یہ اخبار ٹورنٹو (کنیڈا) سے شائع ہونے والا ’’نیشنل انکوائرر‘‘ ہے۔ جس کا یہ دعویٰ اس کے سرورق پر لکھا ہوا ہے کہ وہ امریکی براعظم کا سب سے کثیر الاشاعت ہفت روزہ ہے۔ اس کی ۱۷؍اکتوبر ۱۹۸۹ء کی اشاعت میں صفحہ ۵۰ پر ایک خبر شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کنیڈا کے علاقے برٹس کولمبیا میں ایک وحشت ناک مجرم کلیفر ڈالولسن کو قتل، زنا بالجبر اور غیر فطری عمل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ یہ شخص نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو روزگار دلانے کے بہانے اپنے ساتھ لے جاتا، ان کو نشہ آور گولیاں دیتا، پھر ان کے ساتھ زبردستی جنسی عمل کرتا اور بالآخر انہیں قتل کرکے ان کی لاشیں دور دراز کے مقامات پر دفن کردیتا تھا۔ جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس نے گیارہ نو عمر بچوں اور بچیوں کے بارے میں یہ اعتراف کیا کہ اس نے ان سب کو ورغلا کر ان کے ساتھ زنا یا لواطت بالجبر کا ارتکاب کیا اور ان سب کو قتل کرکے انہیں مختلف علاقوں میں چھپادیا اور قتل بھی اس بہیمیت کے ساتھ کیا کہ جب ایک بچے کی لاش برآمد ہوئی تو اس کے سر میں لوہے کی ایک میخ اس درندے نے ٹھونکی ہوئی تھی۔
لیکن دلچسپ اور عبرت انگیز بات یہ ہے کہ جب پولیس نے اس درندہ صفت مجرم سے یہ مطالبہ کیا کہ جن گیارہ بچوں کو اس نے اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے ان کی لاشوں کی نشاندہی کرے تو اس نے کہا کہ میں نے ان گیارہ کے گیارہ بچوں کی لاشیں خود اپنے ہاتھوں سے مختلف جگہوں پر چھپائی ہیں اور مجھے یہ جگہیں معلوم ہیں لیکن اگر آپ مجھ سے ان جگہوں کی نشاندہی کرانا چاہتے ہیں تو مجھے فی لاش دس ہزار ڈالر معاوضہ ادا کریں۔ چوری اور سینہ زوری کی ایسی تاریخی مثال کب کسی کے تصور میں آئی ہوگی؟ لیکن نظام قانون کی بے بسی کا اندازہ کیجیے کہ پولیس نے بالآخر اس کے مطالبے کے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔ اور خوشامد درآمد کے بعد جو زیادہ سے زیادہ رعایت اس مجرم نے پولیس کو دی وہ یہ تھی کہ اگر دس بچوں کی لاشوں کی برآمدگی کا معاوضہ یعنی ایک لاکھ ڈالر آپ مجھے دے دیں گے تو گیارہویں بچے کی لاش میں مفت برآمد کرادوں گا۔ بالآخر پولیس نے اس ’’رعایت‘‘ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈالولسن کو ایک لاکھ ڈالر معاوضہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد اس نے کنیڈا کے مختلف شہروں سے گیارہ بچوں کی لاشیں پولیس کے حوالہ کیں ان گیارہ بچوں کی تصویریں بھی اخبار نے شائع کی ہیں اور ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بچے بارہ سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے ہوں گے۔
ان جرائم شنعیہ کی برائے نام سزا:
اس ’’تفتیش‘‘ ، ’’اعتراف‘‘ اور ایک لاکھ ڈالر کے نفع بخش سودے کے بعد جب مجرم پر مقدمہ چلایا گیا تو چونکہ کنیڈا میں سزائے موت کو ’’وحشیانہ سزا‘‘ قرار دے کر ختم کردیا گیا ہے اسی لیے عدالت اس مجرم کو جو زیادہ سے زیادہ سزا دے سکی وہ عمر قید تھی۔ البتہ عدالت نے جرم کی سنگینی کے اعتراف کے طور پر سزا دیتے وقت یہ ’’سفارش‘‘ ضرور کردی کہ اس مجروم کو کبھی پیرول پر رہا نہیں کیا جاسکے گا۔ اخبار نے ’’سفارش‘‘ کا لفظ استعمال کیا جس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ شاید عدالت کا ایسا ’’حکم‘‘ دینے کا اختیار نہیں تھا وہ صرف ’’سفارش‘‘ ہی کرسکتی تھی۔
