاف مہم چلاسکتی ہے۔ مسلم سوسائٹی میں ہر جگہ بکثرت گھرانے ایسے ہیں جہاں اگر مرد بیمار ہوں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، اور اگر عورتیں بیمار ہوں تو کسی عامل یا مولوی سے رجوع کرتی ہیں۔ توہمات اور فرسودہ عقائد کے نتیجہ میں علاج و معالجہ کے بنیادی انسانی حقوق سے وہ محروم کردی جاتی ہیں۔ مجورزہ تحریک بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان ناروا تفریق کے خلاف مہم چلاسکتی ہے۔
مجوزہ نسائی تحریک کا دائرہ کار صرف متوسط طبقہ کی پڑھی لکھی خواتین تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا اصل دائرہ کار وہ جھگی جھونپڑیاں ہونی چاہئیں جہاں مسلمان عورت کو واقعتا بیرونی تحفظ اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔
عام نسوانی تحریک کے برخلاف اسلامی نسائی تحریک کو دو جنسوں کے درمیان کشمکش کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ تحریک مردوں کے خلاف نہیں ہوگی بلکہ غیر اسلامی روایات کے خلاف ہوگی، استحصالی رویوں کے خلاف ہوگی اور ان رواجوں کے خلاف ہوگی جن کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔
اس طرح کی کاوشوں کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے سماج میں کشمکش اور انتشار پیدا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں آج تک اصلاح و ریفارم کا کون سا کام کشمکش کے بغیر انجام پایا ہے؟ یہ کشمکش واقعی اتنی بڑی چیز ہے کہ اس سے بچنے کے لیے ان گنت اللہ کی بندیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا جائے؟ کیا بدعات کے خلاف مہم نے کشمکش پیدا نہیں کی؟ کیا عقیدہ کی درستگی کی کوششوں نے کشمکش نہیں پیدا کی؟ جیسا کہ کہا گیا کہ اسلامی نسائی تحریک کو دوجنسوں کے درمیان کشمکش کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے لیکن اگر صحیح خطوط پر ریفارم میں چند شیطانی قوتیں مزاہم ہوتی ہیں تو ان سے لازماً کشمکش ہی ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر حسن الترابی نے اپنی کتاب ’’وومن ان اسلام‘‘ میں بہت صحیح لکھا ہے کہ:
’’روایتی مسلم سماج میں عورت کی صورتحال کے خلاف ایک انقلاب اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ اسلام پسند خود اپنے آئیڈیلز کے ذریعہ اس بات کے لیے مجبور ہیں کہ وہ روایتی سوسائٹی میں اصلاح لائیں۔ اور مثالی اسلام کے ماڈل اور اس کی زوال یافتہ عملی شکل کے درمیان فرق کو ختم کریں۔ عورت کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ ضرورت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ تنگ ہوتی ہوئی دنیا میں موجودہ سماجی رجحانات اس بات کاتقاضہ کرتے ہیں کہ اسلام پسند فوری پیش قدمی کریں اور تبدیلی کی سمت اور رخ پر اپنا کنٹرول قائم کریں، قبل اس کے کہ تبدیلی کی یہ لہر اپنا آزادانہ راستہ اختیار کرے، اجنبی مغربی تصورات جڑ پکڑ لیں اور صحیح سمت میں اسلامی تبدیلی مشکل تر ہوجائے۔
آزادی پسند مغربی تہذیب کے حملے سے بچنے کے لیے مقامی روایات اور ماضی کو نسبتاً کم برائی سمجھ کر اس کے اندر پناہ لینے کی کوشش زیادہ دنوں تک ہمیں محفوظ نہیں رکھ سکتی۔‘‘