سعید: وداعہ! تم کئی روز پڑھنے نہیں آئے، خیر تو ہے؟
وداعہ: استاذِ محترم! اللہ کا شکر ہے۔ میری بیوی بیمار تھی، وہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ اس لیے میرا ناغہ ہوگیا۔
سعید: انا للہ و انا الیہ راجعون، تم نے ہمیں خبر نہیں بھجوائی۔ ہم بھی تو جنازہ میں شریک ہوتے۔
وداعہ: حضرت! خیال نہ رہا اور پھر آپ کو بلا وجہ کیوں تکلیف دیتے۔ محلہ والے سب کافی تھے۔
سعید: اب تمہارا دوسرا نکاح ہوجانا چاہیے، تاکہ تمہارا غم ہلکا ہوجائے۔
وداعہ: حضرت! میں بہت غریب و مسکین آدمی ہوں، بھلا کون آدمی مجھے اپنی لڑکی دے گا؟
سعید: وداعہ! اللہ کی نظر میں تم بہت قیمتی ہو، تم سچے عالم اور باعمل و باکردار انسان ہو اور ابھی ایسے لوگ ہیں جو تم جیسے نوجوانوں کی قدر کرتے ہیں۔
وداعہ: آپ کی دعاؤں اور توجہ کا آئندہ بھی طلب گار ہوں۔
سعید: میری بیٹی جو میرے علم کی امین ہے، باعمل اور حقوق و فرائض سے واقف ہے، خلیفہ نے اپنے بیٹے کے لیے اس کا رشتہ مانگا تھا مگر مجھے ناپسند تھا۔ اب میں اس کا نکاح تم سے کردیتا ہوں۔
(حضرت سعید نے اپنی بیٹی کا نکاح وداعہ سے کردیا اور اس کے بعد وداعہ اپنے گھر چلے گئے۔)
رات کو حضرت سعید اپنی بیٹی کو لے کر وداعہ کے مکان پر پہنچ گئے اور دروازہ کھلوایا۔
سعید: وداعہ! مجھے یہ بات پسند نہ ہوئی کہ بیوی ہوتے ہوئے تم تنہا رات گزارو۔ اس لیے میں تمہاری بیوی کو تمہاری گھر لایا ہوں۔ یہ رہی تمہاری بیوی۔ (اپنی بیٹی کو وداعہ کے گھر کے اندر داخل کردیتے ہیں اور سلام کرکے واپس ہوجاتے ہیں۔ وداعہ کی ماں پڑوس میں تھی ان کو خبر ہوئی وہ بھاگی ہوئی آئیں اور وداعہ سے شکایت کی)
ماں: بیٹا! تم بہت نالائق ہو، تم نے مجھے پہلےبتایا کیوں نہیں، میں نے بہو کے رہنے کا ڈھنگ سے انتظام کیا ہوتا؟
وداعہ: ماں، دراصل مجھے بھی ایسی امید نہ تھی کہ حضرت اچانک ہی اپنی بیٹی کو لے کر آجائیں گے۔
ماں: اچھا تو باہر ہی بیٹھ، میں تیری دلہن کو آراستہ کرتی ہوں اور اس کا بستر لگاتی ہوں۔
(جب وداعہ کی ملاقات اپنی بیوی سے ہوئی تو انھوں نے اپنی بیوی کو علم، حسنِ سیرت اور حسنِ صورت میں بہت ممتاز پایا۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنے استاذ کے لیے دعائیں کرتے رہے۔)