مقتول بچوں کے والدین:
ان گیارہ بچوں کے ستم رسیدہ ماں باپ کو جب یہ پتہ چلا کہ جس درندے نے ان کے کمسن بچوں کی جان لی اور ان کی عزت لوٹی، اسے ایک لاکھ ڈالر کا معاوضہ ادا کیا گیا ہے تو ان میں اضطراب اور اشتعال کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے ڈالولسن پر ایک ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا۔ جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ کنیڈا کے ٹیکس دینے والوں کے ایک لاکھ ڈالر جو اس درندہ صفت مجرم کی جیب میں گئے ہیں کم از کم وہ اس سے واپس لے کر مرنے والے بچوں کے ورثاء کو دلوائے جائیں لیکن ان کو اس مقدمے میں شکست ہوگئی۔ اپیل کورٹ نے بھی ان کا مقدمہ خارج کردیا اور سپریم کورٹ نے بھی یہ کیس سننے سے انکار کردیا۔
دوسری طرف مجرم ڈالولسن نے ۲۴ جنوری کو ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ اسے جیل میں بہتر رہائشی سہولیات مہیا کی جائیں۔ ہائی کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی اس سے آگے بڑھ کر اس درندے نے یہ درخواست بھی دی تھی کہ مسلسل قید کی وجہ سے مجھے اپنے پاگل ہونے کا خطرہ ہے اس لیے مجھے رہائی دی جائے، لیکن عدالت نے یہ کرم کیا کہ یہ درخواست مسترد کردی۔ جن لوگوں کے بچے اس وحشت ناک ظلم و ستم کا نشانہ بنے انھوں نے اس صورت حال کے نتیجے میں ایک انجمن بنائی ہے جس کا نام ’’نشانہ ہائے تشدد‘‘ رکھا۔ اس انجمن نے پارلیمنٹ کے ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ کنیڈا میں سزائے موت کو واپس لایا جائے۔ اس انجمن کے ایک نمائندے نے اخبار کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’ہم نے ہار نہیں مانی، ہم نے ایک گروپ بنایا ہے، اور ہم نے کنیڈا کی پارلیمنٹ کے ارکان سے مطالبہ کیا ہے کہ کنیڈا میں سزائے موت کو واپس لایا جائے، ڈالولسن جیسے جنسی درندوں کو سدھا جہنم میں بھیجنا چاہیے جہاں کے وہ واقعتا مستحق ہیں۔‘‘
مجرم سے قانونی پیار:
اخبار کی رپورٹ کا یہ خلاصہ ہم نے بے کم و کاست عرض کردیا ہے جو کسی طویل تبصرے کا محتاج نہیں۔ مجرموں کو دی جانے والی عبرتناک سزاؤں کو ’’وحشیانہ‘‘ اور ’’غیر مہذب‘‘ قرار دے کر مجرموں کے ساتھ قانونی پیار کا سلوک کرکے حالت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مجرم کو ایک لاکھ ڈالر (یعنی تقریباً ۴۵ لاکھ سے زیادہ ہندوستانی روپے) کا معاوضہ ادا کیا گیا اور سینے پر اولاد کا زخم کھائے ہوئے ستم رسیدہ افراد کو ایک پیسہ ہرجانہ دینے کی گنجائش پیدا نہ ہوئی۔ مجرم کو جیل میں ’’بہتر سہولیات‘‘ فراہم کرنے پر عدالت نے غورکیا۔ لیکن ’’نشانہ ہائے ستم‘‘ کی فریاد سننے کے لیے کوئی عدالت تیار نہیں۔ دوسری طرف ہمارے دور کے نام نہاد دانشوران اور ماہرین قانون ہیں جنھیں اسلام کا نظام حدود تعزیرات بہیمانہ نظر آتا ہے حالانکہ اس نظام کا قصور یہی ہے کہ اس نے اس قسم کے درندہ صفت مجرموں کے لیے وہ سزائیں تجویز کی ہیں جن کے وہ مستحق ہیں۔